تعلیم کا مستقبل، حکمرانوں کے ہاتھوں میں
ابھی اس بات پر حیرانی ومایوسی اور تشویش کا اظہارکیا جا رہا تھا کہ کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق 80 فیصد طلبا فیل قرار دیے گئے ہیں اور 12 سرکاری کالجزکا کوئی بھی طالب علم پاس نہیں ہوسکا کہ ایک اور خبر آئی کہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھنے والے ہزاروں امیدواروں کا رزلٹ 3 فیصد رہا، یعنی 97 فیصد ناکام رہے۔
ملک کے انتظامی امور چلانے میں سینٹرل سپریئر سروسز (CSS) کوکلیدی حیثیت حاصل ہے، اس لحاظ سے یہ نتائج انتہائی تشویش ناک ہیں۔ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ وفاقی حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سی ایس ایس امتحانات سے قبل اسکریننگ ٹیسٹ لینے کی تجویز پر غورکر رہی ہے، جسے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ بھیجا جائے گا۔
حکومت کو اس تجویز پرکوئی عجلتی اقدام اٹھانے سے قبل اس کے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح سوچ بچارکرلینا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کہ وجہ سے طلبا اس امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں، ذہین، باصلاحیت اور قابل طلبا اس طرف کا رخ کرنے سے اجتناب کیوں برتتے ہیں؟ موجودہ نظام میں وہ کون سی وجوہات اور خرابیاں در آئی ہیں جن کی وجہ سے کامیاب امیدواروں کی شرح انتہائی حد تک گر چکی ہے۔ ذہین طلبا میں اس شعبے سے بے رغبتی کیوں بڑھی ہے اور ان تمام عوامل میں حکومت اور سیاست کا کیا عمل دخل ہے؟
نو آبادیاتی دور سے سینٹرل سپریئر سروسز اعلیٰ صلاحیتوں اور تعلیمی معیار کے حامل نوجوانوں کا مرغوب ترین شعبہ رہا ہے جس میں وہ بڑی تندہی و تیاری سے قسمت آزمائی کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1958 تک اس کا ڈھانچہ مثالی تھا۔ سب سے پہلے ایوب دور حکومت میں اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، پھر بھٹو دور اور اس کے بعد مشرف دور میں تو نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی کے نظام نے اسے شدید نقصان پہنچایا جسے سول سروس سے متعلق ریٹائرڈ افراد اور ماہرین نے نظام کی تباہی قرار دیا تھا۔
بیورو کریسی میں سیاسی بنیادوں پر اکھاڑ پچھاڑ، نوازشات، اقربا پروری، حق تلفیوں، خوش آمدی کلچر اور سیاسی مداخلت اور ان اقدامات پر عدالتوں میں مقدمات اور احکامات کی نافرمانی کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا ہے، جس کی وجہ سے سول بیورو کریسی کا بڑا حصہ تحفظات کا شکار ہے۔
اس صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے چند سال قبل میڈ کیریئر بیوروکریسی کے نصف صد سے زائد افسران نے Moral Revival یعنی اخلاقی بحالی کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی جن کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین سیاسی آقاؤں کے ذاتی نوکر کے طور پر کام کرنا چھوڑ دیں۔ تنظیم کا مقصد سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی کرنا تاکہ وہ اصولوں پر ڈٹے رہیں یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں کے ذاتی ملازم کی طرح اصولوں کو فراموش کرنے کی بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں خالصتاً اخلاقی اقدار اور پیشہ ورانہ استقامت کا مظاہرہ کریں۔ اس تنظیم کے بانی ارکان کا کہنا تھا کہ Moral Revival کا بنیادی مقصد سول سروس آف پاکستان کی ساکھ اور وقار کو بحال کرانا ہے۔
پروفیشنل ازم اورگڈ گورننس کے ذریعے بیوروکریسی کا اعتماد بحال کرکے ذہین و باصلاحیت نوجوانوں کا رخ ایک مرتبہ پھر سول سروسزکی طرف موڑا جاسکتا ہے، جس سے حکومت کو مطلوبہ تعداد میں اہل و باصلاحیت افراد میسر آسکیں گے۔ ورنہ آج کی دنیا میں ذہین نوجوانوں کے لیے خطیر مشاہیرات و مراعات دیگر بہت سے مواقعے موجود ہیں پھر اعلیٰ و دیانتدار نوجوان کم معاوضے اور عزت نفس کی پامالی کے لیے سول سروسز کا انتخاب کیونکرکریں گے؟
موجودہ حکومت تعلیم کے لیے بہت واویلا کرتی نظر آتی ہے اور اس نے "ون نیشن ون ایجوکیشن" کے سلوگن کے تحت تعلیمی اصلاحات کے لیے ایک ٹاسک فورس برائے تعلیم بھی بنا دی ہے۔ عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد کے دینی تعلیمی اداروں کے طلبا میں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انگریزوں نے ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کا تعلیمی نصاب ختم کیا، انگریزی نظام تعلیم نے معاشرتی تقسیم پیدا کی اسی وجہ سے اردو ذریعہ تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے ذہین ترین طلبا کی اکثریت اوپر نہیں آسکی، ایک ہی ملک میں تین قسم کے تعلیمی نصاب ہیں جو بڑی ناانصافی ہے یکساں تعلیمی نظام ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
ایک نصاب تعلیم ہوگا تو ہم ایک قوم بن سکیں گے ہمارے اندر کی تقسیم ختم ہوگی، انھوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیمی اداروں میں اقبالیات کا مضمون لازمی پڑھایا جائے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال ہمارے لیے رول ماڈلز ہیں انھوں نے واشگاف الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ طبقاتی تعلیمی نظام ختم کریں گے اور ملک بھر میں یکساں تعلیمی نظام رائج کریں گے۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں تعلیمی نظام میں جن چند خرابیوں اور ضروریات کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ بنیادی نوعیت کی اور فوری توجہ اور اصلاح طلب ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ارباب اختیار و اقتدار تعلیمی نظام کی خرابیوں کا ذمے دار انگریز کو قرار دے کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں خود کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
72 سالوں میں نصاب تعلیم میں معیاری و مثبت تبدیلیاں اور اصلاحات لانے کے بجائے اس کا حلیہ مزید بگاڑ دیا گیا ہے۔ عصری ضروریات کو نظرانداز اور طلبا کو اپنی تاریخ، اسلاف اور اکابرین سے دور کیا گیا۔ پہلے تو ریڈیو ٹی وی پر خبروں سے پہلے اور بعد میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فرامین و اشعار نشر کیے جاتے تھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت نہ صرف طلبا بلکہ عوام الناس کو بھی اپنی تاریخ اور اکابرین سے دور کرنے کی منظم کوششیں کی گئی ہیں۔ اقبال کی خواہش اور تمنا تو یہ تھی کہ:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پَر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
وزیر اعظم نے نصاب میں اقبالیات کے لازمی مضمون کا جو عندیہ دیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ پہلی جماعت سے انٹرمیڈیٹ تک یکساں نصاب کے نتیجے میں انگلش میڈیم اور آکسفورڈ اور کیمبرج سسٹم اور مختلف امتحانی بورڈز کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔ اردو زبان میں کتب و اصطلاحات جیسے بہت سے مسائل سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔
اسی سلسلے میں قانون سازی اور پالیسی بنانے سے قبل ماہرین تعلیم، دانشوروں، اساتذہ اور والدین سے اس کے تمام پہلوؤں پر مشاورت کرلینی چاہیے مثلاً یہ کہ نصاب میں عصری و قومی ضروریات کے اعتبار سے کیا تبدیلیاں ہونی چاہئیں؟ تعلیمی شعبے میں ہماری مستقبل کی ضروریات کیا ہیں؟ طلبا کی کردار سازی کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ طلبا، اساتذہ اور والدین کا تعلیم کے حوالے سے کیا تعلق ہونا چاہیے؟ تعلیم کو سستا اور اہلیت کے مطابق ہر طالب علم تک پہنچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ امتحانات کا معیار اور طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ تعلیمی اداروں کا انفرااسٹرکچر کس طرح بہتر بنایا جائے؟ اساتذہ کا معیار قابلیت اور تعداد کیا ہونی چاہیے؟ ان کی تنخواہیں و مراعات کیا ہونی چاہئیں؟ اساتذہ کی عزت و وقارکوکس طرح بحال کیا جائے۔
یکساں تعلیمی نصاب کی تجویز کو خلاف توقع مدارس کی جانب سے خوش دلی سے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ لیکن لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشات وتحفظات موجود ہیں کہ کہیں بیرونی ایجنڈے کے تحت یہ سیکولرازم اور لبرل ازم کو مسلط کرنے کی کوشش تو نہیں ہے؟ حکومتی نیت اور اخلاص آگے چل کر اس کے عملی اقدامات سے واضح ہوجائے گی۔