کلبھوشن کیس: بھارت کا اصل چہرہ !
پے در پے شکستوں کے بعد آخر کار ہمیں عالمی فورم پر تھوڑا سا ریلیف مل ہی گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ ریلیف ہمیں ماضی کے درجن بھر کیسوں میں بھی ملتا، کیوں دنیا آپ کو انھی عالمی کیسز کی بنا پر پرکھتی ہے اور آپ کے پاسپورٹ کے مضبوط ہونے یا کمزور ہونے کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔ جس کیس میں ریلیف ملا وہ کوئی اور کیس نہیں بلکہ کلبھوشن یادیو کیس ہے۔ کلبھوشن یادیو کا نیٹ ورک اُن دنوں پکڑا گیا جب کوئی دن ایسا نہیں تھا جو دہشتگرد کارروائی سے خالی جاتا ہو۔
روزانہ ملک میں کہیں نہ کہیں دھماکا ہوتا جس سے معصوم شہری نہ صرف نشانہ بنتے بلکہ اُن کے خاندان کے خاندان اُجڑ جاتے۔ دہشتگردی کا یہ سلسلہ 2007ء سے 2016ء تک عروج پر رہا۔ پاک فوج کی جانب سے ضرب عضب شروع ہوا۔ پھر بلوچستان میں رنگے ہاتھوں جاسوسی کرتے ہوئے 3 مارچ 2016ء کو ایک آپریشن میں کلبھوشن گرفتار ہو گیا۔ اسے چمن کے قریب حراست میں لیا گیا۔ کلبھوشن یادو نے گرفتاری کے بعد بھارتی خفیہ ادارے ’را، سے بھی وابستگی کا اعتراف کیا اور حاضر سروس بھارتی بحریہ کا افسر ہونے کا بھی اعتراف کیا۔ اس نے کراچی اور بلوچستان میں خفیہ تخریب کاری کا بھی اعتراف کیا۔ وہ 2003ء سے جاسوسی کے نیٹ ورک سے جڑا ہوا تھا۔ اس کے قبضے سے اسی نام کے ساتھ کئی جعلی دستاویزات بھی برآمد ہوئیں جن میں 2003ء میں تیار کردہ جعلی پاسپورٹ نمبر L9630722 بھی شامل تھا۔
اس پاسپورٹ پر اس کا نام حسین مبارک پٹیل اور تاریخ پیدائش 30 اگست 1968ء درج تھی۔ اس کے ماتھے پر محراب بھی بنی تھی۔ خود کو مسلمان ظاہر کرنے کے لیے بھارت میں ہی کسی ماہر ڈاکٹرسے بنوائی تھی۔ "پلاسٹک سرجری" بھی کروائی ہو گی۔ گرفتاری کے وقت اس کا لیپ ٹاپ بھی پاکستانی انٹینوں کے ذریعے کام کر رہا تھا۔ پاکستانی ادارے اس کے فون کی مانیٹرنگ کر رہے تھے، وہ مزے سے اپنے خاندان کے ساتھ مراٹھی زبان میں ہیلو ہائے کر رہا تھا۔ اس نے 2013ء سے ہی تخریب کاری کی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس وقت کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق وہ انتہا پسندوں سے رابطے میں تھا، بلوچستان میں فرقہ پسندی اسی نے پھیلائی۔ کراچی میں بے چینی کا ذمے دار بھی وہی تھا، وہ علیحدگی پسندوں کو تربیت دیتا رہا اور اس کا مقصد گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں کو تخریب کاری کے ذریعے نقصان پہنچانا تھا۔ دوران تفتیش اس نے فنڈنگ کی تفصیلات اور ذریعے کا بھی اعتراف کیا۔ کمانڈر رینک کے اس افسر نے گرفتاری کے بعد اپنے گناہوں پر پردہ نہیں ڈالا بلکہ انھیں مان گیا۔
وہ 14 سال سے جاسوسی اور تخریب کاری میں ملوث تھا۔ اسی لیے اس کی گرفتاری کے بعد تخریب کاری اور دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی۔ ابتدائی طور پر بعض بھارتی خبر رساں ادارے آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ بھارتی حکمرانوں کو کافی ساری پریشانیاں لاحق تھیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اس کے لیپ ٹاپ سے پاکستان کو کیا ملا؟ ’را، کے سابق چیف وکرم سود نے کہا کہ کسی آدمی کو پاسپورٹ سمیت گرفتار نہیں کیا گیا، الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ بعض اخبارات نے یہ بھی لکھا کہ اسے ایران میں طالبان نے اغوا کیا اور پاکستان کو فروخت کر دیا، اس قسم کی خبریں مختلف ذرایع سے جاری کروائی گئیں۔ کلبھوشن کے خلاف کارروائی چلتی رہی، کلبھوشن نے اقبالی بیان بھی دیا جس میں اس نے بلا خوف و خطر جاسوس ہونے اور پاکستان میں دہشتگرد کارروائیاں کرنے کا اعتراف بھی کیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور عدالت نے جاسوسی کا نیٹ ورک چلانے پر اسے 10اپریل 2017ء کو سزائے موت سنا دی۔ بھارت 8 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف میں چلا گیا۔
تاہم 18مئی 2017ء کو عالمی عدالت نے پاکستان کو فیصلے تک سزائے موت دینے سے روک دیا۔ عالمی عدالت میں لگاتار 2سال تک کیس چلا۔ اور 17جولائی کو اپنا فیصلہ سنایا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں دہشتگردی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے بھارت کی جانب سے اس کی بریت کی درخواست مسترد کر دی اور واضح کیا ہے کہ بھارت کو اس کا دہشتگرد واپس نہیں ملے گا۔ اس طرح بھارت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی رہائی کے لیے اس کا رجوع کامیاب نہیں رہا بلکہ الٹا یہ بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بنا۔ عالمی عدالت کا یہ فیصلہ جہاں کلبھوشن کو دہشتگردی کا مجرم قرار دیتا ہے وہاں یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ وہ بھارتی جاسوس تھا۔ مذکورہ فیصلے سے یہ ثابت ہو گیا کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کا منظم سلسلہ قائم کیے ہوئے تھا اور اس سے یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ بھارت ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات خصوصاً وہاں افراتفری پھیلانے اور دہشتگردی کا مرتکب ہوتا ہے۔ میرے خیال میں عالمی عدالت کا یہ فیصلہ عالمی قوتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالتے نظر آتے ہیں۔
ریکوڈک کے حوالے سے آنے والا فیصلہ ہم سب کے سامنے ہے جس میں پاکستان کو کم و بیش 6ارب ڈالر ٹیتھیان کاپر کمپنی کو ادا کرنا ہوں گے۔ یہ رقم آئی ایم ایف سے ادھار لی جانے والی رقم کے برابر ہے، یہ رقم بلوچستان کے کل بجٹ سے چار گنا زیادہ ہے۔ یہ رقم ریکو ڈک پر ابھی تک کمائی جانے والی رقم سے 18گنا زیادہ ہے۔ حالیہ چند سال میں پاکستان کو کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے عالمی عدالت میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا جسکی بدولت عالمی عدالت نے پاکستان کے حصے کا پانی بھی بھارت کو استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس کے علاوہ رینٹل 22 اگست 2017ء کو عالمی عدالت نے پاکستان کے خلاف ترکی کے جہاز "کارکے" رینٹل پاور کیس کا فیصلہ ترک کمپنی کے حق میں دیا تھا۔
جس میں عالمی عدالت نے پاکستان کو 90 کروڑ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا، دنیا جانتی ہے کہ یہ رینٹل پاور پلانٹس پیپلزپارٹی کے سابق دور میں حاصل کیے گئے تھے۔ ایک اور عالمی عدالتی فیصلے کی روداد سناتا چلوں کہ رواں ماہ 12 جولائی کو لندن کی عالمی ثالثی عدالت نے نیب کی طرف سے براڈشیٹ کے ساتھ 2003ء میں کیا گیا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے پر پاکستان کو 33 ملین ڈالر جرمانہ کیا تھا۔ پھر 26دسمبر 2018ء کو عدالت نے اس معاملے میں 21 ملین ڈالر زر تلافی ادا کرنے کے لیے کہا تھا۔ پاکستان کے حکام نے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا اور نظرثانی کی درخواست پر فیصلے کے بعد اس رقم کا حجم بڑھ کر 33 ملین ڈالر ہو گیا۔
جب کہ نیب کے دفاع کے لیے جس قانونی فرم کی خدمات حاصل کی گئیں اس کو 5 ملین پاؤنڈز بھی ادا کیے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ ابھی بھی پاکستان عالمی فورمز میں 3 درجن سے زائد کیسزمیں پھنسا ہوا ہے۔ ان کیسز میں آئی پی پیز کی طرف سے ایک ٹریلین کے واجبات کی ادائیگی کے لیے دائر کیس بھی شامل ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ دماغوں کے لیے یہی عرض ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا براہ راست تعلق ملک کے نظام اور اس کے چلانے والوں سے ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے بہت سے بڑے فیصلہ ساز اپنے من پسند فیصلوں کے ساتھ لندن، نیویارک، آسٹریلیا یا کسی اور ملک میں بیٹھے ہوں لیکن اس کی قیمت آخر ملک کے امیج اور عوام کے مفادات کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
بہرکیف اگر ہمیں کلبھوشن یادیو کے کیس میں تھوڑا ریلیف ملا ہے تو ہمیں چاہیے کہ اس معاملے کو مزید طول دیں، بے شک بھارتی جاسوس کو پھانسی نہ دی جائے مگر اُسے دنیا کے ہر فورم پر دکھایا جائے، تاکہ پاکستان کے موقف (بھارت خطے میں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے) کو تائید حاصل ہو سکے کیوں کہ آج کل یہی سب سے بڑی گریٹ گیم ہے۔