Hard State (2)
ہارڈ سٹیٹ (2)

قوموں کے مزاج صدیوں میں بنتے ہیں اور انہی مزاجوں کے پیش نظر ریاستیں وجود میں آتی ہے۔ ریاستیں کبھی بھی کسی فرد واحد کی ذاتی خواہش یا نظریے کے تابع ہوکر نہیں چلتی۔ ریاست کی نوعیت کیا ہوگی، یہ کیسے کام کرے گی اور اس کو چلانے کے رہنما اصول کیا ہونگے اس کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ ان فیصلوں سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اور ان کا مستقبل جڑا ہوتا ہے۔
اگر ریاستیں یہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہے کہ اُن کے رہنما اصول کیا ہونگے تو پھر اُس ملک میں برپا ہونے والے حادثات اور المیے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ریاست کو کیسا ہونا چاہئے یا اس کو اپنے لیے کونسا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امریکہ میں ہوا امریکی قوم نے 250 سال تک افریقی لوگوں کی غلامی کا لطف اٹھایا، ان کا استحصال کیا اور اُن سے جابرانہ مشقت کروائی لیکن جب امریکیوں کو اندازہ ہوا کہ یہ غلامی آگے چل کر امریکہ کے ماتھے کاکلنک اور امریکی قوم میں بے شمار برائیوں کی وجہ بن سکتی ہے تو اس غلامی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ ضرور ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور امریکہ نے اپنی تاریخ کی بدترین خانہ جنگی دیکھی مگر اس کے بعد امریکیوں نے ایک ہی بار میں یہ فیصلہ کرلیا کہ اب ان کی ریاست کیسی ہوگی اور وہ کیسے کام کرے گی۔ انہوں نے یہ پکا ارادہ کرلیا کہ یہ ملک شخصی آزادی، آزادی اظہار رائے اور قانون کے مطابق ہی چلے گا۔ غلامی اور لوگوں کا استحصال اس ملک می اب دوبارہ کبھی نہیں کیا جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 1865ءکے بعد سے لیکر آج تک دوبارہ کسی نے امریکہ میں ان ریاستی اصولوں کو بدلنے یا ریاست کو اپنی ذاتی نقطہ نظر اور خواہش کے مطابق چلانے کی ہمت نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ میں جتنی بھی بے راہ رای یا جنسی آزادی ہو مگر آپ کو امریکہ میں گھروں میں کام کرنے والے ملازم نہیں ملیں گے۔ وہاں ہر کسی کی عزت نفس ہے اور کوئی دوسرا کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔
بات صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں۔ یورپ نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں اور تباہ کاریاں دیکھی، کروڑوں لوگوں کی موت کا صدمہ برداشت کیا اور انفرسٹرکچر سے لیکر پورے کے پورے خاندانوں کو ملیاملٹ ہوتے دیکھا۔ اس سانحے نے یورپ کی نفسیات پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اس صدمے کے بعد یورپ کے بڑوں نے سر جوڑے اور غوروخوض شروع کیا کہ آئندہ یورپی ریاستوں کا مستقبل کیا ہوگا اور ان ریاستوں کو اب کیسے چلایا جائے گا۔
غور و خوض کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب کوئی بھی یورپی ریاست یا ملک بادشاہت کے زیر سایہ نہیں چلے گا اور ناہی دوبارہ پورے یورپ میں کسی ہٹلر یا میسولینی کو پیدا ہونے دیا جائے گا کہ جو اپنی ذاتی انا اور خواہش کی بھینٹ کروڑوں لوگوں کو چڑھادے بلکہ اس کے برعکس یورپی اقوام اپنے اختلافات بھلا کر یک جان ہو کر ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کریں گی۔ اُن کے بڑوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ اب یورپ میں کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی اور یورپی ریاستیں جمہوریت، لوگوں کی رائے اور منشا کے مطابق ہی اپنی حکومتیں قائم کرے گی اور ان کا مقصد پورے یورپ کو فتح کرنے کی بجائے صرف عوام کی فلاح و بہبود ہوگا۔
اس کے بعد پورے یورپ سے یا تو بادشاہتیں ختم کردی گئی یا انہیں اُن کے محلوں تک محدود کردیا گیا۔ انگلینڈ اور اسپین اس کی واضح مثالیں ہے۔ ان ممالک میں بادشاہ بھی موجود ہے اور شاہی خاندان بھی مگر ان کا کاروبار حکومت سے کوئی خاص لینا دینا نہیں۔ وہاں الیکشن ہوتے ہیں، پارلیمنٹ قائم ہوتی ہے، صدر اور وزیر اعظم منتخب کیے جاتے ہیں اور ملک کو جمہوری طریقے سے چلایا جاتا ہے جبکہ شاہی خاندان خاص موقعوں پر عوام میں ظاہر ہوتے ہیں، لوگ ان کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں، ان کی شادیوں اور محبت کی کہانیوں میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، میڈیا ان کی خبروں کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر چلاتا ہے مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔ یورپی بادشاہتوں نے بھی اپنی ریاستوں کو جمہوریت، قانون اور آئین کے مطابق چلانے کے عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کیا اور اپنی طاقت اور اختیار کو محدود کرلیا۔
اس فیصلے کے بعد یورپ نے یورپی یونین قائم کی، مشترکہ کرنسی بنائی اور بارڈرز ختم کردیئے۔ 80 سال پہلے جو ممالک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے آج وہاں امن اور شانتی کے ڈیرے ہیں اور بے مثال معاشی آسودگی بھی۔ اس کے بعد یورپ میں کوئی جنگ نہیں لڑی گئی اور ناہی کسی مسئلے کو طول پکڑنے دیا گیا۔ وجہ صرف ایک کہ انہوں نے ایک ہی بار میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ اب ریاست کو کیسے چلانا ہے اور اس کے بعد من و عن اس فیصلے پر عمل بھی کیا۔
ریاستیں آئے دن اپنی ساخت نہیں بدلتی یہ بات آپ بھارت کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ بھارت 1947ء میں ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا۔ بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس نے آزادی کے فوراً بعد ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ بھارتی ریاست جمہوری عمل سے چلے گی اور اس کا آئین سیکولر ہوگا۔ آزادی کے بعد ڈاکٹر بی۔ آر امبیڈ کر اور سریندر ناتھ مکھر جی نے بھارتی آئین پر کام کرنا اور آئین کو تحریر کرنا شروع کیا۔ 26 نومبر 1949ء کو انہوں نے بھارتی آئین کو مکمل کرکے اسمبلی میں پیش کیا اور 26 جنوری 1950ء کو یہ آئین پورے بھارت میں نافد العمل کر دیا گیا۔
آئین کے بعد جمہوری عمل کو شروع کرنے کا کام باقی رہ گیا تھا۔ 25 اکتوبر 1951ء کو بھارت میں پہلے انتخابات منعقد کروائے گئے اور فروری 1952ء میں پہلی جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ قائم کردی گئی۔ اس کے بعد سے لیکر آج تک بھارت میں نا تو کبھی جمہوری عمل ڈی ریل ہوا اور نا ہی کبھی مارشل لاء لگا۔ وجہ صرف ایک کہ آزادی کے فوراً بعد ہی یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ بھارتی ریاست کیسی ہوگی اور یہ کیسے کام کرے گی۔
بھارت میں آج ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ ان ڈیڑھ ارب لوگوں کی 3000 تسلیم شدہ اور 25000 ذیلی ذاتیں ہے۔ بھارت میں تقریباً بیس ہزار کے قریب زبانیں بولی جاتی ہے۔ ان سب کو اگر کوئی جوڑے ہوئے ہیں تو وہ ہے بھارتی آئین اور جمہوری عمل۔۔ بھارتی آئین ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ جمہوری عمل ان کو اپنی رائے کےاظہار کا موقع فراہم کرتا ہے۔
جاری ہے۔۔