ففتھ جنریشن وار فیئر۔طریقہ کار، سدباب کیا ہے؟
ففتھ جنریش وار فئیر کے موضوع کو چھیڑا ہے تو اس کے مختلف پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ہر بار قارئین کا یہی فیڈ بیک ملتا ہے کہ اس پر مزید لکھا جائے۔ صاحبو، یہ کالم ہے، ڈائجسٹ کی سلسلہ وار کہانی نہیں جو لگاتار چلتی رہے۔ دو کالم پہلے لکھ چکا، یہ تیسرا کالم لکھنا ضروری تھا کہ طریقہ کار کے بارے میں آگہی دیناضروری ہے۔ ففتھ جنریشن وار فئیر آسان لفظوں میں کسی غیر ملکی دشمن ریاست، نان سٹیٹ ایکٹر وغیرہ کی جانب سے آئیڈیازکی ایسی جنگ ہے جس میں کسی ملک کے عوام کو کنفیوز اورفکری طور پر منتشراور تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سائبر وار ہے، جو سوشل میڈیا کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ فیک ویڈیوز، فساد پھیلانے والی فیس بک پوسٹیں، شر انگیز ٹوئٹس، اداروں کو متنازع بنانے کی سوچی سمجھی تحریر، مسلکی، لسانی اور علاقائی فساد پھیلانے کی سازشیں۔ دشمن پر حملہ کئے، میزائل پھینکے بغیر۔ صرف فتنہ پھیلانے، شکوک پیدا کرنے والی تحریریں، ویڈیوز، سٹیٹس مختلف فیک آئی ڈی کی مدد سے ڈال کر وائرل کر دی جائیں اور قوم کا مورال ڈائون ہو۔ جہاں پہلے ہی سے بعض فالٹ لائنز موجود ہوں۔ مختلف صوبوں کے مابین عدم اطمینان، عدم تحفظ موجود ہو، وہاں جلدی آگ بھڑ ک اٹھتی ہے۔ جب ملکی ادارے پہلے ہی سے کسی حد تک متنازع بن چکے ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہو، عدلیہ پر جانبداری کے الزامات عائد کئے جارہے ہوں، سیاست میں شدید قسم کی پولرائزیشن موجود ہو۔ ایک جماعت کے ہیرو، دوسری کے ولن ہوں، ایسے میں دلوں کے اندر جلتے ناپسندیدگی کے الائو معمولی سی کوشش سے نفرت کے بھانبھڑ بن جاتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ففتھ جنریشن وار فئیر صرف حکومت، اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ ہمارا، ہم سب کا، پاکستانیوں کا مسئلہ ہے۔ ملک ہمارا ہے، خدانخواستہ اسے کوئی نقصان پہنچا تو وہ ہمارا نقصان ہے۔ ہم سب اس کے سٹیک ہولڈر ہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کسی ایک بدبخت ڈکٹیٹر کی وجہ سے ہم اپنے ملک کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔ ضیا سے مشرف تک کئی آئے، گئے، آ ج وہ تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے دور میں نشانہ ستم بننے والوں کی ذہنی کیفیت، ان کے کرب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، لیکن انہیں اپنے غصہ، نفرت کا مرکز ڈکٹیٹروں کو بنانا چاہیے۔ فوج بطور ادارہ ہماری محبت، سپورٹ کی حق دار ہے۔ رائو انوار جیسوں کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی چاہیے۔ اس کے لئے پوری جدوجہد کی جائے، اگر ایسا نہ ہو پائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ملک ہی کے خلاف مہم شروع کر دیں۔ اس دنیا میں بہت کچھ فیئر نہیں ہوتا۔ انصاف بعض اوقات نہیں مل پاتا، اس کے لئے ہمیشہ لڑتے رہنا چاہیے۔ مت بھولیں کہ یہ کوئی چھوٹی لڑائی نہیں، لمبی جدوجہد ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ضروری نہیں کوئی غیر ملکی ایجنٹ بن کر، پیسے لے کر ففتھ جنریشن وار فیئر کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ کئی لوگ نادانستہ طور پر بھی استعمال ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ کسی معاملے میں غیر ضروری جذباتیت، حساسیت کا شکار ہو کر بہت آگے چلے جاتے ہیں۔ سرخ لکیریں عبور کرنے سے وہ بعد میں گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اس میں ان کا اپنا قصور ہے۔ ردعمل ہمیشہ تناسب اور توازن میں ہونا چاہیے۔ خلوص، نیک نیتی کبھی غلط کام کا جواز نہیں بن سکتی۔ ہمارے ہاں بعض فقرے بڑی ہوشیاری، ہنرمندی سے تخلیق کئے جاتے ہیں، ایسے چبھتے ہوئے جملے، ون لائنر جو سننے والوں کو اچھے لگیں اور وہ انہیں بلا سوچے سمجھے آگے بڑھا دیں۔ ففتھ وار فئیر میں ان کی بنیادی اہمیت ہے۔ اگر کوشش کروں تو دو تین کالم ایسے سوچے سمجھے خطرناک جملوں پر لکھے جا سکتے ہیں، جو مکمل طور پر غلط اور کنفیوزنگ ہیں یا پھران میں سچ، جھوٹ کی ملاوٹ ایسے ہوئی کہ عام آدمی دھوکا کھا جائے۔ چند ایک مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ یہ دہشت گردی فوج نے خود ہی شروع کرائی ہے، اس کے پیچھے وہی ہے۔ یہ نہایت احمقانہ جملہ ہے۔ یعنی ہزاروں فوجی جوان، افسر، کرنل، بریگیڈئر سے لے کر جنرل کی سطح تک کے اعلیٰ افسر شہید ہوئے اور مارنے والے خود آپ ہیں۔ دنیا میں کون احمق ایسا ہوگا جوپریڈ لائن مسجد حملوں جیسے واقعات میں اپنے ہی بچوں پر گولیاں چلوائے؟ یاد رہے کہ اس حملے میں کورکمانڈر پشاور کا بیٹا شہید ہوگیا تھا یا پھر کمانڈوز کے میس میں خود کش حملے کرائے جائیں۔ ایسا کبھی کہیں ہوتا ہے؟ منظور پشتین کی پی ٹی ایم کا نعرہ ہے: یہ جو (دہشت)گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتے ہیں کہ فوج جس نے جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کر کے اپنے سینکڑوں جوان شہید کرائے، آئے روز فوجی قافلوں پر حملے ہوتے رہے، تو خدانخواستہ ان حملوں کے پیچھے وہ خود ہیں۔ کاش ایسا زہریلا اور گھٹیا الزام لگانے والوں کے منہ میں کوئی خاک بھردے۔ شہدا کے گھروالوں کویہ کہا جائے کہ آپ نے اپنا بیٹا خود ہی مارا ہے تو پھران کا کیا حشر ہوگا؟ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کو قابوکرنے کے لئے مختلف اوقات میں کئی حربے آزمائے گئے۔ ان میں سے ایک مقامی قبائلی لشکر بنانا بھی تھا۔ ایک طریقہ ٹی ٹی پی کو تقسیم کر کے بعض گروپوں کو الگ کرنا بھی تھا۔ یہ سمجھ میں آنے والی حکمت عملی ہے کہ دشمن دہشت گردوں کو جس قدر ہوسکے علیحدہ اور کمزور کرو۔ جو گروپ تھک گئے انہیں امن کی طرف واپس آنے کا راستہ دیا جائے۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ برطانیہ جیسے ملک میں شمالی آئرلینڈ کے گوریلوں کو عام معافی دے کر ملک میں امن قائم کیا گیا۔ یہ باتیں مگر عام آدمی کو سمجھانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ایک بیانیہ ہے کہ پشتون نشانہ بن رہے ہیں، اس لئے پختون تحفظ موومنٹ شروع کی گئی۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ کے پی کے پندرہ سولہ سو فی صد پشتون آبادی والے اضلاع ایسے ہیں، جہاں معمولی سا آپریشن بھی نہیں کیا گیا۔ کیا وہ لوگ پشتون نہیں؟ صاف بات یہ ہے کہ جہاں فوجی آپریشن ہوئے، وہاں پوسٹ آپریشن مسائل پیدا ہوتے ہیں، اسی نوعیت کے قبائلی ایجنسیوں میں بھی ہوئے، ان مسائل کو حل کیا جانا چاہیے، مگر اسے پشتونوں کی مظلومیت کی جنگ نہ بنایا جائے۔ ایک اورجملہ :" فوج نے طالبان بنائے، اب وہی ہمیں مار رہے ہیں۔"یہ بات ہے ہی غلط۔ افغان طالبان اور نام نہاد بدمعاش تحریک طالبان پاکستان میں فرق ہی نہیں کیا جاتا۔ پاکستان نے افغان طالبان کی حمایت کی تھی، یہ بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوا جو سول حکمران تھیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے تحریک طالبان پاکستان تھے، جو دانستہ طور پر دھوکہ دینے کے لئے خود کے ساتھ طالبان نام لگاتے تھے، حالانکہ وہ افغان طالبان کا حصہ تھے اور نہ ہی ان کے کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم کو مانتے تھے۔ جنوبی وزیرستان کا بیت اللہ محسود اس ٹی ٹی پی کا لیڈر تھا، بعد میں حکیم اللہ محسود بنا۔ ان کا افغان طالبان سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی روس کے خلاف لڑنے والے افغان جہاد میں کبھی حصہ لیا۔ پی ٹی ایم میں شامل محسود قبائلی یہ بات جانتے ہیں، مگر پروپیگنڈے کے لئے انجان بن جاتے ہیں۔ ایک اور خطرناک فقرہ ہے :" پنجاب میں اگر دہشت گردی ہو، لاشیں گریں، مسنگ پرسنز بنیں، تب آپ کو پشتون، بلوچوں کے ساتھ ہونے والا ظلم سمجھ آئے گا۔" یہ جھوٹ کی انتہا ہے، بلکہ یہ کہنا ظلم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پنجاب کے ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔ بے شمار فوجی جوانوں کے علاوہ، اسلام آباد، پنڈی، لاہورمیں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں ہوئیں۔ عام پنجابی نشانہ بنے۔ واہگہ بارڈر پر ہونے والا حملہ ہو یا چیئرنگ کراس پر خود کش حملہ، داتا دربار بم دھماکہ ہو یا مون مارکیٹ میں دھماکے سے جھلس کر ناقابل شناخت ہوجانے والی لاشیں، گلشن اقبال پارک میں مرنے والے عام شہری خاندان ہوں یا مختلف شہروں میں ہونے والی درجنوں وارداتیں۔ ان تمام وارداتوں میں استعمال ہونے والے دہشت گرد پشتون تھے۔ ان میں سے کئی خود کش بمبار محسود اور وزیرستان کے رہائشی تھے۔ اہل پنجاب نے مگر اپنے قاتلوں کو صرف دہشت گرد سمجھا، انہیں پشتون نہیں کہا۔ چئیرنگ کراس میں دھماکہ کرنے والاقبائلی تھا، اس کا سہولت کار باجوڑ کا رہائشی اور لنڈا بازار میں دکان چلاتا تھا۔ جیکٹ بھی وہ لنڈی کوتل جا کر لے آیا۔ کسی نے سنا یا پڑھا کہ لاہور میں رہنے والے ہزاروں، لاکھوں پشتونوں، جن میں سے بہت سے باجوڑ، مہمند، وزیرستان وغیرہ کے ہیں، انہیں ایک لفظ بھی شکوہ کا کہا گیا ہو۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی پنجاب میں کم نہیں۔ القاعدہ، کالعدم تنظیموں سے تعلق کے شبہ میں سینکڑوں لوگ غائب ہیں، ماورائے عدالت ہلاکت کے کیسز بھی بہت ہوئے، ملک اسحاق پنجابی ہی تھا ناں۔ صرف یہ ہوا کہ اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک حصہ، ادا کی جانے والی لازمی قیمت سمجھا اور کسی خاص زبان یا قومیت کے خلاف تحریک نہیں شروع کی گئی۔ ففتھ جنریشن وار فیئرایسے ہی بظاہر بے ضرر نظر آنے والے جملوں، فقروں، جھوٹی کہانیوں اور فیک ویڈیوز کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لئے ان مغالطوں کو دور کرنا ہوگا۔ عام آدمی تک حقائق پہنچیں، حکومتی ادارے اپنی ساکھ بہتر بنائیں، ان کی کہی بات پر عوام یقین کریں تو یہ سب سازشیں ان شااللہ ناکام بنا دی جائیں گی۔