حکومت مافیا کنٹرول کرنے میں ناکام !
معروف بھارتی شاعر راحت اندوری کہتے ہیں
ہمارے سر کی ٹوپیوں پر طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
ویسے تو اس شعر کا تعلق بھارت میں موجود مسلمانوں کے پسماندہ حالات سے ہے مگر یہ شعر بطور پاکستانی قوم ہم پر بھی پورا اترتا ہے، کیوں کہ ہماری بھی زبوں حالی کسی پسماندہ ترین قوم سے زیادہ نہیں، بلکہ یوں کہیں کہ پسماندہ ترین ذہنیت کی عکاسی ہم کر رہے ہیں، جو اجتماعی کے بجائے انفرادی سوچ کو آگے لے کر چل رہے ہیں کہ ہم
اپنے ایک کلو گوشت کے لیے پوری بھینس ذبح کر دیتے ہیں، جیسے ایک چھوٹی سی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ایک بار پھر چینی کی قیمت 20روپے بڑھ رہی ہے، علم ہوا ہے کہ ایک بار پھر چینی باہر سے امپورٹ کی جا رہی ہے، پھر یہ بھی علم ہوا ہے کہ یہ چینی 500ڈالر فی ٹن کے حساب سے منگوائی جارہی ہے، پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ چند ماہ قبل پاکستان 300ڈالر فی ٹن کے حساب سے چینی برآمد کر چکا ہے، پھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ باہر سے چینی منگوائی جانے کا سب سے بڑا فائدہ مافیا کو ہو رہا ہے، جو اپنی ملکی چینی کو باہر بھیج کر بھی منافع کما رہا ہے اور دوبارہ باہر سے منگوا کر بھی ناجائزمنافع وصول کر رہاہے، الغرض آج زرعی ملک جہاں چینی اور گندم کی درآمد اور برآمد کی مختلف کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں اورناجائز پیسہ کمانے کے ایسے ایسے طریقوں کے بارے میں علم ہو رہا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔
اب دیکھیں جس ملک میں چینی کی کل پیداوار 50سے 60لاکھ ٹن، اور ملکی ضروریات بھی کم و بیش اتنی ہی ہیں، جب کہ گندم کی پیدوار ڈھائی کروڑ ٹن اور ضروریات 2کروڑ ٹن ہوں وہاں آٹے اور چینی کا شارٹ ہوجانا، دنوں کی قیمتیں اوپر چلے جانا، مارکیٹ سے غائب ہو جانا یا مافیا کا غالب رہنا انتہا کی بد انتظامی، بد عملی اور بے ایمانی ہے۔ (ایک میٹرک ٹن ہزار کلو یعنی پچیس من کے برابر ہوتا ہے) لیکن مزے، حیرت، بدنامی اور ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ ہم دونوں چیزیں درآمد کرکے ملکی خزانے کو اس قدرنقصان پہنچاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کچھ دن قبل، میں ایک نشست میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھا تھا کہ ایک دل جلے صاحب نے موجودہ حکمرانوں کو چینی اور گندم چور کہنا شروع کر دیا۔ چونکہ میں بھی "تبدیلی" کا ضامن رہا ہوں تو میں نے ہلکے پھلکے دلائل دیے مگر اُن صاحب نے فرمایا کہ جو کچھ بھی ہے مگر موجودہ حکومت کی انتظامی کارکردگی کو ایک جملے میں سمیٹا جا سکتا ہے یعنی "حکومت مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے"۔
خیر اگر آج کے حکمرانوں کو گندم اور چینی چور کہا جا رہا ہے، تو اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ ان کی بدانتظامی کا ہے کہ حال ہی میں ہزاروں ٹن چینی 309 ڈالر فی ٹن کے حساب سے برآمد کی گئی، پھر بعد ازاں عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہی چینی 475 ڈالر فی ٹن کے حساب سے خریدی گئی، اب ایک بار پھر ایک ہی حکومت میں دوسرا بلکہ تیسرا چینی اسکینڈل سامنے آ گیا ہے، کہ پنجاب میں شوگر ملوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر چوری چھپے چینی کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔
ایک اور چینی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کین کمشنر پنجاب کی جانب سے پنجاب حکومت کو خط لکھ دیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ گنا بھی چوری چھپے خریدا جا رہا ہے اور چینی کی فروخت بھی ہو رہی ہے، حکومت چینی اور گنے کی چوری چھپے فروخت کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ اگر حالات کنٹرول میں نہ ہوئے تو شدید بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
قصہ مختصر یہی کچھ سابقہ حکومتوں میں ہوتا رہا ہے اور اب سب کچھ اس حکومت میں بھی دہرایا جارہا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے چالاک حکمرانوں کے باعث یہ چیزیں منظر عام پر نہیں آتی تھیں، مگر اب حکمران جماعت کے اندر ہی سے ایک دوسرے کے خلاف خبریں "لیک" کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ غریب اور نچلے متوسط طبقے کا کل بھی کوئی پرسانِ حال نہیں تھا اور آج بھی کوئی نہیں ہے۔
اصول، اخلاقیات اور دیانت کا نعرہ لگا کر سیاست کرنے والے کل تک جس کو بددیانت اور خائن کہتے تھے، آج اسی کی کرپشن کا دفاع کر رہے ہیں۔ سب کو یہ امر پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ حکومت بھی کبھی کسی کے گھر کی باندی بن کر نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں اب تک کئی حکمران آئے اور چلے گئے، اسی طرح تحریک انصاف کو بھی ایک دن اقتدار چھوڑ کر جانا پڑے گا، کاروانِ حیات کسی کے جانے سے رکا نہیں کرتا لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ جانے والے کو کن الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ اس معاملے میں کسی قسم کی ڈنڈی نہیں مارے گی اور نہ ہی وہ کسی کو کوئی رعایت دیتی ہے۔
الغرض ان مافیاز کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، کیوں کہ عوام کو درپیش اس مسئلہ کو حل کرنا ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے صورتحال یہ ہے کہ عام شہری اور تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی شرح میں تکلیف دہ اضافہ کے باعث اس گرداب میں اس حد تک دھنس چکا ہے کہ اسے اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ صرف پاکستان میں ہی ایسے مسئلے سر اُٹھا رہے ہیں بلکہ دنیا میں بھی ایسے چیلنجز سر اٹھاتے رہتے ہیں لیکن اس سے نمٹنے کے لیے ریاستی ادارے حرکت میں آتے ہیں۔
پاکستان میں بھی یہ صورتحال دنیا کے دوسرے ممالک سے مختلف نہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار سے چمٹے رہنے والے سدا بہار الیکٹیبلز کی ایک ایسی کھیپ ہمیشہ سے موجود رہی ہے جو اقتداری ایوانوں میں وزیر، مشیرکی حیثیت سے براجمان ہوتے ہیں اور یہی صورتحال موجودہ حکومت کی بھی ہے وہی مشیر وزیر جو ماضی کی حکومتوں میں رہ کر عوام کے مسائل میں اضافہ کا سبب بنتے رہے ہیں آج بھی ان کے دیے جانے والے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں ادراک ہی نہیں کہ "مافیاز" کی وجہ سے جو بحران جنم لے چکا ہے اس کی نوعیت کیا ہے تو ایسی حکومتی کابینہ سے مستقبل میں کیا امید کی جا سکتی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ان مافیاز کے تدارک کے لیے قواعد و ضوابط اور قوانین موجود ہیں، جیسے برطانیہ میں بیلنس کمیشن ہے جو ہر ضروریہ اشیاء کی قیمتوں اور اسٹاک کے متعلق ہمہ وقت باخبر رہتا ہے، اور کسی کو مصنوعی ذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی اس رجحان پر نظر رکھنے کے لیے حکومت کی جانب سے قائم کیا جانے والا مسابقتی کمیشن موجود ہے جو آج سے تیرہ سال قبل ایک صدارتی آرڈی ننس کے تحت وجود میں آیا اور 2010 میں پارلیمان سے باقاعدہ منظور ہوا تھا۔
اس مسابقتی کمیشن کے دائرہ کار میں بھی زائد منافع کے لیے کاروبار میں گٹھ جوڑ قائم کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے، اس کمیشن نے گزشتہ بارہ سالوں میں مختلف سیکٹرز میں گٹھ جوڑ، ذخیرہ اندوزی، اور اجارہ داری کے غلط استعمال پر کارروائی کرتے ہوئے 2399 آرڈرز جاری کیے اور مختلف سیکٹرز پر ستائیس ارب روپے کے قریب جرمانے عائد کیے لیکن ملک میں یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ انھوں نے اس مسابقتی کمیشن کے فیصلوں کو ملک کی مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا ہوا ہے۔
ملک کی مختلف عدالتوں میں ان زیر التواء کیسز کی تعداد 127ہے جن میں شوگر ملز کیس بھی شامل ہے جو 2009سے سندھ ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے یہاں تک کہ اس منہ زور مافیا نے لاہور ہائیکورٹ میں اس مسابقتی کمیشن کی آئینی حیثیت کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس کمیشن نے گزشتہ سال دسمبر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان فلور ملز ایسو سی ایشن کو ساڑھے سات کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا لیکن اس جرمانے کو کمپیٹیشن ایپلیٹ ٹربیونل میں چیلنج کر دیا گیا المیہ یہ ہے کہ جس ٹربیونل کا کام ان اپیلوں کی سماعت کرنا ہے وہ ایک سال سے غیر فعال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹربیونل کے ایک ممبر کی ایک خالی آسامی کو پر نہیں کیا گیا اور یہ آسامی جنوری 2019سے خالی ہے۔
بہرکیف پاکستان میں چونکہ قانون کی حکمرانی کا عمل بتدریج کمزور ہوتا چلا گیا اس لیے یہ خلاء مافیاز نے نہایت مہارت اور چابک دستی سے پُر کیا۔ چینی مافیا، آٹا مافیا، تیل مافیا، بجلی اور گیس مافیا، لینڈ مافیا، ٹمبر مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، ٹینکر مافیا غرضیکہ اس ملک میں مافیاز کھمبیوں کی طرح اُگتے چلے جا رہے ہیں، لیکن اگر حکومت نے انھیں روکنے کے لیے سخت اقدامات نہ کیے تو یہ حکومت کو ہی کھا جائیں گے اور پھر نئے آنے والوں کے ساتھ مل کر وہی کام کریں گے جو اب ہو رہا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے مذکورہ بالا اکابرین راحت اندوری کے شعر پر بھی نظر رکھیں کہ کہیں یہ شعر اُن کے حامی بھی مستقبل میں نہ دہراتے پھریں!!