آہ: ضیا شاہد !
کچھ لفظ بڑے حساس ہوتے ہیں، ذراقلم سے چھولو تو آنسو بن کر ٹپکنے لگتے ہیں، کبھی زخم بن کر رسنے لگتے ہیں۔ انھیں ادا کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، اور اگر یہ الفاظ آپ کے کسی قریبی دوست، بھائی یا باپ کے رخصت ہوجانے کی صورت میں ہوں تو یہ مزید تکلیف دہ بن جاتے ہیں۔ سینئر صحافی، رہنما اور ہاتھ پکڑ کر صحافت کی راہ پر چلانے والے عظیم اُستاد ضیاء شاہد ہم سے بچھڑ گئے! بقول شاعر
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا کہ وقت امتحان کا ہے
یہ زندگی بھی تو کتنی عجیب ہے، جیسے جیسے اردگرد سے لوگ سائے بنتے جاتے ہیں، یہ انھی کی آوازوں سے بھرتی چلی جاتی ہے۔ آج بجھے ہوئے دل اور افسردہ قلم سے لکھنا کس قدر محال لگ رہا ہے، یہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔ کیوں کہ میرا اُن کا تعلق گزشتہ 35سال سے رہا ہے۔ میں نے جتنا عرصہ اُن کے ساتھ کام کیا انھیں بہادر اور بے باک پایا۔ پاکستان کے حوالے سے انھیں کسی کمپرومائز کے لیے آمادہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگر خبر سچی ہوتی اور عوام کے مفاد میں ہوتی تو دنیا میں کوئی مائی کا لال اُسے رکوا نہیں سکتا تھا۔
وہ سخت دباؤ میں بھی بہتر کھیل پیش کرتے تھے، انھیں خبروں سے جڑنا اور خبریں دینے والوں سے میل جول رکھنا آتا تھا، وہ اخبار کے پورے صفحے پر صرف ایک طائرانہ نظر ڈال کر خبروں کی نوک پلک کو ٹھیک کروانے اور غلطیاں پکڑنے کے ماہر تھے، وہ ایک چھوٹی سے چھوٹی خبر پر بھی گھنٹوں سوچتے اور رپورٹرز بھیجتے کہ اس خبر کا فالواپ مجھے شام تک چاہیے!میں جن دنوں اپنے آبائی شہر کھڈیاں (ڈسٹرکٹ قصور) میں بیٹھ کرکالم لکھا کر تا تھا، اُنہی دنوں وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ادارے میں لے آئے اور مجھے رپورٹنگ کی طرف مائل کیا۔
چونکہ میری بیگم اور ضیاء صاحب کی بیگم اچھی دوست ہیں، اس لیے یہ رشتہ مزید مضبوط ہوگیا اورپھر راقم نے ایک عرصہ تک روزنامہ خبریں کے لیے رپورٹنگ کی۔ الغرض میں نے جتنا عرصہ اُن کے ساتھ کام کیا، اُن سے بہت کچھ سیکھا، میرے لیے یہ باعث شرف ہے کہ مجھ سمیت لاہور کے آدھے سے زیادہ رپورٹرز اور صحافی اُن کے شاگرد ہیں۔ وہ انوسٹی گیٹیو جرنلزم کے بہت بڑے حامی تھے، وہ ہمیں کہا کرتے تھے کہ کسی بھی جرم کو انوسٹی گیٹ کرنے سے نہ صرف معاشرے میں سدھار پیدا ہوتا ہے، بلکہ اداروں کا قبلہ بھی درست ہوتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ وہ پاکستان میں انوسٹی گیٹیو جرنلزم کے بانی تھے، انھوں نے ہمیں انوسٹی گیشن جرنلزم کی طرف ایسا مائل کیا کہ پھر ہم دن رات "اسٹوریز" اور فالو اپ کے پیچھے بھاگتے تھے۔ وہ پاکستان میں "فورم" جرنلزم کے بانی تھے، انھوں نے انسپکشن ٹیم شروع کی۔
اُن سے پہلے پاکستان میں صرف PR جرنلزم ہوا کرتی تھی، لیکن انھوں نے آکر بتایا کہ صحافت کیا ہوتی ہے۔ صرف ضیا شاہد کا اخبار ایک ایسا فورم تھا جہاں غریب کی شنوائی ہوتی تھی، وہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والے صحافی تھے، وہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (CPNE) کے صدر بھی رہے۔ اور پھر یہ بھی ہوا کہ صحافت میں اعلیٰ خدمات کے سبب انھیں صدر پاکستان پرویز مشرف کی طرف سے اعلیٰ سول اعزاز "ستارہ امتیاز" بھی دیا گیااور وزیراعظم نواز شریف نے بھی انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔
انھوں نے صحافت کا آغاز 70کی دہائی میں ملک کے بڑے اخبارات سے کیا، بھٹو دور میں شاہی قلعہ میں بھی مہمان رہے اور سات ماہ تک جیل میں آزادی صحافت کے جرم میں سزا کاٹی۔ پھر انھوں نے 1990 میں انھوں نے بطور ایڈیٹر ایک اردو اخبار نکلا جو انتہائی کامیاب اخبار رہا، انھی ہنگامہ خیزیوں میں وہ متحرک اور ذہین صحافیوں میں شمار ہونے لگے۔ وہ حکومت کے گھپلوں کو چن چن کر شایع کیاکرتے تھے۔
ایک وقت آیا جب ضیا شاہد نے "نوائے وقت" میں ملازمت کا فیصلہ کیا اور وہ مجید نظامی سے ملنے گئے۔ پہلی ہی ملاقات میں مجید نظامی نے ان کی خواہش کے مطابق میگزین ایڈیٹر کی ذمے داری انھیں سونپ دی۔ ضیا شاہد اس کے بعد "نوائے وقت" کے ڈپٹی ایڈیٹر بنے اورچندماہ بعد انھیں "نوائے وقت" کراچی کا ریزیڈنٹ ایڈیٹر بناکر بھیج دیا گیا۔
پانچ سال یہ وہاں رہے۔ پھر لاہور واپس آئے تو انھوں نے اپنا قومی اخبار نہ صرف نکالا بلکہ اُسے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، لیکن ایک تنازع کھڑا ہونے پرانھیں وہ قومی اخبار چھوڑنا پڑ گیا۔ جس کے فوری بعد وہ ایک نئے جدید نظریہ کے ساتھ آگے آئے، انھوں نے رپورٹرزاوراخباری تقسیم کاروں کو سرمایہ کاری اور"روزنامہ خبریں " کا مالک بننے کی دعوت دی، جو بہت سو ں نے قبول کر لی، یوں ضیا صاحب نے اردو اخبار روزنامہ "خبریں "1992 میں شروع کیا جو جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔
میں جب بھی فراغت کے لمحوں میں اُن کے پاس بیٹھتا تو وہ اپنی صحافتی زندگی کے بارے میں بہت سے یاد گار انٹرویوز کا ذکر کیا کرتے تھے، انھوں نے ایک بار ایوب خان سے ملاقات کا ذکر کیا جس میں ایوب خان نے کہا کہ "زلفی (ذوالفقار علی بھٹو) مجھے ڈیڈی کہتا تھا اور وہ تاشقند کے راز کیا بتائے گا! وہ مداری ہے جو تاشقند کی ڈگڈگی بجاتا ہے۔
اس تھیلے سے کوئی بلی برآمد نہیں ہوگی، یہ یاد رکھنا۔"پھر انھوں نے ایک بار شیخ مجیب الرحمن کے متنازعہ انٹرویو کے بارے میں بتایا کہ 1970کے انتخابات سے پہلے انھوں نے شیخ صاحب کا ایک خصوصی انٹرویو لاہور میں مشہور وکیل برکت علی سلیمی کے بھائی شاکر سلیمی کے گھر پر لیا تھا۔ اس انٹرویو میں شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ "الیکشن میں اب صرف ووٹ ڈالنے باقی ہیں۔ آپ نے خبریں پڑھ لی ہوں گی۔ عوامی لیگ اس قدر مقبول ہے کہ اس کے خلاف بات کرنے والے کو عام لوگ اپنا جملہ پورا نہیں کرنے دیتے"۔ میں نے کہا "لیکن کسی مخالف پارٹی کو جلسہ نہ کرنے دینا تو جمہوریت کے خلاف بات ہے، کیا یہ طرزِعمل نامناسب نہیں؟ انھوں نے کہا "وہ وقت دور نہیں جب عوامی لیگ کے مخالفین کے لیے گھر سے نکلنا مشکل ہوجائے گا۔"
ضیاء شاہد جنھیں میں پل پل یاد کرتا رہوں گا، وہ میرے کتاب "تلخیاں " کی تقریب رونمائی میں جب آئے تو ہال میں بیٹھے سبھی حاضرین کو ضیاء شاہد کی گفتگو کا انتظار تھا۔ انھوں نے ہمیشہ کی طرح کسی لگی لپٹی کے بغیر بہت روانی اور آسانی سے خوبصورت باتیں کیں۔ انھوں نے میرے صحافتی کرئیر کی بڑے مفکرانا انداز میں "دھجیاں " بکھیر دیں، جس سے حاضرین خاصے محظوظ ہوئے۔ ان کی گفتگو میں صحافت کی تاریخ بول رہی تھی اس میں کچھ کچھ ان کی اپنی صحافتی کہانی تھی۔ پاکستانیت کی خوشبو چاروں طرف پھیلتی جا رہی تھی۔ انھوں نے صحافت کے ایک Commited ورکر کی طرح زندگی گزاری، اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے اور اُن کے درجات بلند فرمائے (آمین)