عِفریت کے ساتھ جیناسیکھیں
کورونا کی وبا کے حوالے سے اب ہمیں ایک بنیادی نکتے میں یکسو اور واضح ہوجانا چاہیے۔ یہ وباپاکستان سے آسانی کے ساتھ نہیں جائے گی۔ اس پر قابو پانے کا وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اگلے چند ماہ تک یہ موذی بیماری ہمارے درمیان ہی رہے گی۔ ایسا کوئی شارٹ کٹ یا انتظامی طریقہ نہیں رہا جس سے اسے کنٹرول کیا جا سکے۔ زندگی میں معجزات رونما نہیں ہوتے، غیر معمولی معرکے برپا کرنے پڑتے ہیں۔ چین نے ایسا کر دکھایا، چند ایک اور استثنائی مثالیں بھی ہیں۔ ہمیں جو کرنا چاہیے تھا، وہ ہم نہیں کر پائے۔ جو آج کرنا چاہیے، وہ بھی نہیں کر رہے۔ ایسے میں چیزیں زیادہ خراب، پیچیدہ اور گنجلک بن جاتی ہیں۔ نتیجہ خوفناک قسم کا کنفیوژن ہے، وفاقی، صوبائی حکومتوں سے لے کر افراد تک، ہر ایک اس کا شکار ہے۔
اس کی ذمہ داری کسی خاص لیڈر یا وفاقی، صوبائی حکومت پر ڈالنے کا فائدہ نہیں۔ غلطیاں حکومت سے یقینا ہوئیں، ابتدا میں زائرین والے معاملے کو بہتر ہینڈل کر لیا جاتا، ممکن ہے اس وقت محدود مدت کے لئے سخت لاک ڈائون کر لیا جاتا تو شائد یہ وبا زیادہ نہ پھیلتی۔ البتہ سخت لاک ڈائون اپنی جگہ جو تباہی مچاتا، وہ ایک اور المیہ کہانی بن جاتی۔ ایک ٹاک شو میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ذمہ دار کون ہے، وفاقی یا صوبائی حکومتیں؟ میرا جواب تھا، اصل ذمہ دار پاکستانی عوام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر عوام یعنی ہم لوگ ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے، وبائی بحران کے طریقے اپناتے، میل ملاقاتیں نہ کرتے، احتیاط کے ساتھ باہر نکلتے تو یقینی بات ہے کہ یہ بحران بڑی حد تک کنٹرول ہوجاتا، کم از کم اس کا شدت والا وقت (Peak Time)گزر چکا ہوتا۔ ایسا نہیں کہ میڈیا نے آگہی میں کسر چھوڑی ہو یا حکومت نے مہم نہیں چلائی۔ بچے بچے کو معلوم ہے کہ کورونا سے کس طرح بچنا ہے۔ اصل بات مگر معلومات پر عمل کرنا ہے، ہم اس امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے۔
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وبا پھیل چکی، جلدی جانے والی نہیں تو اب ہمیں عِفریت یا بلا کے ساتھ جینا (Living with monster)سیکھنا ہوگا۔ اس پر کئی ماہرین سے بات کی، تجزیہ نگاردوست اور طبی ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سے تفصیلی ڈسکس کیا۔ چند نتائج اخذ کئے۔ وہ شیئر کرتا ہوں۔
کورونا کے دو طرح کے مریض ہیں۔ کچھ لوگوں میں علامات جلداور شدید انداز کی ظاہر ہوجاتی ہیں، تیز بخار، چھینکیں، کھانسی وغیرہ، جبکہ کچھ میں اس کا شکار ہوجانے کے بعد بھی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، انہیں Asymptomaticکہا جاتا ہے۔ ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ اپنے قریب موجود ہر شخص کو کورونا کا ایسا مریض سمجھیں، جس کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ اسے خود بھی نہیں پتہ، مگر وہ لاعلمی میں بھی آپ کو کورونا کا مریض بنا سکتا ہے۔ اس لئے چند فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے محتاط رہیں۔ خود کو بھی کورونا کا ایسا مریض تصور کریں، جس کی علامات ظاہر نہیں ہوئی، مگر قریب آنے والے کسی بھی شخص کو یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے۔
ماسک کورونا سے بچائو کا بہت اہم ہتھیار ہے۔ ماسک اور ہاتھوں میں گلوز یا وقفے وقفے سے ہاتھ صابن سے دھونا یا سینی ٹائزر سے صاف کرنا کامیابی کی چابی ہے۔ اچھا ماسک لینے کی کوشش ضرور کریں، N95، K95 وغیرہ پہلے ناپید تھے، اب کچھ کوشش سے مل جاتے ہیں۔ یہ نہ ملیں تب بھی جو ماسک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، انہیں استعمال کرلیں، حتیٰ کہ گھر کے بنے ہوئے کپڑے کے ماسک بھی کسی نہ کسی حد تک کفایت کر جائیں گے۔ نہ ہونے سے کچھ ہونابہتر ہوتا ہے۔ سینی ٹائزرعام ہیں . مختلف فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے بنا لئے ہیں، کوشش کریں کہ گاڑی، دفتر میں اپنی میز، حتیٰ جیب میں بھی رکھیں۔ پانی اور صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت موجود نہیں تو وقفے وقفے سے سینی ٹائزر استعمال کرتے رہیں۔
اپنے طرز عمل میں ڈسپلن لے آئیں۔ یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ باہر نکلتے وقت ماسک اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ غیر ضروری خریداری سے گریز کریں۔ جہاں جانا ضروری ہو، وہاں رش نہ ہونے دیں۔ چند لمحے انتظار کر لیں۔ کسی دکان پر بھیڑ ہے تو اس کے چھٹنے کا انتظار کریں یا پھر کسی دوسری دکان سے کام چلا لیں۔ یہ نظم وضبط آپ کو ان شااللہ اس وبا سے محفوظ رکھے گا۔
ایک اہم نکتہ یاد رکھیں کہ ماسک، گلوز اور فاصلہ رکھنے کی احتیاط اس لئے ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کمزور لمحے میں آپ اس وائرس کا شکار ہو گئے، تب بھی وائرس لوڈ کم رہے۔ یہ بہت اہم بات ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب وائرس لوڈ زیادہ ہو تب حملے میں شدت زیادہ ہوگی اور جسم کے اندر تباہی بھی اسی مناسبت سے ہوگی۔ وائرس لوڈ کم ہو تو ایک طرح سے بیماری آپ کے لئے ویکسین کا کام کرتی ہے۔ آپ شکار ہو کر ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں، مگر علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ایک بار ہوگئی تو پھر آپ آئندہ کے لئے اس سے محفوظ ہوجائیں گے۔
آج کل قوت مدافعت یعنی امیونٹی Immunityبہتر بنانے کی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اصل امیونٹی آپ کا اپنا طرز زندگی بہتر کرنااور کھانے کی بری عادتیں چھوڑناہے۔ یہ وہ امیونٹی ہے جو آپ کے ساتھ مستقل رہے گی۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش اس کے لئے ایک دلچسپ مثال دیتے ہیں کہ ستر سی سی موٹر سائیکل پر تین افراد سوار ہیں، آگے دس دس کلو دودھ کے دو ڈبے بھی لٹکا رکھے ہیں۔ ایسے میں موٹرسائیکل کی کارکردگی بہتر بنانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس پر بوجھ کم کیا جائے۔ انسانی جسم کی کارکردگی بہتر بنانے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ جنک فوڈ اور بے وقت کھانے کی بری عادتوں کا بوجھ اس پر سے اتارا جائے۔ نیند پوری نہ ہونے سے جسم متاثر ہوتا ہے، یہ بوجھ بھی ہٹ جائے، ورزش نہ کرنے سے اعضا مضمحل ہیں، یہ بھی ٹھیک کئے جائیں۔ وقت پر سوئیں، سات آٹھ گھنٹے کی بھرپور نیند لیں۔ یاد رکھیں کہ رات دس سے بارہ بجے کے دو گھنٹے افادیت کے اعتبار سے چار گھنٹوں کی نیند کے برابر ہیں۔ رات بھر جاگنے کے بجائے دس گیارہ بجے تک ہر حال سو جائیں، نیند پوری کریں۔ کھانا وقت پر کھائیں۔ بازاری کھانے اور غیر صحت مند چیزیں کھانا چھوڑ دیں۔ سادہ، تازہ خوراک لیں، موسمی پھل، سلاد وغیرہ کھائیں اور دن میں کم از کم آدھا گھنٹہ تیز چلیں، سونے سے پہلے دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی بھی کریں۔ اس سے آپ کی جسم کی پرفارمنس اور کارکردگی مستقل بنیادوں پر بہتر ہوگی، زندگی بھر ساتھ دے گی۔
وقتی طور پر ملٹی وٹامن کھانے میں کوئی حرج نہیں، اس کا فائدہ ہوگا۔ وٹامن سی اور زنک کھانے سے قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے، وٹامن ڈی مفید ہے۔ اپنی شوگر کنٹرول رکھیں۔ قہوہ جات سے سانس کے مسائل کم ہوتے ہیں۔ پنڈی صدر کے حکیم شمیم احمد خان چٹکی بھر سونف، پودینہ، ادرک، دار چینی اور تین لونگ گرم پانی کے کپ میں دم کر کے چھان کر پینے کا بتاتے ہیں۔ بعض دوسرے ادرک، دارچینی کا قہوہ بتاتے ہیں۔ ایک ماہر غذائیت لہسن کے ٹکڑے کھانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ دودھ میں ہلدی، شہد اور زیتون کا تیل ایک ایک چمچ ملا کر پینے کا بھی کہا جا رہا ہے۔ سنا مکی کے قہوے کی آج کل دھوم مچی ہے، مگر بعض حکما کے خیال میں سنا مکی کو اکیلے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ حکیم نیاز ڈیال جو نیچرو پیتھی کے اچھے ماہر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سنا مکی بلغم کے اخراج میں معاون ہے، مگر اس کی زیادتی سے معدے کے مسائل پیدا ہوں گے۔ سنا مکی ایک گرام، ادرک کی کاشیں نصف گرام، اور چند گلاب کی پتیوں کو گرم پانی کے کپ میں ڈال کر دس پندرہ منٹ کے لئے ڈھانپ دیں، پھر چھان کر شہد مل کر پی لیں تو فوائد کثیرہ کا باعث ہے، اسی طرح سنا مکی ایک گرام، سات دانے منفقیٰ اور گلاب کی چند پتیوں کے ساتھ بھی قہوہ بن سکتا ہے، سنا مکی، سونٹھ اور دیسی شکر ہم وزن ملا کر سفوف بنا لیں، رات سوتے وقت نصف چمچہ استعمال کریں توبدن کے بادی سے متعلق تمام امراض کا ان شااللہ خاتمہ ہوجائے گا۔
مجھے ذاتی طور پرکورونا کے ابتدائی دنوں میں شدید الرجک کھانسی ہوئی، ان دنوں خوف بہت پھیلا تھا، پریشانی رہی۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ سخت کھانسی رہی۔ ہر قسم کا علاج کر کے دیکھ لیا۔ پھر ایک دوست حکیم حبیب الرحمن کاظمی نے دوائی بنا کر دی، اس نے کرشمہ کر دکھایا۔ عناب، لسوڑی اور بھئی سے بنائی گئی تھی۔ بلغم کا اخراج ہوا اور سانس بحال۔ کھانس کھانس کر بے حال ہوگیا تھا، تین چار دنوں میں الحمدللہ مرض کا خاتمہ ہوگیا۔ ان دیسی چیزوں، ہربل علا ج کی افادیت سے انکار نہیں۔ یہ بات مگر ذہن میں رہے کہ آپ کتنے دن وٹامن سی، زنک کھائیں گے؟ کتنے دن قہوہ بنا کر پیتے رہیں گے؟ کوئی پتہ نہیں کورونا سے ہمارا آپ کا واسطہ جون میں ہوتا ہے یا اگست میں یا پھر خدانخواستہ نومبر، دسمبر یا اگلے سال مارچ میں؟ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ موزی کب جائے گا؟ دوبارہ تو نہیں آ جائے گا؟ تبدیل شدہ شکل میں تو حملہ نہیں ہوجائے گا؟ اس لئے اپنے اندر صحت مند عادتیں پیدا کریں، طویل المیعاد اور دائمی تبدیلی لائیں، جو کٹھن لمحوں میں آپ کا ساتھ دے جائے۔ ہمیں ا پنی تمام تر ذہانت استعمال کر کے اس عِفریت کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے۔