Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qamar Naqeeb Khan
  4. Kuch Ankahi Baatein

Kuch Ankahi Baatein

کچھ ان کہی باتیں

کچھ باتیں کہی نہیں جاتیں، اپنے کرتوت چھپائے جاتے ہیں۔ دوسروں کے ظلم زیادتی روتے دھوتے بیان کیے جاتے ہیں اور اپنی طرف سے ظلم کی انتہا نہیں بتائی جاتی۔ مثلاً خلافت عثمانیہ کا دور تھا، اپریل 1915 میں ترکی نے ایک نئی تنظیم بنائی، ینگ ترک نامی اس تنظیم نے پندرہ لاکھ آرمینیائی عیسائیوں کا قتل عام کیا۔ خلافت عثمانیہ نے اعلان کیا کہ ہم فوجی بھرتی کر رہے ہیں۔ لاکھوں آرمینیائی مردوں کو بھرتی کے بہانے لے کر گئے، انہیں شام اور میسوپوٹیمیا کے صحرا میں چھوڑ دیا۔ ترک فوجی ان کے پیچھے گاڑیوں میں چلتے تھے اور آرمینیائی عیسائیوں کو بھوکا پیاسا صحرا میں پیدل چلنے پر مجبور کرتے تھے۔ اسے ڈیتھ مارچ کہا جاتا ہے۔ دو تین دن شدید گرمی میں پیدل چلنے اور پانی نہ ملنے پر بندہ بےہوش کر گر جاتا۔ یوں ڈیتھ مارچ کا قافلہ آگے بڑھ جاتا اور جو گر گیا وہیں ریت میں دفن ہوگیا۔

مشہور مؤرخ ریمنڈ گیرون نے لکھا ہے کہ بارہ سے پندرہ لاکھ آرمینیائی عیسائیوں کو اس طرح قتل کیا گیا۔ آرمینیائی مردوں کے بعد ان کی خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان کے سینے کاٹ دیے گئے، بچوں کو اغوا کرکے زبردستی مسلمان بنایا گیا اور ترک خاندانوں کے حوالے کر دیا گیا۔ نوجوان نابالغ آرمینیائی بچیوں کو عثمانی خلیفوں کی لونڈی بنا دیا گیا۔ کئی لڑکیاں شاہی خاندان میں بانٹ دی گئیں اور ان کے گھروں اور جائیدادوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ Genocide کا لفظ اسی نسل کشی پر ایجاد کیا گیا۔

ترکوں نے آرمینیائی عیسائیوں کی نسل کشی کی لیکن چونکہ یہ بدترین کام خلافت عثمانیہ نے سرانجام دیا ہے اس لیے مسلمان زبان بند رکھنے، پردہ ڈالنے اور دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ننانوے فیصد پاکستانیوں کو تو آرمینیائی نسل کشی کے بارے میں معلوم بھی نہیں ہوگا۔

سعودی عرب نے یمن میں ایسا ہی قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے، جنگی صورتحال سعودی اور امریکی بمباری سے پچاسی ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے قحط پڑا مجموعی طور پر پانچ لاکھ افراد مر چکے ہیں۔ مرنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے۔ لیکن چونکہ مارنے والے سعودی ہیں، اسلام کے ٹھیکیدار ہیں اس لیے بقیہ مسلم دنیا خاموش ہے۔ لیکن اگر فلسطین میں دو چار ہزار مارے جائیں تو سارے مسلمانوں کے پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان نے تو یمن پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

چین نے دس لاکھ ایغور مسلمانوں کو کیمپوں میں بند رکھا، ان کیمپوں میں مذہبی تعلیم، عربی زبان اور ہر قسم کی اسلامی علامات پر پابندی عائد ہے، داڑھی رکھنے اور آذان دینے پر پابندی ہے۔ قیدیوں اور ان کے بچوں کو زبردستی کمیونسٹ نظریات سکھائے جاتے ہیں۔ آپ لوگ ایک بابری مسجد کو روتے ہیں، چین نے ہزاروں مساجد کو منہدم یا بند کر دیا۔ قرآن رکھنے، داڑھی رکھنے، یا روزہ رکھنے پر بھی پابندیاں عائد کیں۔ یہاں تک کہ پیدا ہوئے والے بچے کا اسلامی نام رکھنے پر بھی پابندی لگائی۔ چونکہ چین دوست ملک ہے اور ہمیں امداد دیتا ہے اس لیے ہم خاموش ہیں۔

لیکن اس سب سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، آپ لوگ فلسطین یکجہتی مارچ کریں، کانفرنس جلسے جلوس کریں۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، جہاد کا اعلان کرکے خوب چندے جمع کریں۔ مبارک ہو آپ کا کام پورا ہوگیا۔ آپ کی زمے داری ختم ہوگئی۔ عوام تو عوام علمائے کرام کا ویژن بھی اتنا ہی محدود ہے۔ تو پھر لگے رہو جیسے پچھلے پچھتر سال سے لگے ہوئے ہو۔ جیسے پہلے کوئی نتیجہ نہیں نکلا آگلے پچھتر سال بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اسرائیل دس گنا بڑھ گیا ہے اگلے پچھتر سال میں سو گنا بڑھ جائے گا اور آپ صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔ پچھتر سال بعد میں اور آپ نہیں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے آنے والی نسل سے کوئی میرے الفاظ پڑھے اور تصدیق کر سکے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz