زندگی صرف آج کے دن میں ہے
ڈیل کارنیگی وہ پہلے دانشور تھے جنھوں نے انسانی کامیابیوں اور المیوں پر تحقیق کے لیے نیو یارک میں 1935 میں تعلیم بالغان کی ایک ایسی درسگاہ قائم کی جہاں ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگ آکر اپنی بلندیوں اور پستیوں کی روئیداد سناتے تھے تین سال کے دوران لاتعداد خواتین و حضرات نے اپنی زندگی کے ان گنت تلخ و شیریں حالات و واقعات کلاس میں سنائے۔
ڈیل کارنیگی نے ان سب کی روئیداد بغور سنیں اور تمام المناک داستانوں میں ایک مشترک عنصر یہ پایا کہ بالغ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ تفکرات، جذباتی کشمکش اور ذہنی پریشانیاں ہیں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان باتوں کی وجہ سے منتشر، پریشان اور بے سکون رہتی ہیں جو ابھی وقوع بھی نہیں ہوئی ہیں لیکن انھیں خوفزدہ کیے ہوئے ہیں اور ان کی تمام صلاحیتوں، قابلیتوں، عزائم اور مقاصد کو تباہ و برباد کررہی ہیں چونکہ اس ابتر کیفیت اور پریشانی کا منبع لوگوں کی اپنی نجی و ذاتی سو چ تھی لہذا کوئی بھی خارجی معالج اس داخلی بیماری کا خاطر خواہ علاج کرنے سے قاصر تھا ڈیل کارنیگی کو یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ دوکانوں اور لائبریریوں میں حشرات الارض، کیڑے مکوڑوں اور آبی مخلوقات پر تو لاتعداد کتابیں موجود ہیں لیکن انسانی تفکرات اور پریشانیوں کی بابت ایک بھی کتاب نہیں ہے جو انسان کو اندر ہی اند ر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور تو اور تعلیمی اداروں میں بھی کسی ایسی تعلیم اور رہنمائی کا انتظام نہیں تھا کہ انسان پریشان خیالی سے کیسے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔
اس لیے انسانوں کی خیر خواہی کا احساس کرتے ہوئے ڈیل کارنیگی نے خود ہی ایک ایسی کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا جو عام و خاص کو ان پریشان کن خیالات سے نجات دلاتے ہوئے ان میں زندہ رہنے کی امنگ اور زندگی کی لطافتوں سے فیض یاب ہونے کا جذبہ ابھار سکے ڈیل کارنیگی نے مستند محققین کی خدمات حاصل کیں اور خود بھی مسلسل سا ت سال تک ہر اس قدیم و جدید کتا ب کا مطالعہ کیا جس میں فلسفیوں نے فکرو پریشانی کا ذکر کیا تھا۔
ماضی و حال کی تمام نامور شخصیات کی لا تعداد آپ بیتیاں پڑھیں ممتاز شخصیتوں سے میٹنگز منعقد کیں۔ اسپتالوں میں جا جاکر معالجوں اور مریضوں سے بالمشافہ ملاقاتیں کیں معروف لوگوں کے انٹرویو ز کیے، ریڈیو ٹاک شو منعقد کیے اور اپنی پبلک اسپیکنگ کلاسز میں بالغوں کو تفکرات و پریشانیوں کو دور کرنے کے طریقے اور اصول بتائے اور پھر جو معاملات اور نتائج و ہ بتلاتے انھیں کلاس میں پرکھا جاتا اور یوں ان تمام طویل اور عمیق تجربات اور مشاہدات سے و ہ شہر ہ آفاق کتاب برآمد ہوئی جو آ ج بھی Stop Worrying: Start Living کے عنوان سے معروف ہے۔
کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ خوشی حاصل کرنے کے لیے آپ خود کو ما ضی کی تلخ یادوں سے اور مستقبل کے تفکرات سے آزاد کردیں اور آ ج یعنی حال میں رہنا شروع کردیں یعنی زندگی صرف آج کا دن ہے بیتے ہوئے ایام نہیں اور نہ ہی آنے والے ایام۔ ماضی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاچکا ہے اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ آپ نے رہنا ہے تو اسی لمحہ حاضر میں زندہ رہنا ہے اگر آپ ماضی میں ہی بھٹکتے رہے یا مستقبل کے انجانے اندیشوں سے خوفزدہ رہے تو نہ صرف آپ کا آج بلکہ آنے والا کل بھی تکلیف دہ ہوگا کیونکہ آپ کی ناامیدی، مایوسی اور شکوک و شبہات آپ کو ہر لمحے متذبذب اور پریشان رکھتے ہوئے کبھی بھی آپ کو کامیاب اور پرمسرت نہیں ہونے دیں گے۔
ڈاکٹر ولیم آسکر برطانیہ کے مشہور ترین نیورو سرجن گزرے ہیں اپنی زندگی میں انھوں نے لاتعداد مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا اور اپنے تجربے اور مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسپتالوں میں نصف سے زیادہ بستر اعصابی اور جذباتی بیماریوں کے مریضوں سے بھرے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے مریضوں کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ ماضی مرحوم کے آہنی دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دو اور مستقبل نوزائیدہ کے آہنی دروازے گرادو۔ اس کے بعد تم بالکل صحیح، تندرست اور سلامت رہو گے۔ صرف اور صرف آج میں زندہ رہو ماضی کو بھلا دو گڑے مردے مت اکھاڑو گذشتہ کل کو ہمیشہ کے لیے فراموش کر دو اگر گذشتہ کل کا بو جھ آنے والے کل کے ساتھ مل کر اٹھا جائے تو طاقتور ترین شخص کے قدم بھی لڑکھڑا جائیں گے۔
مستقبل کو بھی اتنی ہی مضبوطی سے بھلادو جس قدر ماضی کو بھلایا تھا، مستقبل صرف آج ہے زندگی صرف آج کے دن میں ہے جو شخص ماضی اور مستقبل کے اندیشوں میں گھرا رہتا ہے، ذہنی و جذباتی بیماریاں اور اعصابی پریشانیاں اس کا آج بھی سلب کرلیتی ہیں اور وہ ایک زندہ لاش بن کر آج کی زندگی گزارتا ہے۔
ہم سب اس وقت دو ابدیتوں کے مقام اتصال پر کھڑے ہیں ہمارے ایک طرف لامحدود ماضی ہے جو ازل سے جاری ہے اور دوسر ی طرف مستقبل ہے جو ابد تک جاری رہے گا ہم امکانی طور پر ان دو ابدیتوں میں سے کسی ایک میں بھی نہیں جاسکتے ہیں نہیں صرف ایک لمحے کے لیے بھی نہیں جاسکتے۔ اگر ہم ایسا کر نے کی کوشش کریں گے تو ہم اپنے جسم اور دماغ دونوں کو تباہی کے غار میں دھکیل دیں گے پھر کیوں نہ ہم اسی وقت میں زندہ رہنے پر قناعت کریں جتنا کہ عرصہ ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔