ڈیرہ بگٹی کا نواب
گزشتہ روز یعنی چھبیس اگست کو نواب اکبر بگٹی کی برسی منائی گئی۔ نواب بگٹی آٹھ سال قبل دنیا سے رخصت ہوئے۔ بی بی سی اور بعض دیگر ویب سائٹس پر ان کے حوالے سے مضامین بھی شائع ہوئے۔ نواب اکبر بگٹی کے حوالے سے خاصا کچھ متنازع بھی ہے، ان کے مداحین کا موقف کچھ اور ہے جبکہ نواب بگٹی کے مخالفین کا نقطہ نگاہ مختلف۔ ہم ان بحثوں میں پڑے بغیر نواب اکبر بگٹی کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں۔
ممتاز برطانوی صحافی اور ریسرچر سلویا میتھس ساٹھ کی دہائی میں پانچ سال تک بلوچستان میں مقیم رہیں۔ انہوں نے خاص کر ڈیرہ بگٹی میں خاصا وقت گزارااور بگٹی قبیلے کے جوانوں کی حفاظت میں اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا۔ اس پانچ سالہ تحقیق کا نچوڑ اپنی کتاب ٹائیگرز آف بلوچستان میں بیان کیا۔ سلویا نے نواب اکبر بگٹی سے خاصی طویل گفتگو کی۔ برسوں بعد میں ایک اخباری مضمون میں سلویا نے لکھا کہ میں اس بگٹی سردار سے بہت متاثر ہوئی، یہ نواب اپنی وضع قطع اور شخصیت کی طرح مزاج میں بھی دوسرے سے منفرد اور ممتاز ہے۔
سلویا میتھیس کے مطابق "اکبر بگٹی کے اندر بیک وقت ایک شاعر، انقلابی، سخت گیر قدامت پسند قبائلی، معمولی سی غلطی نہ معاف کرنے والا جابر سردار اور اکسفورڈ سے پڑھا لکھا شائستہ دانشور موجود ہے۔ اب یہ آپ کی قسمت کہ آپ کا واسطہ کس سے پڑ جائے۔ " سلویا میتھس کے مطابق نواب بگٹیشاعری کے بڑے دلدادہ تھے اور شیکسپئیر، ملٹن اور غالب پر گھنٹوں بحث کے لیے تیار رہتے۔ ان کی لائبریری میں تاریخ، فلسفہ اور کلاسیکی لٹریچر پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ طویل عرصے بعدایک صحافی نے نواب اکبربگٹی سے انٹرویو لیتے ہوئے عشق کے بارے میں سوال کیا تو وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ وہ بلوچ ہی نہیں جس نے عشق نہ کیا ہو۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے بھی ویسا عشق کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے تسلیم کیا کہ ان کا عشق محض عشق ہی رہا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عشق اگر حاصل ہوجائے تو پھر وہ عشق نہیں رہتا اور حصول عشق کے بعد آدمی اپنی عمر سے پانچ سال بڑا محسوس کرنے لگتا ہے۔
اکبر بگٹی یقیناً ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنی تمام زندگی اپنے اسی خاص مزاج اور کیفیت کے ساتھ گزاری۔ ان کے کیرئر کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں ہوا جب وہ سر فیروز خان نون کی ری پبلک حکومت میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور بنے۔ کہا جاتا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے بعض ساتھیوں نے انہیں ایوب خان کے مارشل لاء سے کچھ ہی قبل ایک انتہائی کمزور اور ڈانواں ڈول حکومت میں وزارت کا عہدہ لینے سے منع کیا تھا، تاہم انہوں نے یہ مشورہ رد کر دیا۔ بعد میں ایوب حکومت میں وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی رہے۔
ستر کے انتخابات میں وہ بعض قانونی مشکلات کے باعث الیکشن نہ لڑ سکے، تاہم انہوں نے اپنے بھائی میر احمد نواز بگٹی کی انتخابی مہم چلائی۔ ایک زمانے میں بی بی سی کے لئے لکھنے والے حسن مجتبیٰ کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے خود اسی انتخابی مہم کے ایک جلسہ میں اکبر بگٹی کو کہتے سنا کہ، "گہنوک(غیر بلوچوں کے لیے توہین آمیز لفظ)کے سر کی قیمت کیا ہے؟ گہنوک کا خون بہا کالے گدھے کی پیٹھ پر رکھی ہوئی جو کی ایک بوری ہے"۔
جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت قائم ہوئی تو نواب اکبر بگٹی اس کا حصہ نہ تھے۔ بعد میں انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا، "انتخابات کے بعد نیپ کی پارلیمانی پارٹی کے ایک اجلاس میں میں شریک ہوا۔ چند منٹوں بعد بعض لوگوں نے کہا کہ اس اجلاس سے غیر متعلقہ لوگوں کو چلے جانا چاہیے۔ میں نے سمجھا کہ شاید کسی اور کے لیے بات کی جارہی ہے، تاہم جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ مجھے کہا جا رہا ہے کیونکہ میں نیپ کا باضابطہ ممبر نہ تھا۔ میں خاموشی سے اٹھا اور اجلاس سے چلا گیا"۔
اس وقت تو کچھ نہیں کہا، مگر نواب اکبر بگٹی نے یہ بات فراموش نہیں کی۔ 14 فروری 73ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کی صوبائی حکومت برطرف کر دی اور گورنر میر غوث بخش بزنجو نے استعفا دے دیا تو بھٹو صاحب نے اکبر بگٹی کو گورنر بننے کی پیش کش کی جو نواب بگٹی نے قبول کر لی، اگرچہ وہ صرف گیارہ ماہ گورنر رہے اور یکم جنوری 74ء کو مستعفی ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بطور گورنر بلوچستان جیل میں بند سابق وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل سے ملنے گئے، تو سردار مینگل نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا اور پیغام بھجوایا کہ میں اپنے جس دوست اکبر بگٹی کو جانتا تھا، یہ وہ نہیں، گورنر بلوچستان ملنے آیا ہے۔ "انہی دنوں قوم پرست طلبہ تنظیم بی ایس او کے ایک کنونشن میں حبیب جالب نے کہا تھا:
سنو بھائی اکبر بگتی
میں بات کہوں یہ چکتی
جمہوری تحریکیں
گولی سے نہیں دبتی مری۔
مینگل سرداروں کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران وزیراعظم بھٹو نے سرداروں کو کمزور کرنے کے لیے سرداری نظام کے خاتمے کااعلان کیا اور "شش"وہ آمدنی کا چھٹا حصہ جو قبائلی روایتی طور پر اپنے سردار کو ادا کرتے ہیں، پر پابندی لگا دی۔ کہتے ہیں کہ انہی دنوں گورنر ہائوس کوئٹہ کے ایک ڈنر میں بھٹو کے سامنے نواب اکبر بگٹی نے ایک بگٹی قبائلی کو بلایا اور اسے سیخ سے تازہ اتراگرم کباب اپنی مٹھی میں دبانے کا کہا۔ قبائلی نے حکم کی تعمیل کی اور جب تک اکبر بگٹی نے منع نہ کیا، مٹھی نہ کھولی۔ اکبر بگٹی بھٹوکو بتانا چاہتے تھے کہ سردار کی حیثیت کم نہیں ہو سکتی۔
اکبر بگٹی کی شہرت ایک سخت گیر مگر اچھے منتظم کی رہی رہی۔ سابق بیورکریٹ اور اس دور میں بلوچستان کے ہوم سیکرٹری حیات اللہ سنبل کا کہنا تھا، " ہم نے چند ڈی ایس پی پروموٹ کرنے تھے۔ اکبر بگٹی کئی ہفتے اسی معاملے میں الجھے رہے، وہ گھنٹوں امیدواروں کی اے سی آر فائلیں پڑھتے، انہوں نے تمام امیدواروں سے خود انٹرویو کئے اور پھر کہیں جا کر بندے فائنل کئے، لیکن اس محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ بگٹی صاحب کے دور میں پروموٹ ہونے والے افسروں کی کارکردگی آج تک لوگ نہیں بھولے۔ " بطور گورنر ان کی ریڈیو پر نشر ہونیو الی انگریزی تقریروں کی بھی بڑی دھوم مچی تھی۔ اکبر بگٹی کے مداح ان تقریروں کا وزیراعظم بھٹو کی انگریزی تقریروں سے موازنہ کرتے تھے۔
85ء کے غیر جماعتی انتخابات میں اکبر بگٹی لاتعلق رہے۔ اٹھاسی میں وہ ایم پی اے اور بعد میں وزیراعلیٰ بلوچستان رہے۔ 93 میں ڈیرہ بگٹی کی نشست سے ایم این اے بھی بنے۔ روایتی طور پر اکبر بگٹی کے مقابلے میں ان کے آبائی حلقے سے کوئی کھڑا نہیں ہوتا تھا، تاہم بعد میں بگٹیوں کی ایک شاخ کلپر بگتی کے حمزہ بگٹی نے انتخاب لڑا، اس کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا، اگرچہ حمزہ بگٹی کو بھاری ووٹوں سے شکست ہوئی، تاہم نواب اکبر بگٹی نے اس پر اظہار ناراضی کیا تھا۔ کچھ عرصے بعد حمزہ بگٹی قتل ہوا تو ان کے عزیزوں نے نواب بگٹی کو اس کا ملزم ٹھہرایا۔ کچھ عرصہ بعد ایک حملے میں اکبر بگٹی کے چھوٹے صاحبزادے سلال بگٹی کو قتل کر دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ قاتل نواب اکبر بگٹی کی گھات میں تھے، مگر وہ اتفاقیہ نہیں آئے اور سلال بگٹی نشانہ بن گیا۔ نواب اکبر بگٹی پر اپنے بیٹے کے قتل کا شدید اثر ہوا۔ ایک روایت کے مطابق سلال کی تدفین کے وقت انہوں نے اپنی ڈاڑھی کے کچھ بال کاٹ کر سلال بگٹی کے کفن میں رکھ دیے۔ بلوچ دستورکے مطابق اس کا مطلب ہوتا ہے کہ قتل کا بدلہ ہر صورت میں لیا جائیگا۔ نواب بگٹی اس واقع کے خاصے عرصہ بعدتک اپنے قلعہ سے نہیں نکلے۔ اس کے بعد کلپر بگٹیوں کے کئی افراد مارے گئے تھے اور انہیں ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر ڈیرہ غازی خان میں پناہ لینی پڑی۔ بعد میں کلپر بگٹیوں کی خواتین کا ایک وفد نواب اکبر بگٹی کے پاس گیا اور اپنے دوپٹے پھیلا کر معافی مانگی، تاہم نواب نے معاف نہیں کیا، البتہ ان خواتین کے سر پرچادریں پہنا کر انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ عرصہ بعد ایک انٹرویو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ میں نے معاف نہیں کیا تھا اور روایات کے مطابق میرے لیے ضروری نہیں تھا کہ میں معاف کردیتا۔ کلپر بگٹیوں کی واپسی پرویز مشرف حکومت کی سرپرستی میں اس وقت ممکن ہوسکی جب نواب اکبر بگٹی اپنا قلعہ چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے گئے۔
نواب اکبر بگٹی بکرے کی ہڈی کو دیکھ کر پیش گوئی کرنے کے ماہر تھے۔ یہ بگٹیوں کا روایتی طریقہ تھا اور اس مقصد کے لیے سردار کے مخصوص پالتو بکرے استعمال کئے جاتے۔ اپنی موت سے چند ماہ قبل انہوں نے ایک غیر ملکی چینل کے رپورٹر کے سامنے دعوت کے بعد بکرے کے شانے کی ہڈی دیکھی اور پیش گوئی کی کہ مستقبل بڑا تاریک نظر آرہا ہے اور میں چاروں طرف سے خود کو گھرا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ اپنے ساتھ کھڑے ساتھیوں کو بھی کہا کہ آنے والی مصیبت کے لیے تیار رہو۔ نواب اکبر بگٹی کی یہ آخری پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔