ففتھ جنریشن وار فیئر، مغالطے، مبالغے
اپنے گزشتہ (پیر، بارہ فروری )کے کالم میں ففتھ جنریش وارفیئرپر تفصیل سے بات ہوئی۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہمارے سینئر تجزیہ کاروں کو قلم اٹھانا چاہیے، ٹاک شوز ہونے چاہئیں۔ بعض اصطلاحات اپنی غیر معمولی اہمیت کے باوجود متنازع ہو جاتی ہیں یا پھر انہیں اس قدر اہمیت نہیں مل سکتی، جتنا ان کا حق بنتا ہے۔ ففتھ جنریشن وارفئیر کامعاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بعض لوگ نہایت تواتر سے یہ اصطلاح دہراتے ہیں اور کبھی تو لگتا ہے کہ اس سے چابک کا کام لے کر دوسروں کو ڈرانا یا خوفزدہ کرنا مقصد ہے۔ دراصل اس قسم کی اصطلاحات جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہو یا پھراس کی خاص جیوپولیٹیکل اہمیت ہو، وہ اکثر بیشتر سازشی تھیوری سپیشلسٹوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ زید حامد ٹائپ "گلوبل دانشور"، جو دنیا کے ہر کام میں کسی نہ کسی عالمی سازش کی بو سونگھ لیتے ہیں …جیسے بارشیں زیادہ ہوگئیں تو بھارت نے سیاچین پر ایٹمی دھماکہ کر دیا، کم ہوئیں توعالمی سازش کے تحت قحط سالی پھیلانے کی کوشش ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بڑا خطرناک مبالغہ ہے، نقصان اس کا یہ ہے کہ یہ لوگ کسی درست سازش کی بات کریں تو وہ بھی فسانہ اور جھوٹ لگتی ہے۔ دوسری جانب اس کے برعکس بہت سے لوگ اسے سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کر رہے کہ کہیں مشکل موضوع نہ نکل آئے اور پڑھنے سے دماغ میں چھالے پڑ جائیں۔ بعض صحافی، اینکر دوستوں سے کسی موضوع پر بات ہوتو وہ فوری مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی کاغذ کے ٹکڑے پر مطلوبہ معلومات لکھ کر ان کو دے دی جائیں تو وہ دماغ سوزی کر کے اس کا مطالعہ فرما لیں گے۔ اگر انہیں کسی آرٹیکل پڑھنے کا مشورہ دیا جائے تو تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں، غلطی سے کوئی کتاب بتا دی کہ اسے پڑھ لو تومشورہ دینے والے کو ایسی عجیب نظروں سے دیکھیں گے جیسے وہ غریب ہوش وحواس کھو بیٹھا ہے۔ صاحبو! بات یہ ہے کہ اس اصطلاح کو کوئی کانسپریسی تھیورسٹ استعمال کر ڈالے یا پھر کسی کو اندیشہ ہو کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے مخالفین کے منہ بند کرانے کے لئے اسے برتنا چاہ رہی ہے، تب بھی اس کی صداقت، اہمیت اور موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی چاہے تو اس کانام بے شک بدل ڈالے۔ سکستھ، سیون جنریشن وار کہہ دے یا بے شک زیرو وار فیئر ہی بنا دے، نام کچھ بھی ہو، مقصد اہم ہے، اس پرنظر ہونی چاہیے۔ تاریخ انسانی میں پہلی بار ایسے ٹولز یا ہتھیار ایجاد ہوئے ہیں جو خود کو پس منظر میں یا محفوظ رکھتے ہوئے لوگوں کی بہت بڑی تعداد پر اثرانداز ہو سکیں۔ ٹوئٹر، فیس بک جیسی بلائیں پہلے کب تھیں؟ ایک فیک ویڈیو کے ذریعے لاکھوں، کروڑوں لوگوں تک پہنچا، ان کا ذہن بدلا جا سکتا ہے۔ ایسا پہلے کبھی ممکن نہیں تھا۔ آپ کہیں بیٹھ جائیں، کسی بھی آئی ڈی کے ساتھ کام شروع کر دیں، چند ماہ میں اچھی بھلی سرنگیں لگا لیں گے۔ اگرمقامی زبانیں آتی ہیں تو پھر کیا بات ہے۔ نہایت آسانی سے نوجوانوں کے کچے، پکے ذہنوں میں سرائیت کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ تسلیم کر لیں کہ ففتھ جنریشن وار فیئر صرف تین الفاظ نہیں بلکہ اس کا ایک پس منظر اور اس کی اپنی قوت ہے۔ یاد رکھیں کہ انکار(Denial)صرف ریاست نہیں کرتی بلکہ کبھی عوام اور فعال طبقات بھی حقائق کو درست طریقے سے نہ سمجھنے پرسرے سے ان کے انکاری ہوجاتے ہیں۔ دوسرا یہ سمجھ لیں کہ اس قسم کی جنگوں کے اہداف کیا ہیں؟ ہمارے جیسے ممالک میں یہ عوام کو نسلی، لسانی، مسلکی، علاقائی، گروہی اور نظریاتی طور پر تقسیم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے بجائے سندھی، پشتو، بلوچ، پنجابی، سرائیکی قومیت پر اصرار۔ انہیں معلوم ہے کہ ہر ایک کو اپنی زبان، قبیلہ یا برادری، قومیت سے محبت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رب کریم نے یہ محبت دلوں میں پیدا کی ہے۔ سرکار مدینہ ﷺنے بہت بار مکہ مکرمہ سے شدید محبت کا اظہار کیا، اپنے قبیلے سے آپ ﷺ کو محبت تھی۔ اس سے روکا بھی نہیں گیا۔ ہاں یہ کہا گیا کہ ظلم پر اپنے قبیلے کا ساتھ دینا عصبیت ہے۔ اپنی زبان، قبیلے، برادری، قومیت سے محبت برائی نہیں، ایسا کرتے ہوئے دوسروں کے لئے نفرت، ناپسندیدگی، بیزاری پیدا کرنا غلط ہے۔ یہ نفرت کے جذبات بڑی ہنرمندی سے پیدا کئے جاتے ہیں۔ ہتھیار یہ ہے کہ مشترک باتوں کو ہدف بنا کر ختم کیا جائے۔ مشترک چیزیں ہی ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں۔ پنجاب میں رہنے والے ایک شخص اور وزیرستان میں رہنے والے کسی قبائلی پشتون، کوئٹہ کے کسی بلوچ، سانگھڑ کے کسی سندھی، گلگت کے کسی رہائشی کے درمیان بعض مشترک رشتے ہیں۔ وہ رشتے ہی قوت ہیں اور وہی کمزوری۔ انسان ہونا، مسلمان ہونا اور پھر پاکستانی ہونا ان کے مابین رشتے ہیں۔ پاکستان کے مفادات سب کو ایک کر دیتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا جیتنا نہال کر دیتا ہے۔ انہوں نے ایک خاص پاکستانی کلچر میں پروان چڑھا، اردو پڑھی، پاکستانی اخبار پڑھے، ٹی وی چینل دیکھے، سکول، کالج کے ایک خاص نصاب کو پڑھا، تحریک پاکستان کے قائدین سے انہیں محبت، عقیدت ہوئی۔ ریاست نے ایک خاص لاشعوری انداز میں ان کے مابین مشترک رشتے اورتعلق کی کئی جہتیں قائم کر دیں۔ ان میں بات کرنے کے لئے بہت کچھ موجود ہوتا ہے۔ سمجھدار قومیں ان رشتوں کو مضبوط کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں دو غلط کام ہوئے۔ بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام کاانتظامیہ، حکومت، ریاست سے اعتماد کم ہوا۔ ملک کے کسی بھی گوشے میں کوئی فرد، خاندان کسی بھی وجہ سے خوفزدہ ہو، مسائل کا شکار ہو تو وہ پولیس کی طرف جانے سے ڈرے گا۔ ریاست کا انتظامی چہرہ پولیس ہے۔ یہ ظالم خوفناک چہرہ اسے حکومت، ریاست کے قریب نہیں آنے دیتا۔ یہ سلسلہ طول پکڑتا ہے، صحت، تعلیم، روزگار، غرض ہر معاملے میں لوگوں کا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ فوج یا اسٹیبلشمنٹ باہر رہ کر معاملات سدھارنے میں مدد کر سکتی تھی، جب مختلف مواقعوں پر اس نے حکومت سنبھال لی تو پھر معاملات بگڑ گئے۔ جس ادارے کو غیر متنازع ہونا چاہیے تھا، وہ متنازع ہوگیا۔ فطری طور پر اس پاور پالیٹیکس میں اسٹیبلشمنٹ کا ٹکر سیاستدانوں سے ہوئی، جن کا عوام میں ووٹ بینک اور اثرورسوخ تھا۔ یوں سیاسی بنیاد پر خاص قسم کے تعصبات شروع ہوئے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک ایک کر کے کئی اہم طاقتور سیاسی گروہوں، جماعتوں کے ساتھ معاندانہ جذبات پیدا کر چکی ہے۔ جنرل ضیا الحق نے پیپلزپارٹی کو ہدف بنا کر جیالوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات پیدا کر دئیے۔ وہی کام جنرل مشرف نے مذہبی قوتوں کے ساتھ کیا، حالیہ برسوں میں یہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوا۔ بلوچ، پشتون قوم پرستوں میں پہلے سے تلخیاں موجود ہیں۔ اس وقت سوائے تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کو کسی موثر سیاسی قوت میں پزیرائی حاصل نہیں۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہو، ہر دس پندرہ برس بعد اقتدار میں آنے جانے کا سلسلہ جاری رہے تو پھر بہت سے شکوک وشبہات مستقل وجود اختیار کر لیتے ہیں۔ سیاسی کارکن پھر اداروں کی کہی بات کو اتنا سیریس نہیں لیتا، وہ ان میں چھپے معنی، سازش تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تھوڑی بہت سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے، اخبار پڑھنے، ٹی وی دیکھنے والے نسبتا ہوشیار لوگ ہی سب سے زیادہ رائے سازی، ذہن بناتا ہے۔ عام آدمی پر انکی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔ دوسرا بڑا فیکٹر علاقائی صورتحال، طاقتور پڑوسی، خطے میں عالمی قوتوں کی آویزش اور پڑوس میں وار تھیٹر کا کھلنا رہا۔ کم ہی ممالک ایسے ہوں گے جنہیں اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے، طاقتور ہمسایے کا سامنا ہو، اس کے ساتھ تین چار بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہوں، جن میں سے ایک جنگ کے نتیجے میں وہ ملک آدھا ہوگیا ہو۔ ایسا جس کے ساتھ ہوگا، مستقل بنیاد پر عدم تحفظ، حساسیت اور خدشات اس ملک وقوم کے ساتھی بن جائیں گے۔ دنیا کے کم ہی علاقے ایسے ہیں جہاں سپرپاورز ایک دوسرے سے باقاعدہ سینگ پھنسا کر لڑتی رہیں، لڑ رہی ہیں۔ روس، امریکہ کی باقاعدہ پنجہ آزمائی افغانستان میں ہوچکی۔ امریکہ چین کے مابین ٹسل ہر ایک کو نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کو یہ سب سہنا، بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کم ہی ممالک ایسے ہوں جن کے پڑوس میں تیس سال کے دوران تین جنگیں لڑی جا چکی ہوں، کئی ملین لوگ وہاں سے مہاجر بن کر اس ملک میں آباد ہوں، ان کی آمدورفت کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ پاکستان بدقسمتی سے ان تینوں، چاروں بدترین منظرنامے (Scenario) کا حصہ ہے۔ تنقید کرنا بہت آسان ہے، لیکن اگر پاکستان کا دوسرے ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچا جائے کہ ان ممالک میں سے کتنے ہیں جن کا بھارت جیسا پڑوسی ہے، جس کے ساتھ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوچکا، جس کے اردگرد سپر پاور" لان ٹینس "کھیل رہی ہیں، جس کے پڑوس میں تین جنگیں ہوئیں، ایسا پڑوس جن کی نصف آبادی اس کی دوست، باقی ماندہ سخت مخالف ہے۔ ایک چوتھا منظرنامہ بھول گیا۔ ان سب کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہم اپنے بے شمار مسائل کے خود ذمے دار ہیں، غلطیاں بے پناہ کیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی سنگین مسائل ان آس پاس کی جنگوں، مخالف پڑوسی، عالمی قوتوں، دوست ممالک کی آویزش سے پیدا ہوئے۔ باقی باتیں اپنی جگہ، یہ سب ففتھ جنریش وار فیئر کے لئے آئیڈیل ماحول فراہم کرتا ہے۔ بات لمبی ہوگئی، مگر ایشو اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس نمٹانے میں ایک دو مزید نشستیں لگیں گی۔