خوفناک جھوٹے خوف ہیں
آپ کے اپنے سوا، دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی اور آپ کو شکست، آپ کے خوف دیتے ہیں جنھیں آپ پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ برطانوی شاعر اور دانشور رڈیارڈ کلپنگ کہتا ہے "دنیا کے تمام جھوٹوں میں سے خوفناک جھوٹ آپ کے خوف ہیں " سوال یہ ہے کہ خوف پیدا کیوں ہوتے ہیں اصل میں ذہن انسانی جسم کے تمام افعال کو کنٹرول کرتا ہے اگر آپ کے جسم میں سے ذہن نکال دیں تو آپ کا جسم محض ایک جامد و بے حس چیز ہے، اتنا ہی بے جان جتنی ایک میز۔
آپ کا جسم کمہار کے ہاتھ میں مٹی کی طرح ہے آپ کا ذہن اس سے جو کچھ چاہے بنا سکتا ہے مٹی کمہار سے کچھ نہیں کہتی کہ اسے کس شکل میں ڈھالا جائے بالکل اسی طرح آپ کا سر آپ کا دل آپ کا معدہ اور آپ کے پھیپھڑے کچھ نہیں جانتے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے، وہ دماغ کے فیصلے کے مطابق اپنا کام کرتے ہیں۔ آپ کے جسم کے تمام اعضا کسی قسم کی کوئی ذہانت نہیں رکھتے ہیں یہ صرف دماغ کے حکم پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں یعنی انسانی جسم دماغ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے یعنی جیسی سوچ ہوگی ویسا ہی انسان ہوگا اور ویسا ہی اس کا عمل ہوگا انسان کی زندگی کے تمام چیزوں کا فیصلہ اس کے ذہن میں ہوتا ہے۔
فتح یا شکست بدحالی یا خوشحالی طاقتور یا کمزور صحت مند یا بیمار خوشی یا اداسی بہادر یا ڈرپوک یہ سب فیصلے پہلے آپ کے ذہن میں ہوتے ہیں جیساکہ شیکسپیئر نے کہا تھا "کسی اچھائی یا برائی کا کوئی وجود نہیں ہے صرف سوچ ہی کسی چیز کو اچھا برا بناتی ہے" اسی لیے سقراط بھی کہتا تھا کہ سوچو صرف سوچو۔
اگر آپ مسائل سے دوچار ہیں تو آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ ان تمام مسائل کے آپ خود اکلوتے ذمے دار ہیں کیونکہ یہ تمام مسائل آپ کے خوف کی پیداوار ہیں۔ یاد رہے مسائل کا ویسے کوئی وجود نہیں یہ خوف ہی ہیں جو مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والے تمام گناہ، تباہیاں، بربادیاں، مسائل، بیماریاں اور احساس محرومی اسی خوف سے پیدا ہوتے ہیں، خوف ایک شیطان کی طرح ہے، یہ اس شیر کی مانند ہے جو جنگل میں اپنے شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے ہماری زندگی کا ہر تجربہ ہر حالت ہمارے ذہنی رویوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم صرف وہی کام کرسکتے ہیں جو کچھ کرنے کا سوچتے ہیں ہم صرف وہ کچھ بن سکتے ہیں جو بننے کا سوچتے ہیں اور صرف وہی چیزیں ہمیں حاصل ہوتی ہیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کچھ ہم کرتے ہیں جو کچھ ہم ہیں یا جو کچھ ہمارے پاس ہے ان سب کا انحصار ہماری سوچ پر ہے ہم اس چیز کو کبھی بیان نہیں کرسکتے جو ہمارے ذہن میں نہ ہو الٰہ دین کبھی بھی جن سے کچھ بھی حاصل نہ کرسکتا اگر اس کے ذہن میں یہ بات واضح نہ ہوتی کہ وہ جن سے کون سی چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا ذہن بھی ایک جن ہے اور ہماری سوچیں الٰہ دین ہیں۔
ایک بہت بڑے مفکر کا کہنا ہے ہم جدید لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ ہمیں اپنی سوچوں پر کس طرح قابو پانا ہے یعنی ہم اپنے ذہن میں آنے والی کسی بھی سوچ کو کس طرح اپنے قابو میں لاسکتے ہیں کیونکہ سوچ بڑی آسانی سے انسان کو اپنا شکار بنا لیتی ہے اور یہ ہمیں اس قدر اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں کہ ہمارے لیے ان سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے عملی نفسیات کا ایک اہم ہدایت نامہ یہ ہے کہ ناقص سوچوں پر قابو پانے کی طاقت آپ میں موجود ہونی چاہیے اور یہ طاقت عملی طور پر کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے یہ ہنر پریکٹس کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ زندگی اسی وقت شروع ہوتی ہے جب آپ کو اس بات کا فن حاصل ہوجاتا ہے کہ آپ ناقص اور منفی سوچ کو موقع پر ہی ختم کردیتے ہیں جب ہم اس بات کو سمجھ لیتے ہیں تو پھر ہمیں کسی قسم کا کوئی خوف یا ڈر نہیں رہتا، ایک بہت پرانی کہاوت تو آپ نے سنی ہوگی۔
ایک مرتبہ زمین کی بہت سی مخلوقات ایک بہت تاریک جگہ کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں کہ اچانک سورج نے ان کی بات سن لی وہ کہہ رہے تھے کہ وہ اس قدر تاریک جگہ ہے کہ وہاں سے خوف آتا ہے سورج اس جگہ کو ڈھونڈنے گیا وہ بالکل اس جگہ پر گیا جس کا ذکر وہ تمام مخلوقات کر رہی تھیں اس نے ہر جگہ تلاش کیا لیکن اسے وہاں ایک کالا دھبہ بھی نظر نہ آیا وہ واپس آیا اور ان تمام مخلوقات سے کہنے لگا کہ اسے تو کوئی تاریک جگہ نظر نہیں آئی۔ جب سمجھ بوجھ کا سورج ہماری زندگی کی تاریکیوں پر چمکتا ہے تو پھر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی اندھیری جگہ یا اچھائی کے علاوہ کوئی دوسری طاقت موجود نہیں ہے۔ جب ہی تو کہتے ہیں کہ جنت ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ہر قسم کی اچھائی کرنے اور برائی سے روکنے کی طاقت ہمارے اپنے بس میں ہے۔
وہ کون سا سوال ہے جو ہر روز صبح اٹھتے ہی آپ کے ذہن میں آیا ہے "میں اپنے حالات کو کیسے بہتر بنا سکتا ہوں " زندگی میں یہی وہ سوال ہے جو ہر روز آپ کے ذہن میں آتا ہے اور آپ کو بار بار ستاتا ہے۔ آئیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے برٹن بریلے کی نظم "موقع" پڑھتے ہیں "ابھی بہترین شعر نہیں لکھا گیا ابھی بہترین گھر کا نقشہ نہیں بنایا گیا ابھی سب سے اونچی چوٹی سر نہیں ہوئی طاقتور ترین دریا عبور نہیں کیے گئے آپ کو پریشان یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ دل چھوٹا کریں مواقع تو ابھی ملنے شروع ہوئے ہیں کیونکہ بہترین کاروبار ابھی شروع نہیں ہوئے بہترین کام ابھی انجام نہیں دیے گئے۔"
Ausonius کا کہنا ہے کہ "کام کا آغاز کریں کیونکہ آغاز کرنے سے مراد ہے کہ آپ نے اپنا آدھا کام مکمل کرلیا ہے اور باقی آدھا کام رہتا ہے دوبارہ شروع کریں تو کام ختم ہوجائے گا۔" آئیں ہم بھی ابھی سے کام کا آغاز کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے تمام خوف کو اپنے ہاتھوں سولی پر چڑھا دیں تاکہ کبھی دوبارہ زندہ نہ ہوسکیں، پھر اپنے ذہن میں خوشحالی اور کامیابی کے بیج بو دیں پھر ان بیجوں کی اپنی خواہشات کی تجدید کے ساتھ آبیاری شروع کردیں پھر خود پر یقین رکھیں، یاد رکھیں آپ نے اپنا مستقبل خود بنانا ہے۔