فتح مبین
وہ انہونی ہوگئی، جس کی ہم پچھلے بیس برسوں سے امید لگائے بیٹھے تھے، جس کا سوچتے، کہتے اور لکھتے رہے۔ امریکہ جیسی سامراج قوت کو آخرکار شکست ہوئی، اس کے گماشتوں کو بھی رسوائی اٹھانا پڑی اور جنہیں بڑے تکبر اور غرور سے اس نے بیس سال پہلے نکالا تھا، وہ نئے جوش وجذبے سے واپس لوٹ آئے۔ طالبان کو یہ عظیم فتح مبارک ہو۔
یہ طالبان کی فتح ہے، ایک بے سروساماں گروپ کی کامیابی، جس نے دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کا اپنے جذبے، دلیری اور اللہ پر توکل سے بھرپور مقابلہ کیا اور فتح یاب ہوئے۔ امریکی طالبان حکومت، ان کی قوت، فکر اور اس گروہ کا نام ونشاں مٹانے آئے تھے۔ حکومت تو انہوں نے ختم کر لی، مگر طالبان بطور تنظیم اور قوت ختم نہ ہوسکے۔ فکر، سوچ اور گروہ کے طور پر ان کا نظم، سٹرکچراور قیادت بھی قائم رہی۔ اس سے بڑی طالبان کی کامیابی کیا ہوگی کہ انہی امریکیوں کے سامنے وہ پھر سے اپنے وطن میں سرخرو، سربلند فاتح کی حیثیت سے نظر آ رہے ہیں۔
یہ مگر صرف ایک گروہ، تنظیم یا قوت کی فتح نہیں، یہ ایک نظریے، فکر اور سوچ کی کامیابی بھی ہے۔ طالبان کی کامیابی سے دنیا بھر میں سامراجی قوتوں سے نبردآزما محکوموں، چھوٹے گروہوں، تنظیموں کویہ حوصلہ ملے گا کہ ہتھیاروں کی کمی، مال واسباب نہ ہونے کے باوجود بھی کامیاب ہوا جا سکتا ہے۔ شرط صرف ایک ہی ہے کہ اپنے عوام سے جڑے رہیں، انہیں نقصان نہ پہنچائیں، دہشت گردی کے بجائے عوام کے دلوں میں سرائیت کرنے کی کوشش کریں اور کسی گلوبل ایجنڈے کے بجائے اپنے وطن کی آزادی کی خاطر قابض فوجوں سے لڑیں، تب انہیں کامیابی ملتی ہے۔
امریکیوں کو بدترین شکست ہوئی ہے۔ لگتا ہے قدرت امریکیوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں۔ امریکہ نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ طالبان کے ساتھ قطر میں معاہدہ کیا، مقصد یہی تھا کہ طالبان ان پر حملے نہ کریں اور امریکیوں کو محفوظ، باعزت واپسی کا راستہ مل سکے۔ امریکہ سمجھ رہا تھا کہ وہ آرام سے نکل جائے گا اور اپنی فتح کا دعویٰ بھی کر لے گا۔ ان کا خیال تھا کہ افغان حکومت سال ڈیڑھ تو آرام سے نکال لے گی، بعد میں گر بھی گئی تو یہ اشرف غنی کی شکست تصور ہوگی اور امریکی حکومت آرام سے یہ بیان دیدے گی کہ افغان اپنے معاملات خود حل کریں۔ امریکہ کی بدترین انٹیلی جنس، دفاعی، عسکری ناکامی یہ ہے کہ انہیں اس کا معمولی سا اندازہ بھی نہیں ہوسکا کہ طالبان صرف دس بارہ دنوں میں پورا افغانستان اپنے کنٹرول میں کر لیں گے۔ سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ اپنے تمام تر وسائل، بے شمار ایجنٹوں اورلاتعداد افغانی گماشتوں کی مدد کے باوجود سی آئی اے اس منظرنامہ کی پیش گوئی نہ کر سکی۔ ایسی ہی انٹیلی جنس ناکامی امریکہ کو بیالیس سال پہلے ایران میں ہوئی تھی۔ تب بھی وہ آخری وقت تک شاہ ایران کی حمایت کرتے رہے اور اس کی جیت کی امید لگائے بیٹھے تھے، بعد میں بری طرح رسوا ہوئے۔ اب افغانستان میں وہ سب کچھ پھر دہرایا گیا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی اور ان کے اتحادیوں کو بڑی ذلت آمیز شکست اور خفت اٹھانا پڑی۔ امریکہ نے اربوں ڈالر افغان فوج کی تربیت پر خرچ کئے، انہیں جدید اسلحہ دیا، جدید آلات اوراچھی خاصی فضائی قوت بھی بنا دی۔ یہ سب کچھ ٹھس ہوگیا۔ افغان فوج نے بزدلی، بے ہمتی اور کمزوری کی انتہا کر دی۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ ہتھیار اور ٹیکنالوجی نہیں جنگیں جذبے اور دل سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔
اشرف غنی آخری تجزیے میں پرلے درجے کے غبی، نالائق، عاقبت نااندیش اور ہٹ دھرم ثابت ہوئے۔ وہ حالات کو سمجھ ہی نہیں سکے، انہیں اندازہ ہی نہیں ہوپایا کہ کیا کرنا چاہیے۔ ان میں تھوڑی بہت بھی دانش ہوتی تو امریکیوں کے معاہدے کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے معاہدہ کر لیتے اور تب شائد کچھ باعزت پسپائی ہوتی۔ وہ ڈھٹائی کے ساتھ اڑے رہے اور نوشتہ دیوار دیکھنے سے گریزاں رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اور ان کے ساتھیوں کو کابل سے فرار ہو کر پڑوسی ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ اشرف غنی تاریخ کے ترازو میں تولے گئے، ناقص اور ہلکے نکلے اور اٹھا کر پھینک دئیے گئے۔
اس پورے معاملے کا ایک نہایت خوشگوار پہلوافغان وار لارڈز کی بدترین شکست اور بے عزتی ہے۔ رشید دوستم جیسا سفاک قاتل جو دو دن پہلے تک طالبان کو دھمکیاں دے رہا تھا، بزدلوں کی طرح بھاگا اور ازبکستان میں پناہ لینا پڑی۔ یہی حال بلخ کے سابق گورنر عطا محمد کا ہوا۔ امراللہ صالح جو پچھلے پانچ سال پاکستان کے خلاف سازشیں اور دھمکی آمیز بیانات دیتا رہا، اسے بھی بھاگنا پڑا۔ ہرات کا سابق گورنر اسماعیل خان جو خود کو شیر ہرات کہلاتا تھا، اس نے بھی بہادری سے لڑنے کے بجائے فرار ہونے کی کوشش کی اور پکڑے جانے پر سرنڈر کرنا پڑا۔ طالبان نے غیر معمولی کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسماعیل خان سمیت سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ یہ مستحسن رویہ ہے۔ افغان وارلارڈز میں سے کسی کے حصے میں بھی بہادری سے لڑ نے کا اعزاز نہیں آیا۔ وہ کاغذی شیر ثابت ہوئے اور رسوا ہوئے۔
ہمارے ان تجزیہ نگار، دانشور، صحافی، سابق سفارت کاروں کے حصے میں بھی شرمندگی اور خفت ہی آئی جو پچھلے بیس برسوں سے ریاست پاکستان کو یہ مشورہ دے ر ہے تھے کہ طالبان کا ساتھ چھوڑ کر امریکہ کی کٹھ پتلی افغان حکومت کے ساتھ مل جائیں۔ ان میں سے بعض کے حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ قریبی مراسم تھے۔ ان کے ہر تجزیے، کالم اور پروگرام میں یہی سبق ہوتا کہ طالبان کو چھوڑ کر افغان حکومت کی بات مانی جائے، اس کی حمایت کی جائے۔ اگر پاکستانی ریاست اور ادارے ان تجزیوں کومعمولی سی اہمیت اور وقعت دیتے تو آج بھارت کی طرح ہم بھی کابل میں منہ چھپائے پھر رہے ہوتے۔ ثابت ہوا کہ ہمارے ان تجزیہ کاروں کو زمینی حقائق سے واقفیت نہیں تھے، وہ کابل کے شاہی محل میں مہمان بن کر، کابل کے پاکستان مخالف حلقوں میں گھوم کر ان کا بیانیہ درست اور سچ سمجھ بیٹھے۔ انہوں نے مسلسل پاکستانی قارئین، ناظرین کو گمراہ کیا، ان کی غلط رہنمائی کی۔ ان سب تجزیہ نگاروں، دانشوروں، سفارت کاروں وغیرہ کو اپنے غلط، کمزور اور بے بنیاد تجزیوں پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
افغانستان اور طالبان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی سو فی صد درست اور بھارت کی پالیسی مکمل طور پر غلط نکلی۔ ہم پر بے پناہ امریکی دبائو تھا، اس کے باوجود جس حد تک ممکن تھا پاکستانی اداروں نے طالبان کے لئے گنجائش پیدا کی، ان کی قیادت، سٹرکچر، کوئٹہ شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک وغیرہ کے خلاف آپریشن نہیں کیا۔ پاکستانی عوام کے ایک بڑے حصے نے نام نہاد پاکستانی طالبان ٹی ٹی پی پر تنقید کی، ان کی مخالفت کی، مگر ملا عمر کے افغان طالبان کی حمایت جاری رکھی۔ یہ درست پالیسی تھی۔ تاریخ نے اسے سچ اور درست ثابت کیا۔ انڈیا کی بیس برسوں کی سرمایہ کاری افغانستان کی ریت میں مل گئی۔ اس نے طالبان کے خلاف سازشیں کیں، اشرف غنی حکومت کی آخری وقت تک حمایت کی، اب وہ شرمندہ اور پریشان ہیں۔
طالبان تو خیر فاتح ہوئے، سرخرو، سربلند ہیں۔ آج وہ تجزیہ کار جنہوں نے مشکل حالات میں افغا ن طالبان کی حمایت کی، ان کے نظریے اور اللہ پر یقین کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں بات کی، وہ سب مبارک باد اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اوریا مقبول جان، ارشاد احمد عارف، انصار عباسی اور ان جیسے دیگر قلم کاروں کی دانش، ویژن اور درست تجزیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ انہوں نے سامراج سے لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کی اوراس پر ڈٹے رہے، اللہ انہیں اس کا اجر دے گا۔
افغان طالبان نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس بار ان کا رویہ پہلے سے یکسر مختلف، میچور اور دانش مندی پر مبنی ہے۔ انہوں نے عام معافی کا اعلان کر کے بہت سے دل جیتے ہیں۔ انہیں تحمل، سمجھداری اور احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ ملابرادر عبوری حکومت کے سربراہ بنتے ہیں تو معاملات بہتر طریقے سے آگے بڑھیں گے۔ طالبان کو سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اب یہ اپنے ملک کی تعمیر کا وقت ہے۔ تقسیم ختم کرنے، مل جل کر کام کرنے کا وقت۔ پاکستان کو طالبان، افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل دئیے بغیر ان کی صرف سپورٹ کرنی چاہیے۔ وہ اپنے فیصلے خود کریں۔ ہمیں ان سے کچھ نہیں چاہیے، بس وہ اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ اللہ طالبان کو آگے بھی کامیاب اورسرخرو رکھے، آمین۔