دو انتہائیں
دو تین دن پہلے ایک دوست دفتر تشریف لائے، رسمی گفتگو کے بعد فرمانے لگے کہ آپ افغان طالبان کی اتنی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ اس پر حیرت ہوئی، حیرانی سے پوچھا، آپ کو یہ تاثر کیسے ملا؟ وہ دوست کہنے لگے، آپ نے ایک پورا کالم اس پر لکھا کہ افغان طالبان الگ ہیں اور ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان الگ تنظیم تھی، ایسا کیوں کیا؟ وہ صاحب ان تمام معاملات کو اچھی طرح سے جانتے تھے، اس لئے پوچھا، آپ کی معلومات کے مطابق یہ بات درست نہیں؟ کہنے لگے، بات توٹھیک ہے، مگر اس وضاحت کی کیا ضرورت تھی، اچھا ہے افغان طالبان کے خلاف اس بہانے ناپسندیدگی کی فضا موجود ہے، لوگ دونوں طرح کے طالبان کو ایک سمجھتے اور دونوں سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں، یہ تاثر برقرار رہنا چاہیے۔ ان صاحب کی بات سنی اور کہا، اس کا جواب دیتا ہوں، مگر پہلے یہ بتائیں کہ طالبان حمایت کے تاثر کی کوئی اور دلیل ہے آپ کے پاس۔ انہوں نے برجستہ جواب دیا، " طالبان آ رہے ہیں "جیسی سرخی خود بتا رہی ہے کہ آپ ان کے حامی ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔
اس طرح کا تاثرمیرے نام آنے والی بعض ای میلز اورٹیکسٹ پیغامات سے بھی ملا۔ اپنے ان دوست کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بطور تجزیہ کار میری ذمہ داری ہے کہ اس خطے میں آنے والی اہم تبدیلیوں پرکالم لکھوں۔ افغانستان میں طالبان کا دوبارہ ابھرنا اورممکنہ طور پر پھر سے اقتدار میں آنا اس قدر اہم اور بڑا واقعہ ہے کہ کوئی بھی لکھنے والا اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ جہاں تک"طالبان آ رہے ہیں "کی سرخی کی بات ہے تو بالکل انہی الفاظ میں کئی اہم مغربی نیوز ویب سائٹس اور اخبارات کی سرخیاں آ رہی ہیں۔ طالبان کو افغانستان میں ملنے والی کامیابیاں ایک امر واقعہ ہیں۔ کوئی اسے مانے نہ مانے، پسند کرے نہ کرے، چاہے نہ چاہے، یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔ میں یا کوئی اور اردو، انگریزی یاکسی بھی زبان میں لکھنے والے کے تجزیے سے افغانستان کے حالات اور حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔ ہم میں سے کسی کی مخالفت سے طالبان ختم ہوسکتے ہیں اور نہ مدح سے طالبان کو فتح مل سکتی۔ افغان طالبان کی اپنی عسکری جدوجہد ہے۔ وہ اگر فتح یاب ہوئے تواس کے اپنے اسباب ہوں گے، وہ اس کامیابی کو کس حد تک آگے بڑھا پائیں، دوسرے نسلی، لسانی گروپوں کے لئے کتنی گنجائش، جگہ پیدا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس پر بہت کچھ طے ہوگا۔ ہمیں صرف اپنے پہلے سے قائم تعصبات سے اوپر اٹھ کر انصاف اور غیر جانبداری کے ساتھ تجزیہ کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں کریں گے تو اپنے قارئین یا ناظرین کے ساتھ دھوکہ ہوگا۔
جہاں تک ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے الگ ہونے کا معاملہ ہے، یہ بھی امر واقعہ ہے۔ کیا سراج حقانی اور ملا داداللہ کا رویہ بیت اللہ محسود یا حکیم اللہ محسود کے طرز عمل سے انتہائی مختلف بلکہ متضاد نہیں رہا؟ ملا داد اللہ مرحوم، سراج حقانی یا کسی دوسرے افغان طالبان کمانڈر بشمول امیر طالبان ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کبھی پاکستان کے خلاف کوئی بیان دیا، کبھی پاکستانی اداروں یا حکومت، عوام پر حملے کئے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ جب ایسا ہوا تو پھر میرے جیسے لوگوں کو بھی یہی لکھنا چاہیے۔ دیانت داری کا تقاضا یہی ہے۔
میں نے اپنے دوست کو سمجھایا کہ افغان طالبان اور میرے جیسے لوگوں کے درمیان کیا قدرمشترک ہوسکتا ہے؟ میرا فہم دین، طرز زندگی، طرز عمل طالبان سے بالکل مختلف ہے۔ میں عصری اداروں سے تعلیم یافتہ ایک جدید ذہن والاصحافی ہوں، جس کی ڈاڑھی نہیں، وہ کلین شیو ہے، صحافیوں کا مقبول پہناوا جینز شرٹ پہنتا ہے جسے طالبان مغربی لباس سمجھتے ہیں۔ جو ناول پڑھتا، فلمیں دیکھتا، سپورٹس سے جسے بے پناہ دلچسی ہے، وہ ان تمام موضوعات پر لکھتا بھی ہے۔ جو خواتین کی تعلیم کا بھرپور حامی ہے، جس کی اپنی بیٹی کالج میں پڑھتی ہے اور باپ کی یہی خواہش ہے کہ بچی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ اخلاقی قدروں کا البتہ بھرپور حامی اور قائل ہوں کہ پاکستانی سماج کے فیبرک میں مذہب موجود ہے، اس حقیقت کا ہر ایک کو احترام کرنا چاہیے۔ میں اس کامگر قائل نہیں کہ ریاستی نظام جبر کے ذریعے اسلام نافذ کرے۔ نفاذ سے زیادہ ہم نفوذ کے حامی ہیں۔ ریاست عوام کی اخلاقی، مذہبی تربیت کا پورا اہتمام کرے، مگر یہ سب سلیقے اور قرینے سے کیا جائے۔ لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے بجائے انہیں دین کی طرف راغب کیا جائے۔ افغان طالبان کے نظام میں ہمارے جیسے لوگوں کے لئے کیا جگہ ہوسکتی ہے؟
افغان طالبان کے حامی سے زیادہ یہ کہنازیادہ مناسب ہوگا کہ ان کے لئے نرم گوشہ ہے۔ تین وجوہات ہیں۔ ایک تو ان پر نیٹو فورسز کا حملہ غلط اور ناانصافی پر مبنی تھا۔ امریکہ نے اپنی بے پناہ طاقت کے زور پر ایسا کیا اور قانونی، اخلاقی تقاضے پورے نہیں کئے۔ طالبان کی اپنے ملک پر قابض غیر ملکی افواج کے خلاف جدوجہد اخلاقی، اصولی اعتبار سے جائز اور درست تھی۔ دوسرا افغانستان میں طالبان واحد پرو پاکستان قوت ہے، بطور پاکستانی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ آپشن یہ ہے کہ امر اللہ صالح اور ان جیسے پاکستان دشمنوں کی افغانستان میں حکومت ہو، جو مسلسل پاکستان کے خلاف سازشیں کرے اور پہلو میں خنجر گھونپنے کی کوشش کرے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ وہاں طالبان کی حکومت ہو یا حکومت میں غالب شیئر ہو، وہ پاکستان دشمنی کے بجائے پرامن طریقے سے پڑوسی کے طور پر رہیں اور اپنے ملک کی تعمیر کریں۔ ان دو میں سے ایک آپشن چننی پڑے تو جواب مشکل نہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کا وجودپچھلے بیس برسوں میں افغان حکمرانوں کی نالائقیوں، کرپشن اور سفاکانہ خودغرضی کی مرہون منت ہے۔ کس نے حامد کرزئی یا اشرف غنی کو منع کیا تھا کہ وہ افغانستان کی پشتون آبادی کے مسائل حل نہ کریں اور ترقی کے تمام تر مواقع سے انہیں باہر کر دیں؟ امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر کے قریب خرچ کر ڈالا۔ امریکہ صرف دو ڈھائی سو ارب ڈالر افغانستان کے انفراسٹرکچر پر خرچ کر دیتاتو وہاں سب کچھ بدل جاتا۔ سٹرکیں بنتیں، ہر صوبے میں جدید ہسپتال، سکول کالج یونیورسٹیاں، صاف پانی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے سکل بیسڈ اانڈسٹری بنائی جاتی تو آج شائد طالبان کا نام تک نہ ہوتا۔ افغانستان میں اصل ناکامی امریکہ کی ہے۔ اس نے بے پناہ دولت خرچ کی، مگر اس سے افغانستان کی تعمیر ہوپائی اور نہ ہی افغان عوام کی تقدیر بدلی۔ امریکہ کو عسکری محاذ پر بھی ناکامی ہوئی اور افغانستان میں ڈویلپمنٹ کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو امریکیوں کے حصے میں یہاں بھی ہزیمت آئی۔
طالبان کے حوالے سے بحثوں کا ایک اور دلچسپ مگر خطرناک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ ہمارے ہاں ایک خاص قسم کی رومانویت میں مبتلا حلقہ غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہے۔ ایک سینئر اور قابل احترام لکھاری کا ٹوئٹ دیکھا جس میں انہوں نے کہا، " طالبان کی کامیابی سے اب یہ پروپیگنڈہ ختم ہوگیا کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے جمہوریت واحد طریقہ ہے۔" گویا انہوں نے ترغیب دی کہ افغان طالبان کی طرح مسلح جدوجہد سے بھی اقتدار پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور ٹوئٹ دیکھا، " طالبان کی کامیابی کے بعد پاکستان میں مقتدرہ کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی اسی طرح کی بھرپور تحریک اٹھ کھڑی ہوگی۔" یہ دونوں باتیں غلط اور خلاف واقعہ ہیں۔
افغان طالبان کی بیس سالہ گوریلا جنگ اور مزاحمت ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے نہیں تھی۔ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں، طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور قابض افواج دو عشروں تک ملک میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئیں۔ طالبان کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ غیر ملکی فوج کو باہر نکالنا تھا۔ تمام تر قربانیوں اس کے لئے دی گئیں۔ اس دوران جو حکومتیں افغانستان میں بنیں، وہ امریکہ کی کٹھ پتلی تھیں، کرزئی سے اشرف غنی تک کوئی بھی افغان عوام کا منتخب لیڈر نہیں تھا، تمام الیکشن مشکوک اور قابل اعتراض تھے۔ سب سے اہم کہ افغانستان میں پشتون اکثریتی آبادی ہے، کرزئی اور اشرف غنی دونوں پشتون ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کے ادوار میں تاجک اقتدار پر چھائے رہے۔ ازبکوں اور ہزارہ آبادی کو بھی اپنے جائز حق سے کئی گنا زیادہ ملا، مگر پشتون عوام اور نوجوان بری طرح نظرانداز ہوئے۔ اس سے جو خلاپیدا ہوا، اس کا فائدہ طالبان کو ہوا، جو بنیادی طور پر پشتون ہیں اور ان کا حلقہ اثر پشتون بیلٹ ہی تھا۔
پاکستان کے معروضی حالات افغانستان سے انتہائی مختلف ہیں۔ افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے، جس کا انفراسٹرکچر تباہ حال ہے، نیم قبائلی، نیم خواندہ رسم ورواج ملک کے بہت بڑے حصے پر غالب ہیں، کابل اور دو تین دوسرے شہروں کے سوا کہیں پر شہری معاشرت نہیں۔ پاکستان میں بھی پسماندہ دیہی علاقے ہیں، مگر ہمارے بہت سے دیہی اضلاع بھی افغانستان کے بڑے شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ پاکستان میں طالبان طرز کی کسی مسلح جدوجہد کی امید لگانا یا نفاذ شریعت کے نام پر انارکی پھیلانے کی کوئی سوچ نامناسب ہے۔ افغان طالبان کو افغانستان کے معروضی حالات نے پیدا کیا، حکومت ختم ہونے سے وہ تحلیل ہوئے، ان کی دوبارہ زندگی افغان حکمرانوں کی نالائقی اور امریکیوں کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی سماج میں طالبان، داعش، القاعدہ، حزب التحریر وغیرہ کے لئے جگہ اور خلا موجود نہیں۔ یہاں جمہوری جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہمارے بزرگ براہ کرم نوجوانوں کو کسی اوربے مقصد آگ میں نہ جھونکیں۔