ہمارے بزرگ‘ ہماری توجہ کے منتظر!
ابھی کچھ دن قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ "شادی کے بعد بیٹے نے بوڑھی ماں کو گھر سے نکال دیا"ایسی خبریں افسوسناک تو ہوتی ہی ہیں مگر طبیعت پر بھی خاصی ناگوار گزرتی ہیں۔ خبر کی تفصیل میں گیا تو دل مزید رنجیدہ ہوگیا کہ بیٹے نے ماں کے مکان پر قبضہ بھی کر رکھا ہے اور ماں گزشتہ ڈیڑھ سال سے عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک چکی ہے۔
اس حوالے سے کالم لکھنے کا خیال آیا تو سوچا کیا لکھوں؟ معاشرتی رویے کے حوالے سے لکھوں؟ والدین کے حقوق کے بارے میں لکھوں یا حکومتی ذمے داریوں کے بارے میں لکھوں؟ کیوں کہ سب ہی بڑھ چڑھ کر حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جو حقائق اس وقت میرے سامنے پڑے ہیں وہ بالکل اس کے برعکس ہیں۔ ان میں سے پہلے تو ذکر ایک نجی این جی او کی کرتا ہوں جس کے پاکستان میں اکا دکا اولڈ ایج ہوم بھی ہیں کے مطابق پاکستان بزرگ شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے 100 ممالک میں 67واں نمبر ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان بزرگ شہریوں کے رہنے کے لیے نامناسب ممالک میں سے ایک ہے۔
اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ اور ہیلپ ایج انٹرنیشنل فنڈ کی رپورٹ برائے 2018-19میرے سامنے موجود ہے۔ جس کے مطابق پاکستان 96 ممالک میں سے 91ویں درجہ پر ہے۔ اس سروے میں بزرگ افراد کی صحت، آمدن، روزگار، ماحول، تعلیم ملا کر کل 14 عوامل کو دیکھا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک میں سے صرف افغانستان سے بہتر ہے جب کہ ایران کو اس سروے میں شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش بزرگ افراد کو دی جانیوالی سہولیات کے حوالے سے کہیں اوپر 59ویں درجہ پر ہے۔ بزرگ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 15 بڑے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں ساٹھ سال سے اوپر کے افراد کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے۔
سب سے زیادہ بزرگوں کی تعداد جاپان میں ہے جہاں کل آبادی میں سے2کروڑ 65سال سے عمر کے افراد ہیں یعنی 16فیصد افراد۔ سوئیڈن میں 65سال سے زائد عمر کے شہریوں کا تناسب 18 فیصد اور برطانیہ میں 15 فیصد ہے۔ جاپان میں جب سے لوگوں کی اوسط عمر میں اضافہ ہورہا ہے، سینئر سٹیزن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں اوسط عمر کے لحاظ سے جاپان پہلے نمبر پر ہے جہاں خواتین کی اوسط عمر 83 سال اور مردوں کی اوسط عمر 77 سال ہے۔ لیکن ان ممالک میں اولڈ ایج فنڈ قائم کیا جاتا ہے، یہ بزرگ سرکاری خرچے پر جہاں رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں، اسپتالوں میں ان افراد کے وارڈز الگ ہیں، جہاں ہر وقت اسپیشلسٹ ڈاکٹرز موجود ہیں۔
جاپان میں تو 1963سے اولڈ ایج ویلفیئر (روجن فوکوشی ھو) بنایا گیا ہے جس کا مقصد ضعیف العمر افراد کی مالی مدد اور انھیں جسمانی و ذہنی سکون پہنچانا ہے۔ جہاں 65 سال سے زائد عمر رکھنے والوں کا سالانہ طبی معائنہ باقاعدگی سے ہوتا ہے۔ 70 سال سے زائد عمر رکھنے والوں کے تمام میڈیکل اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔ 65 سال سے زائد عمر کے افراد اگر "نرسنگ ہوم" میں داخل ہونا چاہیں تو انھیں نہایت معمولی فیسوں پر داخل کرلیا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں ان کا داخلہ اور رہائش کے اخراجات بھی حکومت اٹھاتی ہے۔
پاکستان میں ایسی سہولیات نہیں ہیں۔ اسپتالوں سے لے کر حکومتی ایوانوں تک ہر فرد اکتاہٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ آپ اسے جو بھی نام دیں لیکن میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہماری رینکنگ آخری نمبروں پر ہونے کی وجہ سے دنیا ہمیں بدلحاظ شہری کے طور پر جانتی ہے۔ ایسے شہری جو اپنے بڑوں کے ساتھ برا سلوک کرتے نظر آتے ہیں۔
آپ پورے ملک میں دیکھ لیں، ہم اپنے سینئر سٹیزن کو کوئی رعایت دیتے ہی نہیں، نہ انھیں بیرون ملک کسی ٹکٹ میں رعایت ہے، نہ انھیں اندرون ملک ہی ایسی سہولت میسر ہے۔ خاص طور پر اُن بوڑھے شہریوں کے لیے جن کی اولاد اُن کے ساتھ برا سلوک کرتی ہے۔ اُن کے لیے تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ عدالتوں میں کوئی الگ ڈیسک یا بنچ موجود نہیں ہے۔ آپ عدالتوں میں لاٹھیاں گھسیٹتے بہت سے بزرگ نظر آئیں گے، الغرض ہم نے اپنے بزرگ شہریوں کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ اُن کی زندگی کے آخری ایام اس قدر اذیت میں گزرتے ہیں کہ اُن کی زندگی بدتر ہوجاتی ہے۔
مہذب ملکوں میں سینئر سٹیزن کو ہر جگہ "فرسٹ رائٹس"دیے جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جہاں احساس پروگرام، غربت مٹاؤاور دیگر پروگراموں میں بھی بزرگ شہریوں کا حصہ رکھے، پورے ملک میں ٹرانسپورٹرز کو ہدایات جاری کرے کہ سینئر سٹیزن کے لیے فری ٹکٹس مہیا کیے جائیں، سرکاری و پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج معالجے کو ممکن بنایا جائے اور جس قد ر ہوسکے انھیں Facilitate کیا جائے تا کہ ہم دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوسکیں۔