23مارچ کا دن اور ہماری ذمے داریاں!
23مارچ کا دن گزرا، کورونا وائرس کے باعث یہ دن سادگی سے منایا گیا، اس دن یعنی 23 مارچ1940ء کو مسلمانان برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک تاریخی اور یادگار قرار داد منظور کی تھی۔
تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد جاری تھی اور اب اس کا ثمر حاصل کرنے کے لیے ایک حتمی مرحلہ آ چکا تھا۔ منٹو پارک لاہور کی گرائونڈ کھچا کھچ بھر گئی تھی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مسلمانان ہند کے رہنما قائداعظم محمد علی جناح سینئر مسلم لیگی رہنمائوں کے جلو میں جلسہ گاہ پہنچ گئے۔ ان کے ابتدائی الفاظ کچھ اس طرح تھے۔
My Dear Brother and Sisters، this is the month of march، and now we have to start the march towards victory.
قائد اعظم اعظم کی گرجدار اور رعب دار آواز سنتے ہی لاکھوں کا مجمع تالیوں سے گونج اُٹھا۔ اس دن قیام پاکستان کی قرار داد منظور ہوگئی اور 7سال بعد "پاکستان" کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آ گیا، پاکستان کو حاصل کرنے کے چیدہ چیدہ مقاصد میں سب سے اول مقصد ہر ایک کویہاں مذہبی آزادی ہوگی (پاکستان اس مقصد میں مکمل طور پر فیل ہوا)۔ دیگر مقاصد میں ایک نڈر ریاست، جھوٹ و جبر سے پاک ریاست، تعصب سے پاک ریاست، لسانیت سے پاک قومی بھائی چارے کی ریاست اور ایک آزاد ریاست کا قیام تھا جہاں ہر چیز معیاری ہوگی اور ایک سسٹم کے تحت ملک آگے بڑھے گا۔ آج پاکستان کو قائم ہوئے 73 برس ہو رہے ہیں لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل تشنہ رہ گئی ہے۔
ابھی حالیہ کورونا ایمرجنسی کے دور میں منافع خوروں نے ایک بار پھر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ موت کے سوداگروں نے تجہیز و تکفین بھی مہنگی کر دی ہے۔ ماسک اور سینی ٹائزر انتہائی مہنگے کر دیے گئے ہیں یا مارکیٹ سے ہی غائب کر دیے گئے ہیں، اسی دوران کریانہ فروشوں نے دالوں، گھی، چینی کی قیمتوں میں 20روپے فی کلوگرام کا اضافہ کر دیا، حد یہ بھی ہے کہ کفن اوسطاً 1000روپے تک مہنگا ہوگیا ہے اور پھولوں کی قیمت200 سے بڑھا کر 500سے ایک ہزار روپے تک کر دی گئی ہے۔
اس سے پہلے اگر2005 کے زلزلے کا ذکر کریں تو اس سلسلہ میں آنے والی امداد کی خرد برد اور زلزلے کے دوران ہونے والے لوٹ مار کے لرزہ خیز واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ ایسے موقع پر جو پتھر دل لوگ قدرتی آفت کا شکار بے بس اور مجبور لوگوں کی صورتحال سے اپنے وقتی فائدے کے لیے جو نقش چھوڑتے ہیں وہ اس ظلم کا شکار ہونے والے لوگوں کے لیے تو زندگی بھر کا المیہ ہوتا ہی ہے لیکن ایک قوم کے طور پر اس کے تصور کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس زلزلے میں سیاسی بیان بازی تو اس قسم کی نہیں تھی جیسا کہ ان دنوں سیاسی قائدین کے درمیان سننے میں آئی لیکن سرکاری حکام سے لے کر ٹینٹ اور دوسری ضروری اشیاء بنانے والے کاروباری حضرات نے خوب منافع خوری کی۔
اس کے ساتھ ساتھ نجی سطح پرکروڑ ہا روپوں کی فنڈ ریزنگ ہوئی لیکن اس میں سے زیادہ تر فراڈ نکلے۔ حکومت نے بھی چپ سادھے رکھی۔ اس رویّے کی وجہ سے کوئی بھی قوم اپنا اعتبار کھو دیتی ہے۔ لہٰذااگر آج بھی ایسا ہو رہا ہے تو ہمیں قرارداد23مارچ کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے کیوں کہ آج یہ صورتحال نہایت افسوسناک ہے جس کی پوری مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کورونا کی وبا ہمارے سروں پر موت بن کر منڈلا رہی ہے۔ لیکن ان سے نمٹنے کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے، پہلے سے سوچ لینا بہتر ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے اندر کیسے ڈی این اے اور کیسے جینز ہیں کہ جب تک آسمان نہ آن گرے ہم کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
جو کچھ اٹلی اور ایران میں ہورہا ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ وہاں بھی یہی رویہ رکھا گیا، جو ہم اب پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ جس لیول کا چیلنج سامنے آرہا ہے اس لیول کی تیاری اور رسپانس کہیں نظر نہیں آتا۔ ہماری عوام اور اٹالین لوگوں کی عادتیں بہت ملتی ہیں، لہٰذا یہ فکر ہے کہ ہمارے ہاں بھی وہی نتائج نہ نکلیں جو وہاں نکلے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہماری طرح خاصے "ملنسار" ہیں، ہماری طرح خوش اخلاقی سے مصافحہ و معانقہ کے عادی اور گھومنے پھرنے کے شوقین۔ اسی شوق اور عادت کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
مرنے والوں کو کفن میّسر ہے نہ عزیز و اقارب حتیٰ کہ باپ، بھائی، بیٹے کا کندھا، ایمبولینسیں کم پڑ گئیں ہیں اور بلدیہ کے ٹرک لاشیں اٹھا کر اجتماعی قبروں میں پھینک رہے ہیں۔ لواحقین کو صرف یہ اطلاع ملتی ہے کہ آپ کا عزیز فلاں قبرستان میں دفن ہے، مسلمان مرحومین کے صرف چھ اہلخانہ کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت ہے اور وہ بھی کئی فٹ دور کھڑے ہو کر دعائے مغفرت کر سکتے ہیں، لاش کے قریب آنے اور اپنے پیارے کا منہ دیکھنے کی اجازت نہیں۔
ہم بھی ابھی تک ہنسی مذاق کے موڈ سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہمیں فی الوقت یہ ہی نہیں علم کہ کورونا وائر س کے اس دور میں ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہماری کوئی قومی ذمے داری نہیں ہے؟ ہم ہر قسم کی زیادتی سے باز نہیں آتے، اگر حکومت نے کہا ہے کہ فضول گھر سے مت نکلیں، ہم ایسی باتیں ہوا میں اُڑا دیتے ہیں، اگر کورونا مریضوں کو حکومت نے قرنطینہ میں رکھا ہے تو وہاں سے باڑ توڑ کر مریض آباد ی میں آرہے ہیں۔ ریسٹورنٹ جب تک پولیس زبردستی بند نہ کروائے ہم نہیں کرتے، جعلی لیبارٹریاں میدان میں آگئی ہیں، ہم جب بھی کسی آفت کا شکار ہوتے ہیں، ایک بے رحم طبقہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر بیانات اور دعووں پر رہے تو بہت دیر ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت کی نیت پر کوئی شک ہے یا کوئی کاوش نہیں ہو رہی۔ یقیناً وفاقی حکومت، اور تمام صوبائی حکومتیں بہت کوشش کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں سندھ حکومت سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
لہٰذا23مارچ کی طرز پر ہمیں ایک کورونا قرارداد بھی منظور کرنے کی ضرورت ہے، کہ ہم بھی وعدہ کریں کہ ہم کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔ اپنے ہاتھ صاف کریں گے۔ حفاظتی تدابیر ختیار کریں گے۔ اور دوسروں کو بھی تلقین کریں گے ورنہ ہمارے پاس رونے کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔