ایک اور گناہِ بے لذت ؟
پچھلے دو دن سے لاہور میدان جنگ بنا ہوا ہے، زمان پارک جہاں عمران خان کی رہائش ہے، وہ کینال روڈ پر مال روڈ پل کے قریب واقع ہے۔ یہ ایسی مرکزی جگہ ہے کہ شہر کے ایک حصے سے دوسری جگہ جانے کے لئے یہاں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ لاہور کے بارے میں نہیں جانتے، وہ یہ سمجھ لیں کہ لاہور کی نہر شہر کو درمیان سے کاٹتی ہے۔ ٹھوکر نیاز بیگ سے کسی نے جوہرٹائون، وفاقی کالونی، فیصل ٹائون، مسلم ٹائون موڑ، گلبرگ، اقبال ٹائون اور آگے مال روڈ، جیل روڈ وغیرہ کے بعد مغل پورہ، ہربنس پورہ، جلو پنڈ وغیرہ جانا ہوتو سب سے آسان طریقہ نہر کی سڑک پر سفر ہے۔ زمان پارک پر پولیس کے آپریشن کی وجہ سے دو دن شہریوں کے لئے جس قدر تکلیف دہ رہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
سب سے پریشان کن معاملہ پولیس کا شہریوں سے بڑے خطرناک انداز میں براہ راست ٹکرائو تھا۔ نو سال قبل ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے دفاتر کے باہر بیریر ہٹانے کے حوالے سے ایسا ہی آپریشن ہوا تھا جو بعد میں خونی شکل اختیار کر گیا، چودہ پندرہ لوگ جان بحق ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اغلباً اسی وجہ سے زمان پارک میں آپریشن کے لئے پولیس کو آنسو گیس شیلز دئیے گئے، انہیں براہ راست فائرنگ کا نہیں کہا گیا اور نہ ہی اس طرح بڑی تعداد میں ہتھیار تقسیم کئے گئے۔ اس کے باوجود جب سینکڑوں پولیس اہلکار کسی عمارت پر ٹوٹ پڑیں اور نوجوان دفاع کرنے والے ہوں تو شیلنگ، لاٹھی چارج وغیرہ سے بھی لوگ زخمی ہوسکتے ہیں، خدانخواستہ کسی کی جان جا سکتی ہے۔
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آخر ا س کی نوبت کیسے آئی؟ عام طور سے دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومتیں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ اپوزیشن درجہ حرارت بڑھاتی ہے کیونکہ اسے گرما گرمی کا فائدہ پہنچتا ہے، حکومت ہمیشہ استحکام اور امن وسکون چاہتی ہے تاکہ کچھ کام کر سکے۔ اس بار الٹ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف آج کل پرسکون ہو کر الیکشن کمپین کی طرف متوجہ ہونا چاہتی ہے۔ عمران خان اس وقت سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتے ہیں۔
وفاقی حکومت (اور ان کی واضح طور پر غیر مشروط حامی)صوبائی نگران حکومت البتہ سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کی خواہش مند ہے۔ وہ عمران خان کو ہر حال میں گرفتار کرنے کے درپے ہیں۔ بظاہر اس کا ایک ہی مقصد نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کو الیکشن کمپین نہ چلانے دی جائے۔ اصل مقصد شائد یہ ہو کہ سیاسی کشیدگی اتنی بڑھ جائے کہ الیکشن ملتوی کرنے کا بہانہ مل جائے۔ یہاں پر دو سوالات پیدا ہوتے ہیں، ایک سوال حکومت کی جانب سے، جبکہ دوسرا اپوزیشن یعنی عمران خان کی جماعت کی جانب سے پوچھا جا رہا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان گرفتاری کیوں نہیں دیتے؟
یہ اہم سوال ہے اور بظاہر بڑا منطقی بھی لگ رہا ہے کہ خان صاحب گرفتاری کیوں نہیں دے رہے۔ اس کی حمایت میں کئی دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں، جیسے یہ کہ قانون سب کے لئے برابر ہے، ہر ملزم کا ایک ہی درجہ ہے۔ جب دیگر ملزم عدالتوں کے سامنے پیش ہوسکتے ہیں تو عمران خان کیوں نہیں؟ عمران خان میں جرات ہے تو وہ ازخود گرفتاری دے دے وغیرہ وغیرہ۔
معقول سوالات ہیں۔ میری ذاتی رائے میں عمران خان کو عدالتوں میں پیش ہونا چاہیے، اس مقصد کے لئے اسے گرفتاری بھی دے دینی چاہیے تھی۔ اس کے لئے یقینی طور پر مشکل پیدا کی جار ہی ہے، مختلف کیسز ہیں، مختلف جگہوں پر اس کے لئے وارنٹ جاری ہوں گے تاکہ وہ ہر جگہ پہنچ نہ سکے۔ اس کے باوجود جس حد تک ممکن ہو اسے جانا چاہیے۔ قانون کے آگے جھکنے کا رویہ نہ صرف مستحسن ہے بلکہ اس سے ان کا امیج بہتر ہوگا۔
پی ٹی آئی والوں کے پاس ویسے اس سوال کا یہ جواب ہے کہ عمران خان عدالتوں میں پیش ہونا چاہتے ہیں، انہوں نے صرف زخمی ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ پیشیاں لیں اور ابھی پچھلے ہفتے ہی وہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں تین عدالتوں کے سامنے حاضر ہوئے۔ عمران خان خود کہہ رہے ہیں کہ وہ اٹھارہ مارچ کو پھر عدالت میں حاضر ہوں گے۔ تحریک انصاف کے وکلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان پر چونکہ ایک قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے، مزید حملوں کا سیریس تھریٹ ہے، اس لئے ان کی کوشش ہے کہ غیر محفوظ عمارت والی عدالت کے بجائے جوڈیشل کمپلیکس جیسی مناسب حفاظت والی بلڈنگ میں موجود مختلف عدالتوں میں کیس ٹرانسفر کرائے جائیں۔
دوسرے لفظوں میں تحریک انصاف کے مطابق صرف سکیورٹی کی وجہ سے عمران خان کی حاضری میں تاخیر ہوئی ہے، اگر عدالت ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری تسلیم کر لے تو پھر مسئلہ ہی ختم ہوگیا، لیکن اگر ایسا نہ ہو تب بھی عمران خان اگلی پیشیوں پر عدالت جانے کو تیار ہے۔
ابتدا میں دو سوالات کا ذکر کیا۔ ایک ہوگیا، دوسرا سوال تحریک انصاف کے حامی پوچھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے جاری ہونے والے وارنٹ کو کب سے ریاست نے زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا؟ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ وارنٹ کسی قاتل، ڈاکو، ریپسٹ یا دہشت گرد کے لئے جاری نہیں کئے گئے، یہ کیسز میں حاضر نہ ہونے پر روٹین میں جاری ہونے والے وارنٹ ہیں، عام طور سے پولیس جن میں ہرگز مستعدی نہیں دکھاتی۔ ملزم کے وکلا ہی اسے نمٹاتے ہیں۔ وہ عدالت پیش ہوجاتے ہیں اور عدالت کے مطالبہ پر ملزم کو بھی حاضر کرا دیتے ہیں، یوں وارنٹ ختم ہوجاتے ہیں۔ روزانہ مختلف سول ججوں، سیشن ججوں کی عدالتوں سے ایسے وارنٹ جاری ہوتے رہتے ہیں، بہت سوں پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہیں آتی۔
تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اور ان کے حامی یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر اسلام آباد پولیس پر ایسی غیر معمولی مستعدی کا جنون کیسے سوار ہوا؟ وہ کئی سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے لاہور آئے اور پنجاب پولیس کے سینکڑوں اہلکاروں کی مدد سے زمان پارک پر حملہ آور ہوئے، اس کوشش میں اپنی جان اور تحفظ کی بھی پروا نہیں کی۔ آخر کیوں؟ کیا صرف عدالتی حکم کی پابندی اور قانون کی سربلندی ہی مقصد ہے؟
تحریک انصاف کا ضمنی سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اور اس کے گورنر صاحبان جو ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کی رتی برابر پروا نہیں کر رہے۔ سپریم کورٹ نوے دنوں میں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی آئینی پابندی کا کہہ چکی ہیں۔ پنجاب میں الیکشن کمیشن نے مجبوراً ڈیٹ دے دی کیونکہ فائنل صدر نے کرنا تھا، یوں تیس اپریل کی تاریخ کا اعلان ہوگیا۔ کے پی میں گورنر نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے نام پر دس بارہ دن ضائع کر دئیے اور الیکشن کمیشن کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کیاالیکشن کمیشن کو علم نہیں کہ وقت تیزی سے گزرا جا رہا ہے، وہ گورنر کو تاخیر سے روکیں؟
اس کے بجائے گورنر کے پی حاجی غلام علی نے پانچ چھ دن بعد مشاورت کے لئے الیکشن کمیشن کو بلایا تو وہ مزے سے مان گئے۔ یہ توآخر صدر مملکت نے مداخلت کی، گورنر کو ملاقات کے لئے بلایا اورڈیٹ دینے کا کہا تو گورنر نے اٹھائیس مئی کو کے پی اسمبلی کے الیکشن کا اعلان کیا۔ یعنی آج سے ڈھائی ماہ بعد۔ آخر کیوں؟ حالانکہ سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ آئینی مدت سے تجاوز کرنا پڑے تو کم سے کم دنوں کے لئے آگے جائیں۔
بات وہی ہے کہ جو حکومت اور انتظامیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مان رہی، وہ اگر دعویٰ کرے کہ ایک ضلعی عدالت کے فیصلے کی پابندی کرانے کا جذبہ ان میں پیدا ہوگیا ہے تو سننے والے کو ہنسی آئے گی، وہ متاثر نہیں ہوگا۔ ان دونوں کا موقف اپنی جگہ، مگر ہماری ذاتی رائے میں عمران خان کو عدالتوں میں پیش ہونا چاہیے، گرفتاری دینے سے گریز زیادہ مسائل پیدا کر رہا ہے۔ گرفتاری کا فیصلہ خود کریں، مگر اب کر گزریں۔ گلگت بلتستان حکومت کے پولیس اہلکاروں کی زمان پارک عمران خان کے گھر موجودگی کی خبر اگر درست ہے تو انہیں واپس بھیج دینا چاہیے۔ یہ نامناسب ہے۔ جی بی پولیس کا لاہور میں کوئی کام نہیں۔ عمران خان کی حفاظت ان کی ذمہ داری نہیں۔
جاتے جاتے ایک دلچسپ نکتہ جو ہمارے ایک سینئر صحافی تجزیہ نگار کولیگ نے پیش کیا۔ کالم لکھنے سے پہلے وہ تشریف لائے، گپ شپ ہوئی، کہنے لگے کہ مجھے تو پولیس کے اس اچانک آپریشن کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے، وہ ہے توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک ہونے کے بعد پیدا ہونے والی شرمندگی سے عوام کی توجہ ہٹانا۔ انہوں نے کہا، " آپ خود سوچیں کہ میڈیا سے اچانک ہی توشہ خانے کا معاملہ غائب ہوگیا ہے۔ ہر طرف اسی آپریشن کی خبریں چل رہی ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟"
ان کی اس بات سے قبل مجھے زمان پارک کا آپریشن ایک اور گناہ بے لذت لگ رہا تھا، اب سوچنے لگا ہوں کہ یہ گناہ بے لذت سے زیادہ ایک ضرورت سے زیادہ چالاکی اور ہوشیاری کا مظاہرہ تو نہیں؟ یہ اور بات کہ پی ڈی ایم کی ہر چالاکی اور ہوشیاری الٹ پڑ رہی ہے۔ دیکھیں اس بارکیا ہوتا ہے؟