’’آخری چٹان‘‘ سے’’ ارطغرل ‘‘تک
میرے بچپن کی جن چیزوں نے شخصیت پر سب سے زیادہ اثر ڈالا، یا یوں کہہ لیں کہ اس زمانے کا تصور کرتے ہوئے وہ فوری ذہن میں آتی ہیں، ان میں سے ایک نسیم حجازی کے تاریخی ناول اور دوسرا پی ٹی وی کے سدا بہار قسم کے شاہکار ڈرامے۔ ان ڈراموں نے میری نسل اور ہم سے پانچ سات سال بعد کی نسل کے لوگوں کی زندگیوں میں بے شمار خوشی کے لمحات شامل کئے۔ پاکستانی ٹیلی ویژن کے ان فن کاروں، پروڈیوسرحضرات اور دیگر تکنیکی شعبوں میں کام کرنے والوں کا میں ممنون ہوں کہ نامساعد حالات میں، کم بجٹ کے باوجود وہ کچھ دکھایا جس نے ہمارے جیسے چھوٹے شہروں کے رہنے والوں کی نسبتا سست، ٹھیری ہوئی قدرے بور زندگی میں نہایت خوبصورت رنگ شامل کئے۔ آج کے بچوں کے پاس دنیا جہاں کی بہترین کارٹون فلموں، ڈاکومینٹریز اور اینی میشن فلموں کی سہولت موجود ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ہم الف لیلہ کے ڈراموں اور ان میں اڑن کھٹولہ، اڑنے والا قالین، جن وغیرہ دیکھ کر کس قدر مسحور ہوجاتے تھے۔ میرا ایک کلاس فیلو باسط شکرانی مجھے ہر ہفتے پلانٹ آف ایپس ٹائپ کسی انگلش ڈرامہ سیریز کی کہانی سنایا کرتا تھا، ہمارے گھر ٹی وی نہیں تھا، اس کی سنائی روداد سے استفادہ کرتے، رہی سہی کسر اپنے تخیل سے پوری کر لیتے۔ باسط شکرانی آج کل تحریک انصاف کا پرجوش انصافین ہے اور ان کے ٹکٹ پر پچھلا صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکا ہے۔"عینک والا جن " اس وقت آیا جب ہم بڑے ہوگئے تھے، ہم سے چھوٹی نسل نے وہ دیکھا اور اس کے اسیر ہوئے۔ نسیم حجازی کے ناول ہم کرائے کی لائبریری سے لے کر پڑھتے تھے۔ کئی سو صفحات پر مشتمل ضخیم ناول چوبیس گھنٹوں میں پڑھنے کے چکر میں پوری رات جاگ کر پڑھتے۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ پڑھنے کی سپیڈ خاصی تیز ہوگئی۔ نسیم حجازی کو ہمارے ہاں ایک خاص طبقہ ہمیشہ مطعون کرتا اور پاکستانی معاشرے میں موجودشدت پسندی کا موجب ٹھیراتا ہے۔ یہ بات بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔ نسیم حجازی نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ اس میں سے کتنے شدت پسند بنے؟ میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو بعد میں لیفٹ کی طرف گئے۔ ہمارے ساتھ کے بعض لوگ سخت اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنے۔ نسیم حجازی نے لوگوں کو پرو اسٹیبلشمنٹ بننے یا عسکریت پسندی کی طرف نہیں اکسایا۔ نسیم حجازی پر یہ تنقید تو بچکانہ ہے کہ انہوں نے درست تاریخ نہیں لکھی۔ وہ مورخ تھے ہی نہیں، فکشن نگار تھے، جس نے بعض فکشنل تاریخی کرداروں کو لے کر دلچسپ تاریخی ناول لکھے۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے ادب میں سپر ہیرو کا کردار تخلیق کیا جاتا ہے، کہیں پر پرانے تاریخی کرداروں کو گلوریفائی کیا جاتا، کبھی مہم جو اور ایڈونچر پسند ہیرو جیسے کائونٹ آف مانٹی کرسٹو وغیرہ کو استعمال کیا جاتا۔ آج کل سپرمین، بیٹ مین وغیرہ کے کردار تخلیق ہوئے۔ نسیم حجازی میں دو تین خوبیاں کمال کی تھیں۔ نثر ان کی نہایت خوبصورت، رواں اور سلیس تھی۔ قاری شروع کردیتا تو پورا ناول پڑھ کر ہی ہٹتا۔ کردار مضبوط اور طاقتور تھے، ان میں دلیری اور شجاعت کے ساتھ مثبت اخلاقی اقدار کو اہمیت دی جاتی۔ نسیم حجازی کے سب کردار اپنے ساتھ مثبت خصوصیات لے کر چلتے۔ ان کے ناولوں میں رومان کی چاشنی ہوتی، مگریہ سب نہایت سلجھے ہوئے شائستہ انداز کے ساتھ برتا جاتا۔ آخری چٹان اس لحاظ سے پی ٹی وی کا یادگار ڈرامہ سیریل تھا کہ اس کے مصنف نسیم حجازی تھے۔ ڈرامائی تشکیل سلیم احمد نے کی۔ مشہور شاعر، نقاد، دانش ور اور ادیب سلیم احمد، جنہوں نے ایک پورا سکول آف تھاٹ آگے بڑھایا۔ پروفیسر محمد حسن عسکری کے وہ فکری شاگرد، مگر اپنی ذات میں ایک پورے ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہمارے محترم سجاد میر سے جناب احمد جاوید اور تین عشرے قبل انتقال کر جانے والے سراج منیر تک کتنے لوگ تھے جو سلیم احمدکے حلقہ کا حصہ تھے۔ قاسم جلالی پی ٹی وی کے مشہور پروڈیوسر تھے، انہوں نے بہت کم بجٹ اور مسائل کے باوجود ہمیشہ یاد رہنے والا ڈرامہ بنایا۔ منگول لشکر کی یلغار اور خوارزم شاہی سلطنت کا سقوط، مگر جلال الدین خوارزم شاہ کی مزاحمت، خلیفہ بغداد کی کمزوری، مسلمانوں کی آپس کی سازشیں اور منگولوں کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ذلت…سب کچھ پینتیس چھتیس سال گزر جانے کے باوجود ذہن میں تازہ ہے۔ سلیم ناصر نے جلال الدین خوارزم شاہ کا شاندار کردا ر ادا کیا۔ سلطان احمد چنگیز خان بنے تھے، ان کے لہجہ کی گرج آج بھی حافظے میں موجود ہے، جب وہ بلند آواز میں کہتے" یلغار ہو"، سننے والے کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ جاتی۔ آخری چٹان کے برسوں بعد شاہین ڈرامہ بنایا گیا۔ اندلس کے زوال کی کہانی۔ اسماعیل شاہ مرحوم نے بدر بن مغیرہ کا کردار خوب نبھایا، راشدمحمود نے سازشی ابو دائود کا کردار ادا کیا کہ اتنے عرصے بعد بھی ان کے چہرے کے تاثرات اور ڈائیلاگ ڈیلیوری کا سٹائل یاد ہے۔ ان پرانے کاسٹیوم ڈراموں نے جہاں دیکھنے والوں کو تاریخ سے روشناس کرایا، وہاں ایک خاص مسلم تہذیب کی عکاسی بھی کی، لوگ بہت سی چیزوں سے نادانستہ طور پر جڑ گئے، مجھے یاد ہے کہ "فی امان اللہ" پہلی بار آخری چٹان سے سنا اور پھر بعد میں اسے خوب برتا۔ ہم لوگ پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم سویلائزیشن کا اہم حصہ ہیں، یہ ان ڈراموں نے ہمیں بتایا، سکھایا اور سمجھایا۔ ایک طویل عرصے بعد وہی تاثر، ایکسائٹمنٹ اور لطف مجھے مشہور ترک ڈرامہ" ارطغرل" دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے۔ اپنی بے خبری کا اعتراف کہ اتنا اعلیٰ اور خوبصورت تاریخی ڈرامہ بنا، اس کے پانچ سیزن ہوگئے، ایک پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینل نے پہلا سیزن دکھا بھی ڈالا، مگر ہمیں خبر ہی نہیں ہوئی۔ ارطغرل مشہور تاریخی کردار ہے۔ ترک قبیلے کائی کا سردار زادہ۔ جس نے اپنی دلیری، عزم اور ہمت سے ترک قبائل کو متحد کیا اور ایسی بنیاد ڈالی جس پر اس کے بیٹے عثمان نے عظیم الشان عثمانی سلطنت قائم کر دی۔ کئی سو سال تک جو چلی، خلافت کہلائی، جس کے ایک سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے سرکار مدینہ ہمارے آقا ﷺ کی پیش گوئی کو سچا ثابت کیا۔ ارطغرل ایک حیران کن حد تک معیاری تاریخی ڈرامہ ہے۔ پروڈکشن بہت عمدہ، بیک گرائونڈ موسیقی دل موہ لینے والی اور مکالمے نہایت شاندار ہیں۔ پچھلے سال سے پہلے ٹورنٹ اور اب نیٹ فلیکس کے ذریعے بہت سے ڈرامے اور سیزن دیکھ چکا ہوں۔ گیمز آف تھرون مجھے پسند ہے، اس کے تمام سیزن دیکھے اور آخری کا انتظار ہے۔ گیمز آف تھرون ہو، سپارٹیکس یا انڈیا کی سیکرٹ گیمز وغیرہ یہ سب دلچسپ مگر نہایت ولگر اور غیر اخلاقی سیکس مناظر سے لبریز ہیں۔ آپ فیملی کے ساتھ اکٹھے تو درکنار اپنے بچوں کویہ دکھا ہی نہیں سکتے۔ ارطغرل نہایت صاف ستھرااور بے حد دلچسپ ڈرامہ ہے۔ مجھے ایک دوست نے اس کا پہلا سیزن دیا جو اردو ڈبنگ کے ساتھ ہے۔ اس کے باوجود شروع نہیں کر پایا تھا۔ ہمارے دوست کالم نگار، اینکر آصف محمود نے ارطغرل پر کالم لکھا تو اس کی اہمیت کا احساس ہوا۔ پچھلے ویک اینڈ پر اپنے بچوں کو دیکھنے کی ترغیب دی، مجھے خدشہ تھا کہ وہ بور ہوجائیں گے، وہ ایسے منہمک ہوئے کہ پانچ چھ قسطیں ایک ساتھ دیکھ لیں اور اب اس ڈرامے کے دیوانے ہیں۔ ہماری پوری فیملی اکٹھے بیٹھ کر قسط وار یہ دیکھ رہی ہے۔ نیٹ فلیکس پر اس کا پہلا سیزن (Dirilis Ertugrul)انگلش سب ٹائٹل کے ساتھ موجود ہے۔ تھوڑی سی کوشش کی جائے تو تمام سیزن مل جائیں گے۔ بچے اردو ڈبنگ میں زیادہ دلچسپی محسوس کریں گے، جبکہ اگر آپ انگلش سب ٹائٹل کے ساتھ ترک زبان میں دیکھیں تو زیادہ لطف آئے گا۔ ارطغرل کی خاص بات اس کا اسلامی کلچر ہے۔ آج کل ایسے ڈرامے نہیں ملتے جہاں بچوں کو صاف ستھری کہانی کے ساتھ مثبت اخلاقی اقدار غیر محسوس طریقے سے سکھائی جائیں۔ ارطغرل یہ کام بخوبی کرتا ہے۔ اس کے مکالمے اس قدر بامعنی اور دلچسپ ہے کہ آدمی عش عش کر اٹھتا ہے۔ جگہ جگہ پر ایمان، اللہ پر یقین، سچائی، راست گوئی، دلیری، مہمان نوازی اور خیر کے عمل کی تذکیر اور ترغیب ملتی ہے۔ پہلے سیزن کی پانچویں قسط میں مشہور صوفی شیخ ابن العربی کا کردار داخل ہوتا ہے۔ ابن عربی کے کردار کو کمال طریقے سے ٹریٹمنٹ کیا گیا ہے۔ ترکوں کا تصوف ہمارے ہاں کی کرشمہ بازی اور ضعیف عقیدے سے مختلف ہے۔ ابن عربی بڑی خوش اسلوبی سے مختلف جگہوں پر لوگوں کو اپنی کتابوں کے بجائے قرآن کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کاش ہمارے چینلز بھی کچھ سرمایہ خرچ کر کے مشرقی، اسلامی کلچر کا آئینہ دار کوئی تاریخی ڈرامہ بنائیں، ایسا ڈرامہ جسے دیکھتے ہوئے ہمارے بچے کچھ سیکھ سکیں، اس کے ساتھ ان کا ناتاجڑ سکے۔ ارطغرل ترک ڈرامہ سہی، مگر اس نے بڑی حد تک وہ کمی پوری کی ہے۔