Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Badalti Tehzeeb, Badalte Shehron Ka Qissa (1)

Badalti Tehzeeb, Badalte Shehron Ka Qissa (1)

بدلتی تہذیب، بدلتے شہروں کا قصہ (1)

میرا تعلق سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب کے تین شہروں سے ہے۔ ان میں میرا آبائی شہر احمد پورشرقیہ، بہاولپور جو نوابوں کا شہر کہلاتا ہے، تیسرا شہر ملتان ہے جہاں سے خاکوانیوں کا رشتہ بڑا گہرا اور قریبی ہے۔

میں نے ان تینوں شہروں کو قریب سے دیکھا اور پچھلے تین عشروں میں انہیں پہلے دھیرے دھیرے اور پھر تیزرفتاری سے تبدیل ہوتے دیکھا۔ تبدیل سے زیادہ درست لفظ ہیئت بدلنا ہے۔ میرے بچپن اور لڑکپن کی یادیں ستر کے عشرے کے اواخر سے اسی کے عشرے تک ہیں۔ احمد پورشرقیہ تو ظاہر ہے میرااپنا آبائی شہر تھا۔ ملتان کے آخری مسلمان نواب مظفر خان سدوزئی شیردل کی شہادت اور ملتان پر سکھوں کے قبضے کے بعد بہت سے پٹھان گھرانے بکھر گئے۔ ہمارے اجداد نے ریاست بہاولپور کا رخ کیا، جہاں کے نواب نے پٹھان جنگجوئوں کا خیر مقدم کیا، انہیں شاہی فوج میں شامل کیا اور سردار کا ٹائٹل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان کے خاکوانی اپنے نام کے ساتھ آج بھی نواب لگاتے ہیں جبکہ ریاست بہاولپور کے پٹھان نام کے ساتھ سردار لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں بہاولپور کی ریاستی فوج میں صرف تین قوموں کو کمیشن افسر بھرتی کیا جاتاتھا، سید، پٹھان اور خود (دادپوترے)عباسی۔

بہاولپور ہمارا بہت آنا جانا رہتا۔ ہر وہ چیز جو احمد پور میں نہ ملتی، اسے لینے کے لئے بہاولپور کا رخ کیا جاتا۔ میرے والد ایڈووکیٹ ہائی کورٹ تھے، کیسز کے سلسلے میں وہ اکثر بہاولپور جاتے، سکول، کالج کے زمانے میں کئی بار مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ ان کی کتابیں اور فائلیں اٹھانے کے لئے منشی ساتھ ہوتا، مگر مجھے بچپن ہی سے ان کے کیس کی فائلیں اٹھانا اچھا لگتا۔ وہ بڑے خوش خط تھے، ہمیشہ کیس کی فائل پر اپنے ہاتھ سے کوائف لکھتے۔ ان کی کتابت نما لکھائی میں سرکار بنام فلاں یا مہر دین بنا م احمد شاہ وغیرہ وغیرہ پڑھنا اچھا لگتا۔ تب سائیکل رکشوں کا زمانہ تھا۔ موسم خوشگوار ہوتا تو والد مجھے ساتھ لئے مختلف جگہیں گھماتے۔

ملتان ایک لحاظ سے ہمارا ننھیال تھا۔ میری والدہ کا میکہ تو ڈیرہ اسماعیل خان تھا، وہ ترین پٹھان تھیں۔ خاکوانیوں اور ترین پٹھانوں میں رشتے داری عام ہے۔ دونوں قبیلے ایک دوسرے سے شائد روحانی مناسبت رکھتے ہیں۔ ملتان کے قدیمی محلہ قدیرآباد اور بعض دیگر جگہوں پر ہمارے کئی رشتے دار آباد تھے۔ میرے ننھیالی تعلق سے ملیزئی پٹھانوں کے ساتھ بھی قربت اور تعلق رہا۔ والدہ کے ماموں جنہیں ہم نانا کہتے، ان کی تین بیٹیاں میری خالائیں ہیں، ان کے گھروں میں بہت آنا جانا رہا۔ تب کے ملتان کو اسی لئے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔

ملتان کا سفر ہمارے لئے ایک ٹریٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ خاص کر ملتان کا ناشتہ۔ زیادہ دنیا تو نہیں گھومی، پانچ سات ملک ہی دیکھے، پاکستان کے البتہ چاروں صوبوں کے مختلف حصوں میں جھانکنے کا موقع ملا۔ میرے نزدیک بہترین ناشتہ ملتان میں ملتا ہے۔ ملتان کا کلاسیکل ناشتہ۔ ایسے چھولے چاول، ایسی حلوہ پوری، سوتری وٹ والے چنے، ڈولی روٹی، مونگ کی خاص دال اور کہاں ملے گی؟ پوری کی بھی کئی اقسام۔ بہاولپور میں ناشتے سے زیادہ دوپہر کے کھانے کے بہت سے مزے کے پکوان ملتے۔ احمدپورشرقیہ میں البتہ ناشتہ میں جامع مسجد چوک پر جو قتلمہ اور مال پوڑا ملتا، اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ ملتان کاناشتہ ہمہ گیر اور متنوع ہونے کے باعث غیر معمولی کشش کا حامل رہا۔

ملتان شہر میں ایک خاص قسم کی خوبصورتی اور گریس تھی۔ میں نے دانستہ لفظ وقار استعمال نہیں کیا کہ انگریزی لفظ گریس (Grace)مجھے اس اظہار کے لئے زیادہ موزوں لگا۔ ملتان اور ملتانیوں میں ایک تفاخر موجود ہے۔ اپنے شاندار ماضی، تاریخ کے بے شمار ادوار کے عینی شائد ہونے کا اعتماد اور مردم خیز خطہ ہونے کی وجہ سے کئی قدآور سیاسی شخصیات کا وارث شہر۔ بہاولپور کی مردم خیزی میں بھی کلام نہیں، مگر سیاسی اعتبار سے ملتان والے بازی لے گئے۔ ملتان ہمیشہ بہاولپور سے زیادہ گنجان اور گہماگہمی سے بھرپور لگتا۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ کاروبار کے حوالے سے بھی ملتان فوقیت رکھتا ہے۔

ریاست بہاولپور کا مگراپنا مزاج ہے۔ ایک طرح کا بانکپن، ندرت، طنطنہ اور اچھوتا پن۔ بہاولپور چونکہ نوابوں کا شہر کہلاتا تھا، اس لئے اس میں ایک لکھنوی سٹائل کا اچھوتا رنگ موجود رہا۔ ایک زمانے میں یہ رنگ گہرا تھا، اب شائد ویسا نہیں رہا۔ ریاست کے لوگ اپنی انفرادیت پر نازاں رہتے۔ انہیں یہ خیال کہ بہاولپور ریاست ہندوستان کی خوشحال ترین ریاستوں میں سے ایک تھی، مختلف تدابیر سے اسے سکھوں سے بھی محفوظ رکھا گیا اورپاکستان بننے کے ابتدائی چند برسوں تک اس کی الگ شناخت بھی باقی رہی۔ ون یونٹ کے طوفان نے البتہ اس تناور درخت کو ایسا اکھیڑا کہ آج تک پھر جڑ نہیں سکا۔

معلوم نہیں اس بات کو اعلانیہ کہا جاتا ہے یا نہیں، مگرمیرے مشاہدے کے مطابق ملتانیوں اور بہاولپوریوں یا ریاست بہاولپور کے لوگوں میں ایک خاص قسم کا ملا جلا کھٹامیٹھا سا تعلق تھا۔ دونوں شہر ایک دوسرے کے قریب بھی ہیں اور شریکا بھی ہے۔

ملتان صحافت کا اہم مرکز (Hub)بھی رہا۔ مجھے یاد ہے کہ بہاولپور اور احمدپورشرقیہ میں تقریباً تمام اخبارات کے ملتان ایڈیشن آتے۔ ہم بہاولپوری اس پرہمیشہ ناک بھوں چڑھاتے رہے۔ بہت سوں کی آرزو تھی کہ ملتان ایڈیشن کے بجائے لاہور کا اخبار ہی یہاں آتا، ایسا مگر کبھی نہیں ہوا۔ ہمارے مقدر میں اخبارات کے فور سٹار، فائیو سٹار ایڈیشن ہی رہے۔ صحافت شروع کی تو پتہ چلا کہ سکس سٹار ملتان، فیصل آباد اور سیون سٹاراخبار صرف لاہور کے لئے بنتا ہے۔

ملتان کی اہم سوغات سوہن حلوہ سمجھا جاتا ہے۔ ملتان کا حافظ کا سوہن حلوہ تو ایک اساطیری حوالہ بن چکا ہے۔ احمدپوری، بہاولپوری اس کے کچھ زیادہ قائل نہیں رہے۔ وہاں یہ خیال راسخ ہے کہ نوابان بہاولپور کے طفیل ریاست کے سوہن حلوہ کے کاری گر زیادہ اچھے اور منفرد ہیں۔ حافظ کے حلوہ پر سرائیکی محاورے کے مطابق ریاستی باذوق افراد کی کبھی "تَک " نہیں پڑی۔ ممکن ہے ملتانی احباب نے بہاولپوریوں کوقائل کرنے کے لئے کچھ زیادہ فراخدلانہ کوشش بھی نہ کی ہو۔ بہرحال جس طرح کھانوں کے معاملے میں لاہور اور گوجرانوالہ کے مابین مسابقت رہتی ہے اور گوجرانوالا کے پائے بنانے والے لاہوری ماہرین کو نگاہِ کم سے دیکھتے ہیں، کچھ ویسا معاملہ بہاولپوری سوہن حلوہ کے ماہرین اور ملتانی ماہرحلوہ جات میں بھی ہے۔

احمد پوراور پھر بہاولپور میں مجھے ہمیشہ نیم خوابیدگی نظر آئی۔ انہیں نیم خوابیدہ شہر کہتا تھا۔ اس کا دیر سے جاگنے سے تعلق نہیں۔ یہ سحرخیز شہر ہیں، گرمیوں میں صبح چار پانچ بجے اور سردیوں میں چھ ساڑھے چھ بجے شہر بیدار ہوجاتا ہے۔ اس کی فضا، ہوا اور چلت پھرت میں پھر بھی دھیمے، کومل سر ہی گونجتے محسوس ہوتے۔ جیسے کوئی نیند سے بوجھل آنکھیں نیم وا کئے ادھر ادھر دیکھتا رہے اورگاہے ایک جھپکی لے کر غنودگی میں ڈوب جائے۔ دن بھر ایسا ہی رہتا۔ سب سرگرمیاں بھی چلتی رہتیں مگر دھیرے دھیرے، سلو پیس کے ساتھ۔ جیسے اشفاق احمد کا ڈرامہ ہو، ضیا محی الدین کا تحت الفظ، طلعت حسین کے مکالمے، گلزار کی نظم، خواجہ غلام فرید کی کافی، زاہدہ پروین کی گائیگی۔

بہاولپوریوں کے مکالموں میں بھی اس نیم خوابیدگی کا رنگ محسوس ہوتا، جیسے سائیں ں کتھاں ویندے پئے وے ے ے ے۔ ہیں ابا گالھ ھ ھ ھ داااا سنڑ ونج۔ دکاندار بھی گاہک کو روکنے کے لئے اپنے نرم کومل لہجے کو تھوڑا کھینچتے ہوئے ڈائیلاگ بولتے، "سائیں ں ایویں ں ں دا نہ کرووو۔ کھڑوو دا سہی، رعایت کر ڈیندے ے ے ہیں تہاڈے واسطے ے۔

ملتان یا یہ کہہ لیں ہمارے ملتانی رشتے داروں اور جاننے پہچاننے والوں کے گھروں کی بول چال میں مجھے ایک تیکھا پن، کڑک انداز نظر آتا۔ محبت کی چاشنی اور نظر کے گداز میں کمی نہ ہوتی، مگر کومل کے بجائے تیور سر لگائے جاتے۔ ایک دم چست، کسے کسائے مکالمے۔

احمد پوریوں کی بڑی جامع تعریف مجھے ایک بار ڈیوی پہلوان نے بتائی۔ ڈیوی کو نجانے پہلوان کیوں کہا جاتا کیوں اس کے سکس پیک توکیا، سنگل پیک بھی نہیں تھابلکہ شائد مسلز نام کی کوئی چیز غریب میں پائی ہی نہیں جاتی تھی۔ افیم کا شوقین تھا، اس کی چسکی لگی ہو تو پھر ڈیوی کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی۔ سنگل پسلی ہونے کے باوجود وہ مالش کیا کرتا اور یہی اس کا روزگار تھا۔ ایک خاص تکنیک سے وہ مالش کرتا اور تھکن زدہ جسموں میں جان ڈال دیتا۔ مالش کے ساتھ وہ اپنی نشیلی کمنٹری بھی جاری رکھتا، جس کا ٹِیپ کا مصرع ہوتا، راز ھِ سائیں قدرت دا۔ ڈیوی قدرت کو ہمیشہ قذرت کہتا۔

ڈیوی کا کہنا تھا کہ احمد پور نوابوں کا شہر ہے اور اس پرآخری نواب صادق محمد خان(خامس)کا گہرا اثر ہے۔ بقول ڈیوی، " احمد پوریوں کو نواب دی دعا ھ، تے اے لوگ کڈھیں بھکے نہیں رہندے، رب سوہنڑا کم چلائی رکھدے، ڈوجھی گالھ ھِ کہ اے بھکے وی ہوون تے وَل وی کئیں دے اگوں ہتھ نہیں پھیلندے۔ "ممکن ہے اسے آپ ڈیوی پہلوان کی تعلی قرار دیں، ویسے ہمارا مشورہ ہے کہ حسن ظن سے کام لیکر زیادہ نہ کریدیں۔ (جاری ہے)

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani