گرفتاریاں اور عمران خان!
سوچ رہا ہوں جس ملک میں لوگ یہ دلیل دیتے ہوں کہ " کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں" سرکاری اہلکاروں کی کرپشن صرفِ نظر کرتے ہوئے محض ان کی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہو۔ وہاں کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔
جب سے حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے زیادہ نہیں تو کم و بیش 2درجن بڑے سیاستدان گرفتار و رہا ہوئے، 50کے قریب سیاستدان اب بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں جب کہ درجن بھر تاحال قید ہیں جن میں 2سابق وزراء اعظم بھی ہیں۔ جب کہ اخباری اطلاعات کے مطابق کرپشن کے نجی اسکینڈلز کی تعداد بھی 100کے قریب ہے جو نیب میں چل رہے ہیں جس میں کئی ایک گروپوں سے ریکوری کرکے عوام کو بھی ریلیف دیا جا چکا ہے۔ مگر سیاسی شخصیات سے ریکوری "صفر پوزیشن" پر کھڑی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اس حوالے سے بعد میں ذکر کرتے ہیں اس سے پہلے حالیہ گرفتاریوں اور الزامات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس جمہوری ملک میں ان گرفتاریوں کے حوالے سے حکومت کیسے قصور وار ہے؟
حال ہی میں مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کی " ایل این جی" کیس میں گرفتاری ہوئی، مفتاح اسماعیل بھی نیب تحویل میں ہوتے اگر وہ گرفتاری کے دن کہیں "روپوش، نہ ہو جاتے اور اگلے دن چند دن کی ضمانت نہ کرا لیتے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز بھی گرفتار ہیں جن پر منی لانڈرنگ سمیت 3کیسز ہیں، نواز شریف کے کیسز کے حوالے سے تو قارئین خوب جانتے ہیں، فریال تالپور بھی ان کے گھر کو سب جیل قرار دیے جانے کے بعد زیر تفتیش ہیں۔ خواجہ سعد رفیق و سلمان رفیق بھی قید ہیں۔ آصف علی زرداری بھی نیب کی تحویل میں ہیں، وہ ہر دفعہ پیشی پر آنے پر علی الاعلان یہی کہتے ہیں کہ ان گرفتاریوں کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے۔
حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیاسابق صدر کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کا مقدمہ تحریک انصاف کی حکومت میں قائم ہوا؟ جواب، نہیں یہ مقدمہ مسلم لیگ ن کے دور میں قائم ہوا اور دسمبر 2015ء سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات میں مصروفِ عمل ہے۔ ایک اور سوال کہ آصف علی زرداری کے خلاف نیب نے کیا ازخود جعلی بینک اکاؤنٹس کی انکوائری شروع کی اور ریفرنس دائر کیا؟جواب، نہیں، عدالت عظمیٰ نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ کے بعد نیب کو انکوائری، انوسٹی گیشن اور ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔ ان کے علاوہ آپ مذکورہ بالا سیاستدانوں پر مقدمات کی فہرست طلب کر لیں، تمام مقدمات وہی ہیں جو سابقہ حکومتوں نے ایک دوسرے پر بنائے۔ جب کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت دونوں ملکر موجودہ حکومت اور نیب کو موردالزام ٹھہرا رہی ہیں۔
خیر بقول حکومت گرفتاریاں تو ہوں گی۔ اسی لیے گرفتاریوں کا یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔ خواجہ آصف اور احسن اقبال بھی "قطار" میں کھڑے ہیں۔ وہ نیب کی "پیشیاں"بھگت رہے ہیں۔ انھیں نیب کسی وقت بھی "گرفتار" کر سکتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ جب یہ لوگ گرفتار ہونے پر کہتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے! کون سی جمہوریت؟۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ، اے این پی ہو یا جے یو آئی ف، سب خاندانی پارٹیاں ہیں، ان میں کہاں کی جمہوریت ہے۔ اس طرح کی خبریں مصر، شام، عراق اور ازبکستان جیسے ملکوں سے بھی آتی رہی ہیں اور آتی ہیں۔ حافظ الاسد، بشار الاسد، حسنی مبارک، صدام حسین، اسلام کریموف ہر بار "انتخابات" میں حصہ لیتے تھے اور "بلا مقابلہ" منتخب ہو جاتے تھے۔ کبھی کبھی انتخابات کو ذرا رنگین بنانے کے لیے کسی کو "مقابلے" میں کھڑا کر دیا جاتا تھا جو کم ووٹ لے کر "شکست" کھا جاتا تھا۔
کیا پاکستان میں اسی جمہوریت کا رونا رویا جاتا ہے؟ میرے خیال میں یہی پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری ہے جس دن سیاسی پارٹیوں کے حامی ذہنی طور پر اتنے پختہ ہو گئے کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہیں گے اور کرپٹ عناصر کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، اس دن پاکستان کی قسمت، پلٹا کھائے گی! آپ یقین مانیں کہ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ان گرفتاریوں پر عوامی رد عمل کیوں نہیں آرہا؟اسی لیے نہیں آرہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کرپشن تو ہوئی ہے۔
آپ اس قوم کی قسمت نہیں دیکھ رہے کہ ڈیلی میل لندن میں جو کچھ سابق خادم اعلیٰ کے بارے میں شایع ہوا ہے۔ وہ بذات خود ایک لٹمس ٹیسٹ ہے۔ جس سرکاری محکمے کی وضاحت کو شہباز شریف دلیل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ اگر دلیل ہوتی تو اخبار اعتزار شایع کرتا اور معذرت کرتا! مگر صحافی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ثبوت ہیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ شہبازشریف عدالت میں نہیں جائیں گے اس لیے کہ وہاں جسٹس ملک قیوم یا جج ارشد ملک نہیں ہوں گے۔ برطانوی عدالت ہو گی اور برطانوی جج۔
خیر آپ چند لوگوں کو کچھ عرصہ کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمہ وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے، لیکن یہ بات طے ہے کہ عمران خان کے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اسے مہاتیر محمد اور لی کوان یوکی طرح شاید تین دہائیاں نہ مل سکیں۔ اس قوم میں صبر شکر دونوں مادے کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ایئر پورٹ پر پروٹوکول ختم ہو گیا ہے، اداروں کی کچھ چیزیں بہتر ہونا شروع ہوگئی ہیں مگر عوام نتائج مانگ رہے ہیں اور ریکوریاں مانگ رہے ہیں، اگر یہ سب کچھ نہ ہوا تو اُن کے لیے گرفتاریاں بھی کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اورفرض کیجیے عمران خان ٹیکس نہ دینے والے تاجروں کو تین برس وعظ سناتا رہتا اور چوتھے سال یہ اقدامات اٹھاتا تو کیا یہ تاجر مان جاتے؟
نہیں! صورت احوال "اب یا کبھی نہیں" جیسی ہے۔ جو کچھ مخالفین نے اور کرپشن کے حامیوں نے کرنا ہے کر لیں جو کچھ عمران خان نے کرنا ہے وہ بھی ابھی کرے۔ بخت نے یاوری کی تو چیرہ دستوں اور سیاہ کاروں سے نجات ملے گی! ضرور ملے گی!
اور رہی بات نیب کی تو اس وقت جو سب سے زیادہ پریشان کر دینے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ ان گرفتاریوں کو مشکوک بنانے میں کہیں نہ کہیں نیب بھی قصور وار ہے کیوں کہ کسی سیاستدان کی گرفتاری کے بعد جب نتیجہ صفرنکلتا ہے تو ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ یہ گرفتاریاں سیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں، تفتیش لمبی ہو جاتی ہے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ان سیاستدانوں نے پیسہ کھایا ہے تو ان سے ریکور کریں، ورنہ سسپنس پیدا نہ کیا جائے۔