قانون اور انصاف
آج کل سوشل میڈیا پر ایک ٹاپ ٹرینڈ "فیصل آباد پولیس" چل رہا ہے، یہ اس لیے ہے کہ گزشتہ ہفتے فیصل آباد شہر میں ایک پولیس مقابلہ میں 4ملزمان مارے گئے۔ ان پر ایک کمسن بچے سے زیادتی کا الزام تھا۔ اس واقعہ کے بعد فیصل آباد کے عوام نے اس پولیس مقابلے کو سراہا اور پولیس کے حق میں جلوس بھی نکالے، ملک بھر میں 99.9فیصد لوگ اس واقعہ پر پولیس کا شاباشی دے رہے ہیں۔
یعنی یا تو عوام کا نظام انصاف سے اعتبار اُٹھ گیا ہے، یا وہ فوری انصاف چاہتے ہیں، خیر یہ ملک میں ہونے والے دیگر پولیس مقابلوں جیسا ایک مقابلہ تھا جسے کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ پولیس نے ٹھیک کام کیا؟
قانون کے ہاں، ظاہر ہے اس سوال کا جواب نفی میں ہے، بلکہ وہ چاہے گا کہ ان ملزمان کا ٹرائل ہو اور عدالتوں سے انھیں سزاملے۔ لیکن یہاں ایک دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ قانون میں اگر اس اقدام کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر یہ سوشل میڈیا پر لوگ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا معاشرہ اپنے قانون سے لاتعلق ہو چکا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے اور اس واقعے کا تذکرہ ہندوستان میں تعینات برطانوی افسر پینڈرل مون نے اپنی کتاب" انڈیا ان اسٹرینج" میں کیا۔
اسی کتاب میں ایک دو واقعات آپ کی نذر کرتا چلوں کہ ایک گائوں میں کسی کے مویشی چوری ہو گئے۔ پولیس نے چوروں کو مویشیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ لیکن چور بڑے طاقتور تھے۔ چنانچہ مویشیوں کے مالکان ڈر گئے اور انھوں نے بیان دے دیا کہ نہ تو یہ مویشی ان کے ہیں اور نہ ہی ان کے مویشی چوری ہوئے ہیں۔ اب مقدمے کا نتیجہ واضح تھا کہ مجرمان نے بری ہو جانا تھا۔ چنانچہ پولیس نے اب ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور مویشیوں کے نئے جعلی مالکان ڈھونڈ نکالے۔ یہ نئے مالکان عدالت میں پیش ہو گئے اور انھوں نے اپنے مویشی بھی پہچان لیے۔ چنانچہ مجرموں کو سزا ہو گئی۔
مویشی بیچ کر ان کی رقم "جعلی مالکان" اور پولیس میں تقسیم ہو گئی۔ اصل مالکان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ مصنف لکھتا ہے کہ اگر قانون کے مطابق ہی چلا جاتا تو چوروں کو کبھی سزا نہ مل سکتی۔ کیونکہ برطانیہ کا بنا یا ہوا قانون اتنا پیچیدہ ہے کہ اس خطے میں اس کے تحت انصاف ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک اور واقعہ بھی اسی کتاب میں لکھا ہے۔ ایک گائوں کے کچے مکان کی دیوار توڑ کر چوروں نے کچھ چوری کر لی۔ پولیس نے انتہائی محنت سے چند ہی دنوں میں چور ڈھونڈ نکالے۔ چوری کا مال بھی برآمد ہوگیا۔
مصنف لکھتا ہے کہ مال ایک ایسی جگہ زمین میں دبایا گیا تھا جو غیر آباد تھی۔ اب یہاں پینڈرل مون ایک سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ فرض کریں اب یہ کیس کسی جج کے سامنے پیش ہو۔ چور بھی عدالت میں لے جا کر کھڑے کر دیے جائیں اور چوری کا مال بھی پیش کر دیا جائے۔ جج بھی انتہائی ایماندار ہو تو اس صورت میں کیس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیونکہ قانون کے مطابق چوری کا مال چوروں کے قبضے سے برآمد نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ ان کے زیر قبضہ یا زیر تصرف جگہ سے برآمد ہوا ہے۔ بلکہ یہ سامان ایک ایسی جگہ سے نکلا ہے جہاں ہر شخص کی رسائی ہے۔ اس لیے شہادت کمزور قرار دی جائے گی اور ملزمان بری کر دیے جائیں گے۔
یہ کتاب 40کی دہائی میں لکھی گئی تھی لیکن زمینی حقائق آج بھی وہی ہیں کیونکہ قوانین وہی ہیں۔ آج بھی کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اپنا سچا فوجداری مقدمہ بھی جھوٹ بولے بغیر صرف سچ کے زور پر جیت کر دکھا دے۔ ایف آئی آر میں جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہے۔ گواہیاں باقاعدہ تیار کی جاتی ہیں۔ قریب قریب سارا منظر نامہ وہی ہے جس کا تذکرہ کتاب میں کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہاں وہی پولیس، وہی سسٹم ہے، وہی قانون تعزیر، وہی گواہی دینے کا نظام، وہی جھوٹ اور پھر نتائج بھی ویسے ہی نکلتے ہیں۔ بہرکیف ملزم کی گرفتاری اور سزا کے بیچ وہ خوفناک مراحل آتے ہیں جہاں قانون بھی ہانپ جاتا ہے۔ طاقتور آدمی کے خلاف کون گواہی دے۔ گواہی دینے والے کو تحفظ کون دے گا؟ وہ سر راہ قتل ہو جائے تو کیا ہو گا؟ سوالات ہی سوالات ہیں۔ اور ان سوالات کی پیچیدگی سے پولیس کے سوا کون آگاہ ہو گا؟
یہاں المیہ یہ ہے کہ لوگ بھی پولیس مقابلوں کو سراہتے ہیں، کیوں کہ انھیں پتہ ہے کہ اس سسٹم میں امیر اور طاقتور کو سزا نہیں ملتی، سب کو علم ہوتا ہے کہ گنہگار کون ہے، لیکن گواہی دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتاجس سے ملزم بچ جاتا ہے۔ اورعدالتیں اس ملزم کی ضمانت منظور کرنے کے لیے مجبور ہوجاتی ہیں۔ میری اس تحریر پر شاید کچھ دوست ناراض بھی ہوں کہ بچے کے لواحقین کو جلد انصاف مل گیا، اس سے مجھے کیا تکلیف! اور ویسے بھی پاکستان میں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے ایک دردناک تاریخ ہے۔
ماضی قریب میں قصور شہر کے ایک واقعہ نے جس میں بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا نے پوری قوم کو صدمے میں ڈال دیا تھا۔ اس وقت کے فعال "خادم اعلیٰ" قصور موقع پر گئے اور پولیس نے جدید آلات وٹیکنالوجی کی مدد سے اس بدبخت کو گرفتار کیا۔
میرے خیال میں ہمیں ہمارے نظام انصاف پر ذرا غور کرنا چاہیے، یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ یہاں فوری انصاف کے لیے ملٹری کورٹس کی ضرورت پیش کیوں آتی ہے؟ جہاں مجرم فوری طور پر کیفرکردار کو پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ میں ملٹری کورٹس کے خلاف ہوں، لیکن پھر بھی فوری انصاف ملنے پر میں ملٹری کورٹس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خطرناک دہشت گردوں کو ملٹری کورٹس کے علاوہ کوئی سزا نہیں دے سکتا تھا، پھر کیا کرپٹ لوگوں اور عادی مجرموں کے لیے بھی ایسی فوری سزائیں نہیں ہونی چاہیئں، کیا ایسے طاقتور لوگوں کے لیے بھی ایسی "اسپیشل کورٹس" نہیں ہونی چاہیں، اگر ان کے فیصلے پرانے فرسودہ نظام کے مطابق ہوں گے تو انصاف کی کوئی اُمید نہیں لگائے گا۔
اور ویسے بھی پہلے ہی ہمارے سامنے سانحہ بلدیہ ٹائون، سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ ساہیوال اور دیگر سانحات ہیں جن میں ملزمان کو آج تک سزا نہیں ملی۔ جہاں حکومت گواہان کو پروٹیکشن دینے سے قاصر ہو، وہاں پھر معذرت کے ساتھ پولیس مقابلے ہی عوام کے نزدیک بہتر تصور کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا معاشرہ میں جرائم کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر کل بھی موجود تھا اور آج بھی ہے۔ لیکن اس کا حاضر صورتحال کے مطابق حل کیا ہے۔ فوری اور باموقع انصاف یا عدالت میں طویل مقدمہ۔ اس سوال پر ایک ایسی قومی بحث کی ضرورت ہے جس میں صرف اہلیت رکھنے والی آوازیں ہوں نہ کہ صرف بحث براے بحث۔
اس فرسودہ نظام قانون کو ادھیڑ کر پھینکنا ہو گا اور اپنی زمینی حقیقتوں کی روشنی میں اپنے لیے اپنا قانون بنانا ہو گا۔ یاد رکھیے، 159سال پرانے پولیس کے ڈھانچے، ڈیڑھ صدی پرانے فوجداری قانون اور 121سال پرانے مجموعہ ضابطہ فوجداری سے قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکتی۔ بے شک ایک سو سال مزید برباد کر کے دیکھ لیجیے۔ جو بادی النظر میں ہم کر ہی رہے ہیں!!