Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Aye Zindagi Ko Chahne Wale Shajar Laga

Aye Zindagi Ko Chahne Wale Shajar Laga

اۓ زندگی کو چاہنے والے شجر لگا

سب لوگ کڑی دھوپ کے شعلوں میں جلیں گے
جب وقت کے صحرا میں شجر کوئی نہ ہوگا

محمد قاسم راز ایک چھوٹے سے شہر کوٹ ادو کا بہت بڑا شاعر ہے جو بیاض سونی پتی مرحوم جیسے عظیم شاعرکے دبستان ادب میں تربیت پا کر جوان ہوا ہے۔ بیاض سونی پتی مرحوم جیسے بڑے شاعر سے وابستہ ہونا بذات خود کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ میں قاسم راز کی شاعری میں شامل حمد و نعت، غزل ونظم سے تو پہلے ہی بہت متاثر تھا اور ان کے متاثر کن اصناف سخن پر قلم اٹھانے کی جسارت کے بارئے میں سوچ ہی رہا تھا کہ آج کل ماحولیاتی جنگ اور شجر کاری پر ان کی "ادب تھراپی"نے میری سوچوں کا رخ ان کے اس تناظر میں لکھے اشعار کی جانب مبذول کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کے شاعر کا حساس دل کبھی ماحول کی تلخیوں سے دور نہیں رہ سکتا۔

قاسم راز کا اپنی شاعری میں وقت کے تلخ ترین مسائل کو ایسے اجاگر کرنا اور اس کے حل کے طریقہ کار کی وضاحت ایسا وصف ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ اس سے قبل بےشمار شاعر درخت، شجر، پرندوں اور کائنات کے حسن کے بارئے میں بہت کچھ اپنے اشعار کی زینت بنا چکے ہیں اکثر بطور استعارہ بھی سامنےلاتے رہے ہیں لیکن موجودہ شجر کاری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں قاسم راز نے در سخن وا کرکے اپنی انفرادیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ شاید یہ پہلا شاعر ہے جس نے اس نازک موضوع پر بےباکانہ رویہ اپنایا ہے۔ کاش ایسا شاعر کسی چھوٹے سےقصبے کی بجائے کسی بڑے شہر میں جنم لیتا تو بے پناہ شہرت کی بلندیاں اس کا مقدر بن چکی ہوتیں۔

جو اشکوں کو بیج بنا کر پیار کے پودے بوتے ہیں
صدیاں انکی ہو جاتی ہیں وہ صدیوں کے ہوتے ہیں

کسی بھی اچھے شاعر کا سب سے بڑا وصف یہی ہوتا ہے کہ وہ وقت کی اور گزرنے والی ہر گھڑی کی نزاکت اور ضرورت کو نہ صرف سمجھے بلکہ اس بارئے میں اپنا ادبی اور دانشورانہ کردار ادا بھی کرئے۔ شاید انہیں اس بات کا ادراک اور احساس اس قدر زیادہ ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی سوچوں اور شاعری کا رخ ہی آج کی اس موجودہ ضرورت کی جانب موڑ دیا ہے۔ جس کے لیے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ہرا بھرا سرسبز پاکستان ان کی خواہش اور تمنا ہے۔ اس لیے دعائیہ انداز میں اس کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ "ادبی تھراپی" کا جدید تصور ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہوتی ہے اور جس کے بارئےمیں میں بارہا لکھ چکا ہوں۔ قاسم راز اپنے اشعار میں ایک جانب تو ماحولیاتی تبدیلیوں اور درختوں کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی مشکلات کی نشاندہی کر رہے ہیں تو دوسری جانب بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ترغیب دئے کر ان مشکلات سے نکلنے کا خوبصورت راستہ بھی دکھا رہے ہیں۔ جو دین و دنیا کی بھلائی کا راستہ بھی ہے۔

جس جگہ بھی ہو وہیں سرسبز ہو
سبز سوچوں کا امیں سرسبز ہو

زرد چہروں کی مٹائے زردیاں
جو مٹائے وہ حسیں سرسبز ہو

رحمتوں کی ہر طرف ہوں بارشیں
اور ہر بنجر زمیں سرسبز ہو

ہو مشجر ریگزار بے اماں
ذرہ ذرہ دلنشیں سرسبز ہو

رحمت اللعالمیں کے فیض سے
راز ایماں و یقیں سرسبز ہو

گرمی کی شدت اور پانی کی قلت بڑھتے ہی ماحولیاتی تکالیف کا احساس ہونے لگتا ہے۔ شجرکاری ہر دور میں تحفظ ماحولیات کے لیے کلیدی کردار کی حامل رہی ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی۔ آجکل پاکستان بھر میں جنوبی ایشیا کے ممالک کی طرح گرمی کی شدت میں اضافے کی باعث پورے ملک میں درجہ حرارت پچاس ڈگری تک پہنچتا جارہا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے گرمی روکنے کے لیے بزرگوں کی قائم شدہ فصیل خود ہی ڈھا دی ہے یعنی اپنے اردگرد گرمی سے پناہ دینے والےقدرت کے حسین تحفے درختوں کو کاٹنا شروع کردیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ تھا جب ہر گھر میں دو چار درخت ہوتے تھے اور وہ بھی عموماََ پھل دار ہوتے تھے۔ لیکن اب تو شہروں میں درخت تو دور کی بات ہے کوئی سرسبز پودا دکھائی نہیں دیتا۔ ہم نے تعمیرات کے بہانے درختوں، پودوں اور کھیتوں تک کا صفایا کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ پرندوں کے آشیانے تک محفوظ نہیں رہے۔ جس کا خمیازہ آج ہمیں گرمی اور بارش سے محرومی یا خشک سالی اور اموات کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پچھلی گرمیوں میں صرف پاکستان میں سینکڑوں افراد گرمی کی شدت سے جان گنوا بیٹھے تھے۔ قاسم راز اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ

جلنے لگی ہے دھوپ کی شدت سے زندگی
ائے زندگی کو چاہنے والے شجر لگا

انسانی زندگی اور انسان کو مطلوب جاندار اور بےجان وسائل حیات کی حفاظت اور بقاء اور نشوونما کے لیے ماحولیات کا تحفظ بے حد ضروری ہے جو فضا، زمین اور پانی میں آلودگی کا باعث بنتی ہیں اوران سب کی بنیاد درخت ہوتے ہیں جو سانس کے لیے اوکسیجن، جسم کو ٹھنڈک اور پینے کے صاف پانی کے لیے بارش کو دعوت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ درخت اور سرسبز پودے پھل اور پرندئے تو جنت کی نعمتوں میں سے ایک شمار ہوتے ہیں۔ مشہور صوفی گلوکار پٹھانہ خان کی سرزمین کوٹ ادو کے اس بزرگ شاعر قاسم راز نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ۔۔

پرندوں سے پرندےکہہ رہے ہیں
شجر گم ہیں عذاب بےگھری ہے

آج پوری دنیا کے ہر مکتبہ فکر کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ ہم نے درخت کاٹ کر اپنے پیر پر خود ہی کلہاڑی مار دی ہے اور خود کو صاف پانی اور صاف فضا سے محروم کر لیا ہے۔ شجر کاری کے لیے ہر سطح پر کوشش کی جارہی ہے۔ لوگوں کو یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ موجودہ ماحولیاتی جنگ صرف شجر کاری کے ہتھیار سے ہی جیتی جاسکتی ہے۔ "ادبی تھراپی"کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں تک شجرکاری اور درختوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ہمارے شعراء حضرات اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ درخت پرندئے، پھول اور پھل پہلے بھی شاعری کا حصہ رہے ہیں اور کائنات کے حسن کا بیان ان کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔ لیکن دنیا میں کسی بھی تحریک کی ذہن سازی میں شعراء کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے۔ ایسےمیں قاسم راز جیسے شاعر نے تو اپنی شاعری کا محور ہی شجرکاری اور درختوں کی حفاظت کو بنا لیا ہے جو قابل تقلید ہے۔

بیٹھے ہوئے ہو حشر کے سورج کی دھوپ میں
دنیا میں کیوں لگا کے نہ آئے کوئی درخت

درخت زندگی کی ضمانت ہوتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے انسان وجود میں آیا ہے درخت اس کی زندگی کی اہم ترین ضروریات میں شامل رہے ہیں۔ آج درخت کٹتے اور گھٹتے جارہے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ زندگی اسی طرح روان دواں رہے۔ زمیں کو سرسبز رکھنے کے لیے ہر ہے شخص کو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ درخت صدقہ جاریہ ہوتے ہیں جن کا کا اجر اس دنیا اور آخرت میں بھی ملتا رہتا ہے۔ اسی لیے قاسم راز فرماتے ہیں کہ

خوں پسینے سے شجر جو بھی اگایا جائے
دوجہاں کی سرحدوں تک اس کا سایہ جائے

شاخوں کے گل و برگ کے اثمار کے دشمن
جنت میں نہیں جائیں گے اشجار کے دشمن

اپنے اشعار میں حضور پاک ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کا شعری ترجمہ اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ قاری کا دل عش عش کر اٹھتا ہے اور بے تحاشا داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ اسلام درخت لگانے اور ان کی آبیاری کو صدقہ جاریہ قرار دیتا ہے۔

حشر بھی برپا ہوجائے تو ہو جائے
پیڑ لگانے والے پیڑ لگائے جا

قاسم راز کی حساسیت اور بچوں اور بڑوں سےان کی محبت کا اندازہ ان کے ان اشعار سے بخوبی ہو رہا ہے کہ وہ کس قدر درد دل رکھنے والے انسان اور شاعر ہیں۔ ان کے اشعار میں ان کا ادبی اور فنی کمال بھی اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔

پیڑ لگاو رب کی رحمت کا سایہ درکار ہے گر
چھوٹے بچے دھوپ میں جلتے جلتے مکتب جاتے ہیں

اس شہر کے جھلسے ہوئے چہروں نے بتایا
سورج ہے شرربار شجر کوئی نہیں ہے

لوگوں کی سوچ کو بدلنے اور درختوں کی اہمیت سے روشناس کرانے کے لیے قاسم راز نے لوگوں کو نہ صرف آنے والی مشکلات سے آگاہ کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ شجرکاری اور درختوں کی آبیاری کے لیے غیر متزلزل عزم اور یقین کا اظہار بھی کیا ہے۔ پوری قوم کو آج اسی عزم اور یقین کی ضرورت ہے۔ پرعزم شاعر قاسم راز کہتے ہیں۔

آگ سے جھلستے ان زرد زرد رستوں کو
یوں ہرا بنائیں گے ہم شجر لگائیں گے

آبلوں سے پاوُں کے کیوں ملول راہی ہو
راستے سجائیں گے ہم شجر لگائیں گے

زندگی جو گزری ہے بےثمر تھی اس کو اب
باثمر بنائیں گے ہم شجر لگائیں گے

آئیں قاسم رازکے ساتھ چلیں اپنے اپنے حصے کا فرض ادا کریں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کسی ہتھیار سے نہیں صرف سوچ کے بدلنے سے ہی ممکن ہے اور لوگوں کی سوچ ہمیشہ دانشور، شاعر اور ادیب ہی بدلتے ہیں۔ یہی وہ "ادبی تھراپی" کا جدید تصور ہے جو قاسم راز نے نہ صرف خود اپنایا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس راستے پر چلنے کی دعوت دی ہے۔ درخت لگانے سے بھی درخت بچانا بہت ضروری ہوتا ہے۔

Check Also

Burai Ko Khud Mein Aur Achai Ko Dusron Mein Talash Karo

By Syed Mehdi Bukhari