Jamhoori Aamir
جمہوری آمر

پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والی دو سیاسی جماعتیں ہیں۔ بلکہ کہیں دو خاندان ہیں۔ جو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے "مالک" ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں خود کو جمہوری پارٹیاں مانتی ہیں۔ مگر ان میں آمریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ان سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے جو تیسری قوت ابھری، وہ صرف تباہی اور بربادی تھی اور اس بربادی کے نشان مٹ ہی نہیں رہے۔
جب سے شعوری ہوش سنبھالا، تب سے آمریت اور جمہوریت کا راگ سنتے آرہے ہیں۔ ہمیشہ یہی سنا جمہوریت بہترین نظام حکومت اور آمریت بدترین نظام ہے۔ لیکن آج تک مجھے جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ کیوں کہ جب جمہوری لیڈر کے سر پر تاج حکمرانی سجتا ہے، تو وہ بادشاہ بن جاتا ہے اور ایک بادشاہ یا ملکہ سے بڑھ کر کون آمر ہوتا ہے؟
پچھلی دو دہائیوں سے، ان آنکھوں نے پاکستان میں ایک ہی نظام دیکھا ہے اور وہ ہے بدلے کا نظام ایک حکومت جاتی ہے، تو نئے آنے والے پہلے اپنے سب کیسز ختم کرواتے ہیں۔ پھر تمام وقت بدلے لینے میں گزار دیتے ہیں۔ یہ قسط بار بار چلتی ہے۔
لیکن ڈرامے کے کرداروں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ عام عوام ڈرامے سے اکتا چکے ہیں۔ ظلم یہ کہ کرداروں کے انداز اور ڈائیلاگز بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ جیلوں میں بیٹھ کر بھی حکمرانی کے خواہشمند رہتے ہیں۔
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کیسز کرنے اور پھر ختم کروانے میں عوام کے ٹیکسز کا کتنا پیسہ برباد ہوتا ہے؟
یقیناً نہیں۔ عام عوام سیاست دانوں کی سیاست پر حیران ہے۔ اقتدار اور انا کی جنگ میں لڑتے لڑتے قبر کے دہانے پہنچ جاتے ہیں۔ مگر ہار نہیں مانتے۔ اپنی اولاد کو اس لڑائی کی تلوار پکڑا دیتے ہیں اور دہائیوں پرانے لڑائی کے انداز سکھاتے ہیں۔
حکمرانی، اقتدار، طاقت کا نشہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔
عوام کو اعداد و شمار کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ ہم کم مہنگائی کے اعداد و شمار دیکھتے ہوئے خوش ہوتے رہتے ہیں اور حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے۔
میڈیا اپنا مال بیچنے کے لیے ہر وقت کسی نا کسی تنازعے کا متلاشی رہتا ہے اور سیاست دان بخوشی و رضا یہ کام کرتے رہتے ہیں۔
کبھی نہروں کے تنازعے، کبھی ڈیل کی پریشانی، کبھی ملاقاتوں کی آرزو، تو کبھی فیملی ٹرپ کے چرچے اور کبھی میلوں کی جھلکیاں اور دوسری طرف سب سے قابل احترام اور اہم ادارے کا بے تحاشا شہادتیں دیکھنا، دہشتگردی کی لہر سے نمٹنا، معشیت کی فکر کرنا، عوام کے دلوں میں اٹھتے سوالات کے جواب دینا۔ بد ترین اور نفرت انگیز سوشل میڈیا ٹرولنگ برداشت کرنا اور عام عوام کے لیے منصوبے بنانا ثابت کرتا ہے کہ ملک کی فکر سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
یہ ہم کس بھیڑ چال کا شکار ہیں؟ کیا ہمارے اشرافیہ اور صاحب اقتدار یہ بھول چکے ہیں کہ مرتے بھی ہیں۔ پھر حساب کتاب بھی ہوتے ہیں اور سزا و جزا کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔
آخر اس ملک میں ٹھہراؤ کیوں نہیں آتا؟ ستر اسی سال کے لوگ نئی نسل کو جگہ دینے کے لیے تیار کیوں نہیں کرتے؟
عام عوام کی حیثیت سے ہر دم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ہمارے لیے موت کا حسین تحفہ رکھا۔ ورنہ صاحب اقتدار تو کبھی اپنی کرسی چھوڑتے ہی نا۔
خدارا اقتدار کی ہوس چھوڑ دیں۔ پاکستان ٹریک پر چڑھ گیا ہے۔ اسے چلنے دیں۔ انا کی جنگ کو ملک وقوم کی فکر کا نام نا دیں۔
جب تک جمہوری آمروں سے چھٹکارا نہیں ملے گا۔ ترقی کا عمل سست ہی رہے گا۔