باہر نکلنے کا راستہ
زندگی کے بعض سفر ایسے دلدلی، گنجلک اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ آگے چلے جانے کے بعد پیچھے مڑنے کا راستہ نہیں مل پاتا۔ آدمی واقعات کی دلدل میں یوں ڈوبتا چلا جاتا ہے کہ باہر نکلنا ممکن نہ رہے، آخری سانسوں تک اسے مہلت اور کبھی فرصت بھی نہیں مل پاتی کہ کسی طرح خود کو باہر نکال لے۔ کبھی آگے جانے والوں پر جنگل کے سحرزدہ ماحول کا اثر ہوجاتا اور پلٹنے کی خواہش ہی دل سے مٹا بیٹھتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ واپسی کا سوچا، مگر نکلنے کا راستہ کچھ یوں بھول بھلیوں جیسا ملا کہ بھٹک گئے اور گھوم پھر کر وہیں پہلے نکتے پر جا کھڑے ہوئے۔ ہمارے ہاں زندگی نسبتا آسان، سست رو اور سمجھ میں آنے والی تھی، پچھلے ایک دو عشرے میں اس زندگی کو بھی پر لگ گئے۔ بڑے شہروں میں رہنے والی مڈل کلاس کو خاص طور سے اس کا تجربہ ہے۔ بیک وقت کئی مسائل سے نبردآزما ان کی زندگیاں اس قدر تیز رفتار اور طوفانی ہیں کہ سمے گزرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوپاتا۔ دن ہفتوں مہینوں اور پھر برسوں میں بدل جاتے ہیں۔ بالوں میں چاندی اترتی اور قویٰ روبہ زوال ہوتے ہیں تو کسی حد تک ہوش آتا ہے۔ بہت بار تو پھر بھی ہوش نہیں آتا۔ حتیٰ کہ ایک دن اچانک گھنٹی بج جاتی اور سفر یکایک رک جاتا ہے۔ زندگی کا میلہ جاری، مگر اس کا کردار ختم ہوگیا۔ باقی سب کہانیاں ہی ہیں، کبھی کبھار گھروالوں میں سن لی جاتی ہیں، بس۔ جانے والا چلا گیا، اب اس کا ایک الگ سے امتحان، آزمائش ہے، اس کے لئے کچھ تیاری کی ہے تو کامیاب ورنہ پھر ہولناک تاریکی مقدر بنے گی۔ مغرب میں زندگی کئی عشروں سے بہت تیز اور مشینی قسم کی ہے۔ جو نظام زندگی قائم ہے، اس کی طلب بھی یہی ہے۔ اس کے بغیر شائد رہنا، گزارا کرنا ممکن نہیں۔ وہاں اس تیز رفتار سفر کے اختتام پر آدمی کو کیا پچھتاوے گھیرتے اور کس بات کی خلش تنگ کرتی ہے، اس پر ایک خاتون نے پوری کتاب لکھ دی۔ برائونی وئیر نامی خاتون نے نرس کے طور پر ایک ایسے ادارے میں کئی سال تک کام کیا، جہاں (کسی مہلک بیماری میں مبتلا)لوگ اپنے آخری دن گزارنے آتے تھے۔ مرنے والے بے شمار لوگوں کا نرس برائونی نے خیال رکھا، ان کا جی بہلانے کے لئے گھنٹوں گپیں لگائیں اور پھر محسوس کیا کہ ان میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی پچھتاوا ہے۔ اس نے بعد میں اس پر ایک پوری کتاب بعنوانRegrets of The Dyingلکھی۔ اس نے لکھا کہ عام طور سے ان مرنے والوں کو پانچ پچھتاوے ہوتے تھے: 1:کاش میں اپنی مرضی کی زندگی گزارتا نہ کہ وہ زندگی جو دوسرے مجھ سے توقع کرتے تھے۔ 2: کاش میں نے زندگی میں اتنا زیادہ کام، اتنی مشقت نہ کی ہوتی۔ 3: کاش مجھ میں اتنی جرات ہوتی کہ اپنے حقیقی خیالات کا اظہار کر پاتا۔ 4: کاش میں اپنے دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار پاتا، زیادہ تعلق رکھا ہوتا۔ 5:کاش میں نے اپنی خوشی کے لئے زیادہ کچھ کیا ہوتا۔ برائونی وئیر اب موٹی ویشنل رائٹر ہے اور اپنا بلاگ Inspiration and Chaiچلاتی ہے، اس نے لکھا کہ میں نے بستر مرگ پر کسی کو اس لئے پریشان نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے کاروبار کو زیادہ وقت کیوں نہیں دیا، کیرئر کے لئے محنت نہ کی۔ زندگی کے آخری مرحلے پر ان تمام چیزوں کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، اس وقت انہیں اپنی زندگی میں وہ خلا اور کمی زیادہ محسوس ہوئی جو ان کی تیز رفتار مشینی زندگی، مصروفیت اور مصنوعی طرز زندگی گزارنے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ وہ پچھتاتے رہے کہ کاش اپنے دوستوں، گھروالوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے اور زندگی میں وہ کرتے جو انہیں اچھا لگتا تھا، مگرچاہتے ہوئے بھی د وسروں کی وجہ سے نہ کر پائے کہ لوگ کیا سوچیں گے؟ یہ تو خیر ایک خاص قسم کی مغربی زندگی اور اسی سوچ والی بلاگر کی عکاسی ہے، نرس برائونی کا واسطہ بھی مغربی تہذیب میں ڈوبے ہوئے خاص قسم کے ایلیٹ کلچر والے لوگوں سے ہوا۔ جن لوگوں کا مذہب پر یقین ہے، ایمان کی روشنی ان کے دلوں میں جگمگا رہی ہے اور دنیا داری کی دلدل میں ڈوبنے، اپنی کوتاہیوں، خامیوں کے باوجود روز آخرت اور رب تعالیٰ پر یقین ہے، ان کی زندگی کے آخری فیز میں میں دو الگ طرح کے پچھتاوے گھیر لیتے ہیں۔ مسلمان تہذیب کی بات کر رہا ہوں، دوسرے مذاہب میں بھی ممکن ہے ایسا کچھ ہو، مگر ہم تو اپنے سماج کی کہانی سنا رہے ہیں۔ کوئی ہمارے ہاں آخری ایام گزارنے والوں کا سروے کرے، ان سے سوالات پوچھے، گپ لگائے اور پچھتاوے اکٹھے کرے تو دو باتیں ان میں نمایاں ملیں گی۔ زندگی کے سفر میں جو سبک رفتار رہے، بڑی کامیابیاں سمیٹیں، آخری دنوں میں وہ اس پر شاد نہیں ملتے۔ جوانی، ادھیڑ عمر اور جب تک جسم وجا ں میں قوت تھی، تب تو ان کا فوکس مالی اعتبار سے مستحکم ہونے میں رہا، بہت سوں کو عبادات یاد رہیں نہ ہی خدا اور اس کے آخری رسول ﷺ کی ہدایات یاد آئیں۔ تیزرفتاری سے آگے بڑھنے کی کوشش میں بہت سوں کو کچلا، کسی کے کاندھے اور بعض کی گردن پر کود کر بھی آگے نکل گئے۔ آخری دنوں میں یہ سب محنت اور کوشش بیکار اورفضول نظر آتی ہے۔ یہ احساس دامن گیر ہوتا ہے کہ میں نے اپنے دامن میں ٹھیکرے، کنکر تو بہت جمع کر لئے، نگینے، موتی کم ہیں۔ یہ سوچ آتی ہے کہ آخرت کے لئے کچھ جمع نہیں ہو سکایا کچھ کیا بھی تو اس کے خالص، کھرے ہونے میں شک لگتا ہے۔ معلوم نہیں وہ رب زوالجلال والاکرام اسے قبول بھی کرتا ہے یا نہیں، ناقص، عجلت میں کی گئی عبادات کہیں منہ پر نہ مار دی جائیں۔ دوسرا پچھتاوا یہ سامنے آتا ہے کہ جن کے ساتھ زیادتیاں، ظلم کئے، حق مار لیا، نقصان پہنچایا، سازشیں کیں وغیرہ وغیرہ، اب اس سب کی تلافی کیسے کی جائے؟ جن کے ساتھ زیادتی کی، وہ موجود نہیں، کہیں دور ہیں یا بعض تو دنیا سے چلے گئے۔ تب شدیدندامت اور افسوس کی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ جو کچھ کیا ہے، اس کی تلافی بھی ممکن نہیں۔ اپنی اس پشیمانی، ندامت میں جتنے آنسو بہا لئے جائیں، تلافی کی جس حد تک کوشش کی جائے، اسی پر بہتری کا انحصار ہے۔ رب کریم سے ہمیشہ رحمت، عفو کی توقع رکھنی چاہیے۔ کیا خبر کہ بخشش کا راستہ وہ سجھادے، اپنے حبیبﷺ کی امت کا حصہ ہونے کے ناتے ہی رحم آجائے، اپنی ناقص تخلیق سمجھ کر ہی مہربان ہوجائے۔ کسی کی دعا رنگ لائے، کوئی اچھا عمل پسند آجائے، کچھ بھی ایسا جونجات کو یقینی بنا دے۔ اس سب کیلئے مگر یہ ضروری ہے کہ واپسی کا راستہ کھوجا جائے، زندگی کے دلدل زدہ سفر سے لوٹنے کی سعی کی جائے، ایگزٹ روٹ یعنی باہر نکلنے کا دروازہ تلاش کیا جائے۔ جو یہ بھی نہیں کر پاتا، اس کے سیاہ بخت ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔