Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Adnan Adil/
  3. Sangeen Juraim Ki Jarain

Sangeen Juraim Ki Jarain

سنگین جرائم کی جڑیں

معاملہ مجرموں کو سخت سزا دینے کا نہیں بلکہ پولیس قانونی نظام اور مجموعی سیاسی، معاشرتی کلچرکی کمزوری کا ہے جن سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ مجرم تقویت پاتے ہیں، دیدہ دلیر ہوجاتے ہیں۔

جب سے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پرخاتون کے ساتھ گھناؤناجرم ہوا ہے ہر طرف سے یہ مطالبہ بلند کیا جارہا ہے کہ مجرموں کو سرِ عام پھانسی دیکر سخت ترین سزا دی جائے تاکہ وہ دوسروں کے لیے عبرت بنیں۔ اس دل دہلادینے والے، سخت دکھی کردینے والے واقعہ پر ایسا ردّعمل فطری بات ہے۔ تاہم یہ بات بھی مدّ نظر رہے کہ عام طور پر جو لوگ ڈکیتی کے ساتھ جنسی زیادتی کی واردات کرتے ہیں اور پولیس کو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مجرم ہیں تو پولیس انکوخود ہی مقابلہ ظاہر کرکے مار ڈالتی ہے۔ اس سے سخت سزا کیا ہوگی؟ ایسے ملزموں کو اکثرعدالتوں میں لیجایا ہی نہیں جاتا۔ یہی سلوک ان لوگوں سے بھی کیا جاتا ہے جو بچوں یا نوجوان لڑکوں سے زیادتی کرکے انہیں ثبوت مٹانے کے لیے مارڈالتے ہیں۔ پولیس کا موقف رہا ہے کہ عدالتیں عام طور سے ایسے مجرموں کو چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ وہ ان مقدمات میں سزا دینے کے لیے جتنا ثبوت مانگتی ہیں وہ مہیا کرنا پولیس کے بس میں نہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی واقعات میں متاثرہ شخص کے والدین یا ورثاء ملزموں سے رقم لیکر یا کسی دباؤ میں آکر صلح کرلیتے ہیں۔ اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس رہنے والے ایک افسر بیان کرتے ہیں کہ اُن کے دور میں نواحی علاقہ میں ایک میلہ میں ایک بہت چھوٹی بچی کو اغوا کرکے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کرکے لاش کسی نالہ میں پھینک دی گئی۔ پولیس کوخون آلود لاش ملی، زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔ بہت غریب خاندان کی بچی تھی۔ کوئی شخص گواہی دینے کے لیے دستیاب نہیں تھا کہ بتائے کہ اُسے کون شخص بھرے ہجوم سے اُٹھا کر لے گیا۔ پولیس نے روایتی طریقہ اختیار کرتے ہوئے علاقہ کے پندرہ بیس لوگوں کو حراست میں لیا اور ان کو ڈرایا دھمکایا، مارا پیٹا۔ بالآخر ایک شخص نے بتادیا کہ اس نے فلاں فلاں شخص کو بچی کو کاندھے پر ڈال کر لیجاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ ملزم گرفتار کرلیا گیا۔ تمام ثبوت جمع کرلیے گئے تھے۔ گواہ موجود تھا لیکن بچی کے والدین نے کچھ رقم لیکر ملزم سے صلح کرلی۔ مقدمہ بند ہوگیا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک امیر عورت کے ساتھ پیش آیا تھا جہاں اس سے زنا بالجبر کیا گیا۔ اس عورت نے پانچ کروڑ کی رقم کے عوض ملزم کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ معاملہ ختم ہوگیا۔ زنا بالجبر اور اجتماعی زیادتی کے جرائم میں قانونی طور پر صلح نہیں ہوسکتی، مجرم کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کئی طریقے نکال لیے جاتے ہیں۔ زیادتی کا شکار یا مرنے والے کے ورثاء ملزم کو پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔ اپنی ایف آئی آر واپس لے لیتے ہیں۔ اب جو موٹروے زیادتی کیس کابڑ املزم عابد علی ہے اسکے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ سات سال پہلے بھی فورٹ عباس میں ماں بیٹی کے ساتھ زنا بالجبر کے ایک واقعہ میں ملوث تھا لیکن مدعیوں نے سمجھوتہ کرکے اسکے بری ہونے کا راستہ بنادیا۔ سرعام پھانسی تو اُس وقت ملے جب مقدمہ چلے اور عدالت سزا سنائے۔ یہاں تو یہ نوبت ہی نہیں آتی۔ اگر عابد علی کو پہلے ریپ کیس میں سزا مل جاتی تو وہ اس کے بعد قتل، اقدام قتل، ڈکیتی ایسے متعدد سنگین جرائم کی وارداتیں نہ کرسکتا۔

موٹر وے پر زیادتی والے واقعہ سے پہلے اس پر آٹھ مقدمات قائم ہیں جن میں سے اکثر میں وہ ضمانت پر رہا ہوا ہے۔ ہمارا قانونی نظام بھی اتنا پیچیدہ ہے اور ملزم کو شک کا اتنا زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ اسے سزا نہیں ملتی۔ اگر کسی ملزم کو نچلی عدالت سے سزا مل جائے تو وہ ہائی کورٹ سے بری ہوجاتا ہے۔ ہائی کورٹ سے نہیں تو سپریم کورٹ سے رہائی مل جاتی ہے۔ کوئی بدقسمت ہوتا ہے جو سب عدالتوں سے سزایاب ہوجائے۔ وکلاء کے پاس اتنے ٹیکنیکل قانونی نکات ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ مجرم کو ضمانت پر بھی رہا کروالیتے ہیں اور بری بھی۔ مقدمات کو برسوں لٹکوانا تو عام سی بات ہے۔ اوّل تو پولیس کا تفتیشی افسر ہی رشوت لیکر مقدمہ کمزور بنادیتا ہے۔ بعد میں پراسیکیوشن والے اس میں سے دم خم نکال دیتے ہیں۔ پراسیکیوشن کا کام ہے کہ پولیس یا تفتیشی ایجنسی کے جمع کردہ شواہد کو قانون کے مطابق ایسے پیش کیا جائے جو عدالت میں قابل قبول شہادت ہو۔ ملک میں تقریباً بیس لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ صرف سپریم کورٹ میں پینتالیس ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں۔ پونے دو لاکھ مقدمات لاہور ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا ہیں لیکن ججوں کی تعداد مقررہ حد سے کم ہے۔ ساٹھ کی بجائے چالیس جج کام کررہے ہیں۔

پولیس کا فوجداری (کرمنل) مقدمات میں کلیدی کردار ہے لیکن جن افسروں نے مقدمات کی تفتیش کرنا ہوتی ہے ان میں سے ہر ایک کے پاس سو ڈیڑھ سومقدمات ہیں۔ ایسا افسرتفتیش کیا خاک کرے گا؟ پولیس کا عملی کام سب انسپکٹر سے انسپکٹر کی سطح کے افسر کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ وسائل بالکل نہیں ہیں۔ انکو تفتیش کیلئے ٹرانسپورٹ تک دستیاب نہیں ہوتی جبکہ پولیس کے بڑے افسر دو دو تین تین سرکاری گاڑیاں رکھتے ہیں۔ پولیس ہو یا پراسیکیوشن یا عدالتیں، انصاف کا سارا نظام گل سڑ چکا ہے۔ اس کو بہتر بنانے کے لئے بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو کوئی حکمران کرنا نہیں چاہتا۔ صرف بلند بانگ دعوے ہیں، عوام کو بے وقوف بنائے رکھنے کے لیے۔ یہ ساری خرابیاں ہمارے سیاسی کلچر سے جڑی ہوئی ہیں، ہمارے سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد جرائم پیشہ افراد کی سرپرست ہے۔ ان کی مدد سے یہ زمینوں پر قبضے کرتے ہیں۔ مخالفین کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ الیکشن لڑتے ہیں۔ غریبوں سے زبردستی ووٹ لیتے ہیں۔ ان کے ڈیرے جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالو تو کہتے ہیں کہ سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔

اگر حکومت میں ہوں تو اپنی حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں تاکہ علاقہ میں اپنی مرضی کا تھانیدار، ڈی ایس پی لگوا سکیں۔ جرائم پیشہ افراد، کرپٹ پولیس افسروں اور سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ جب تک اس بندھن کو نہیں توڑ اجاتاسنگین جرائم کم نہیں ہوسکتے۔ سنگین جرائم کو کنٹرول کرنے کی خاطرصرف سرِ عام پھانسی کا مطالبہ کرنا اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔

Check Also

Operation Pe Operation

By Tahira Kazmi