سیاسی سرگرمیاں… صحت مندانہ رجحان !
پاکستان میں جمہوریت کے ادوار میں یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی منتخب حکومت کو پہلے سال ہی اس قدر ٹف ٹائم مل رہا ہو۔ خیر یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں کی لنگڑی لولی سیاست میں جہاں لیڈر پیدا نہیں ہوتے بلکہ سیاسی خاندان جنم لیتے ہیں، وہاں حکومت کرنا خاصا دشوار کام ہے۔ تحریک انصاف جو پہلی بار اقتدار میں آئی ہے وہ مشکل سے گزر بھی رہی ہے اور پریشان بھی ہے۔
بقول حکومت کے کہ سابقہ حکمرانوں کے بیوروکریسی، پولیس اور دیگر اداروں میں اثر و رسوخ، پیسے کی بھرمار اور رشوت خوری کی وجہ سے وہ مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہے۔ حکومت کے اس بیان کے بعد مجھے جمہوریت کا وہ دور یاد آگیا جب جمہوریت کا آغاز ہوا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب 26سو سال قبل تاریخ کا سب سے پہلا " انقلاب" یونان کے شہر ایتھنز میں برپا ہوا تھا۔ جس میں عظیم مفکر "سولون"نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، اورعظیم قانون دان، سیاست دان اورشاعر "سولون" قبل از مسیح، کے نام سے بھلا کون واقف نہیں، جس کا مشہور قول تھا "قانون مکڑی کا وہ جالا ہے، جس میں کمزور تو پھنس جاتے ہیں، مگر طاقتور پھاڑ کر نکلتے ہیں"۔ انھوں نے اُس قدیم "انقلاب" کو ایک قانون دان، سیاست دان اور شاعر کی حیثیت سے بھرپور مہمیز دی تھی۔ جسے ہم نے تو فراموش کردیے ہیں، مگر تاریخ نے قطعاً نہیں۔
اینتھنز والوں پر جب اُس وقت کے بادشاہوں نے ظلم کیا، اور عوام کو انصاف نہ ملا تو وہاں ایک تحریک پیدا ہوئی، جس کی قیادت سولون نے کی۔ وہاں کے عوام بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکے تھے، عوام کا ایک ٹولہ وہ تھا جو سرکاری مراعات حاصل کرتاتھا، یہ ٹولہ کسی نہ کس طرح بادشاہ سے جڑا رہتا اور اپنی اُجارہ داری قائم رکھتا۔ لوگ اُس ٹولے کی باتوں میں آکر احتجاج ترک کردیتے۔ جب کہ سولون بھی بیک اسٹیپ چلا جاتا۔ وقت گزرتا گیا، اور مناسب وقت آنے پر مفاد پرست ٹولے کی شکایت پر سولون کو ایتھنز کے بادشاہ نے گرفتار کر الیا اور سولون کی دوران اسیری موت ہوگئی۔
سولون کے چلے جانے کے بعد اُس کے چاہنے والوں میں خاصا غم و غصہ پایا جاتا تھا، لہٰذااپنے حق کے لیے لوگ اُٹھنا شروع ہوگئے، ہر گزرتے دن "بغاوت" کے جرم میں یونان کا ہر چوراہا خون سے رنگا جاتا اور درجنوں افراد کو سزائے موت دے دی جاتی۔ لہٰذایہ جمہوریت کی پہلی نرسری قرار پائی جس میں عام آدمی اپنے حق کے لیے لڑنے کا اہل ہوا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے یونان میں انقلاب آ گیا۔ اور بادشاہ تخت چھوڑ کر فرار ہوا اور پہلی جمہوری حکومت اور عوام کا منتخب نمایندہ عوام کا اصل خادم بن کر سامنے آیا۔
لٹیکن نامی اس پہلے جمہوری بادشاہ نے سب سے پہلا جو اعلان کیا وہ قابل ذکر ہے۔ لٹیکن کے مطابق "ریاست کے عوام جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جس وقت چاہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں، یہی ڈیموکریسی ہے، یہی عوام کی جیت ہے " اُس کے یہ الفاظ یونان سے نکلتے ہوئے پوری دنیا میں پھیل گئے اور مختلف گروپس نے جنم لیا جنھیں "سیاسی" پارٹیوں کے نام سے لکھا اور پکارا جانے لگا۔
خیر مذکورہ بالا تاریخ کے حوالے سے ہمیں دو سبق ملتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جب من مرضیاں اور کرپشن اداروں کے اندر سرائیت کر جائیں تو ’انقلاب، پھوٹتے ہیں۔ دوسرا سبق یہ کہ حالات جیسے بھی ہوں، بادشاہ جیسا بھی ہو یا جگہ جیسی بھی ہو سیاسی سرگرمیوں کو پروان چڑھتے رہنا چاہیے ورنہ ملک جمہوری نہیں رہتا بلکہ ناپسندیدہ "بادشاہت سرکار" کو جنم دیتا ہے۔ اب موجودہ حکومت اپنے مخالفین سے تنگ آکر یا مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر عمل پیرا ہو کر مخالفین کے جلسے روکے گی تو یہ عمل یقینا اپوزیشن کے حق میں جائے گاجیسے حال ہی میں منڈی بہاؤالدین، فیصل آباد اور لاہور کے جلسے میں مبینہ طور پر حکومت نے اپوزیشن کو جلسہ کرنے سے روکا ہے۔
اس سارے عمل کا فائدہ کس کو ہوا؟ جی ہاں اپوزیشن کواور ویسے بھی ہمیں اس ملک کی سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ لاکھ ن لیگ یا پیپلزپارٹی کو ختم کرلیں یہ کبھی نہیں ہوں گی۔ ن لیگ کے خلاف کرپشن ثابت بھی ہو چکی ہے، یا کر دی گئی ہے، ان کے لیڈرز جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں مگر اس کا ووٹ بینک متاثر نہیں ہو رہا؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی ورکرز کے پاس چوائس نہیں ہے۔
جیسے گجرات میں دو گروپس ہیں، ایک چوہدری برادران کا دوسرا اس کا مخالف گروپ اب اگر پرویز الٰہی سونے کا بھی بن کر آجائے تو دوسرے گروپ کے لوگوں نے اُسے کسی صورت قبول نہیں کرنا۔ یہی حال دیگر شہروں، علاقوں کا بھی ہے کہ آپ ن لیگ کو ختم بھی کر دیں تب بھی وہ پی ٹی آئی میں نہیں آئیں گے بلکہ جماعت اسلامی یا کسی اور جماعت کو ترجیح دیں گے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تحریک انصاف کے آنے کے بعد پاکستان میں ماہرین کے مطابق شہروں میں نظریاتی ووٹروں کی تعداد میں 18فیصد اضافہ ضرور ہوا ہے۔
بہرکیف اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ چونکہ سابقہ جماعتیں ساری چور تھیں تبھی ملک آج دیوالیہ ہونے کو ہے اس لیے سارے گروپس اُس کے حمایتی بن کر تحریک انصاف میں آجائیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ بلکہ حکومت کو چاہیے کہ جو جماعت پرامن جلسہ جلوس کرنا چاہتی ہے اُسے پورا موقع فراہم کرے۔ اپوزیشن کو کم از کم یہ سوچنا چاہیے کہ جو رولز ریگولیشن انھوں نے خود بنائے تھے، کم از کم اُن رولز کی خلاف ورزی وہ خود تو نہ کریں؟ یعنی اگر مال روڈ پر دفعہ 144کا نفاذ ن لیگ کے دور میں ہواتھا، تو اب وہ اگر پابندیوں کی زد میں خود آگئے ہیں تو اس میں کسی کا کیا قصور؟ وہ خود جلسے کیوں کرتی ہے؟
لہٰذاسیاسی سرگرمیاں قائم رہنی چاہیئں مگر اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو اسمبلیوں میں بل منظور کروانے کی ضرورت ہے، اور شہروں میں جلسے جلوس کے لیے ایسے مقامات تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو نسبتاََ شہر سے باہر ہوں، جہاں عام عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن ان سیاسی سرگرمیوں کو روکنا کسی کے مفاد میں بھی نہیں!