الیکشن کمیشن کو مضبوط بنائیں!
ضمنی الیکشن کے بعد سینیٹ الیکشن ہیں، ان انتخابات کی پیشگی تیاریوں کو دیکھ لیں، بہت سے معاملات ایسے ہیں جہاں الیکشن کمیشن کی کارروائی بنتی ہے لیکن ادھر تاسحال خاموشی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن 70سال گزرنے کے باوجود پوری طرح بااختیار نہیں بنایا جاسکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر الیکشن کے بعد ہارنے والے دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتے چلے آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے کمزور ڈھانچے اور مبہم اختیارات کی وجہ یہ ادارہ نہ سیاسی پارٹیوں کو ڈسپلن میں لا سکا ہے، نہ آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب ہو سکا ہے، اور نہ ہی انتخابات میں روپے پیسے کی ریل پیل کو روک سکا ہے۔ حتیٰ کہ پیرا شوٹر سیاستدانوں کی آمد کو بھی روکنے سے قاصر رہا ہے۔ اور الیکشن کمیشن قواعد وضوابط کی کھلی خلاف ورزی کا علم ہونے کے باوجود آنکھیں بند کرکے وقت گزاری سے کام کرتا رہاہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جو سیاستدان پانچ سال سے پارٹی کا ممبر ناہو، اُسے سینیٹ کا ٹکٹ نہیں ملنا چاہیے، یا جو شخص 3سال سے پارٹی کا ممبر نہ ہو اُسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں ملنا چاہیے، اور جو شخص کم از کم 2سال سے پارٹی کا ممبر نہ ہو اُسے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں ملنا چاہیے۔ لیکن یہاں جس دن پارٹی جوائن کرائی جاتی ہے، اُسی دن ٹکٹ بھی تھما دیا جاتا ہے، اور پرانے پارٹی ورکرز منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
لیکن اگر الیکشن کمیشن کو ایسے آئینی و قانونی اختیار مل جائیں، جن کے بل بوتے پر وہ پیراشوٹرز سیاستدانوں کو روکنے کے لیے عملی اقدام کر سکے تو یقینا نام نہاد الکٹیبلز اور پیراشوٹر زکا سیاست سے خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے الیکشن سے پہلے " جمپنگ" ختم ہوجائے گی، موسمی پرندوں کی روک تھام ہوجائے گی اور پارٹی ورکرز کا استحصال بھی نہیں ہوگا۔
ہر الیکشن میں غیر سیاسی افراد کوپارٹیوں کی جانب سے آگے لایا جاتا ہے جس سے مجموعی طور پر نااہل افراد قومی اسمبلیوں میں براجمان ہوجاتے ہیں اور قابل و سیاسی معاملات کو سمجھنے والے سیاستدان پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اب حالیہ سینیٹ کے انتخابات ہی کی مثال لے لیں۔
اس الیکشن میں ارب پتی افراد کو ٹکٹس دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا سے جن گیارہ امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں، ان میں زیادہ تر ارب پتی کاروبای افراد ہیں۔ حکومت میں شامل افراد کے قریبی رشتے دار ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ف نے اقرباء پروری برقرار رکھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی ارب پتی افراد کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی پارٹی کے پرانے کارکنوں کو ہی سینیٹ انتخابات کے لیے ٹکٹس جاری کیے ہیں۔ ان تمام معاملات میں خوش آیند بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز نے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنی قیادت کے سامنے جو احتجاج کیا ہے، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ میرے خیال میں اسی طرح تمام پارٹیوں کے ورکرز کو اسٹینڈ لینا چاہیے، تاکہ پارٹی ورکرز کی حق تلفی نہ ہو اور سیاسی جماعتوں کا اندرونی سسٹم بھی مضبوط ہو۔
خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کمیشن کی تو دنیا بھر میں الیکشن کمیشن کا کام پورے سسٹم پر نظر رکھناہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس رہا ہے، پرویز رشید اس لیے سینیٹ الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا گیا کہ وہ پنجاب ہاؤس کے نادہندہ ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دنیا میں الیکشن کمیشن بااختیار ہوتا ہے، لیکن ہمارے الیکشن کمیشن حکومت اور طاقتور لوگوں سے ڈر جاتا ہے، اُن کے خلاف ایکشن لینے سے معذور ہے، تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو7سال ہوگئے ہیں مگر الیکشن کمیشن تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہو۔
الغرض ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کو حکمران طبقے نے بااختیار بنایا ہی نہیں، کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کو بھارتی الیکشن کمیشن جیسے اختیارات دے دیے گئے تو مڈل کلاس کے سیاستدان بھی اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے، جیسے بھارت میں اروند کیجروال اور ان کے ساتھی ریاست دہلی میں برسراقتدار آگئے۔ ہمارے ہاں تو سیاسی اخلاقیات یوں ہیں کہ وزیر مشیر الزام لگنے کی صورت میں بھی کام کرتارہتا ہے، ورنہ مہذب ملکوں میں تو کسی پر الزام لگ جائے تو وہ اپنی سیٹ سے مستعفی ہوجاتا ہے، اور الزام کے ختم ہونے تک کوئی بھی پبلک عہدہ حاصل نہیں کرتا۔ جب کہ ہمارے ہاں تو کسی پر اخلاقی جرم کا کیس بھی چل رہا ہوتو اُسے نواز دیا جاتا ہے۔
بہرکیف اگر الیکشن کمیشن مضبوط نہیں ہوگا تو ہر سیٹ پر 60، 65کروڑ روپے لگنا عام بات ہو جائے گی، اور منتخب ہونے والا رکن سب سے پہلے اپنے پیسے پورے کرے گا تب وہ منافع کمائے گا۔ جن ملکوں میں ادارے مضبوط ہیں وہاں وزیر اعظم کو بھی گھر جانا پڑ سکتا ہے، حکومت اور سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے مسائل کو دیکھنا ہوگا، سب کو مل کر الیکشن کمیشن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ الیکشن میں ہر بار مانگے تانگے کا عملہ آتا ہے، کیمپین کے دوران ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے، الیکشن کے دن تصادم ہوتے ہیں اور نتائج کے وقت ایک علیحدہ جھگڑا منتظر ہوتا ہے۔
قصہ مختصر انتخابات جمہوریت کی اساس ہوتے ہیں اور جمہوریت ریاست کی بنیاد ہے۔ الیکشن کمیشن وہ آئینی ادراہ ہے جس کے ذمے الیکشن کا انتظام ہے، اور کچھ نہ سہی پچھلی کئی دہائیوں سے باقاعدہ عام الیکشن بھی ہورہے ہیں۔ لہٰذاالیکشن کمیشن کو بااختیار اور فعال بنانے کے لیے بولڈ اقدامات کرنا ہوں گے، اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک کی باگ ڈور قابل افراد کے ہاتھوں میں آئے اور کوئی بھی سسٹم کو Violate کرکے آگے نہ جائے ورنہ ہم مزید 50 سال پیچھے چلے جائیں گے!