Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Adnan Adil/
  3. Naye Samraji Azaim

Naye Samraji Azaim

نئے سامراجی عزائم

امریکہ اور یورپ پر مشتمل مغربی سامراج کے خوشنما چہرہ کے پیچھے اسکا ایک بھیانک رُوپ چُھپا ہے۔ سو ڈیڑھ سو سال تک تو یورپ نے دنیا کے درجنوں ملکوں کو بزور طاقت فتح کرکے اپنی نوآبادیاں بنائے رکھا۔ ان کے وسائل کی بے دردی سے لُوٹ مار کی۔ ان ملکوں میں غربت، جہالت اور کرپشن کو پھیلایا۔ یہاں سے چرائی ہوئی دولت سے اپنے ملکوں میں صنعتی ترقی کو فروغ دیا۔ ان ملکوں میں قبائلی اور نسلی، لسانی تقسیم کو اتنا بڑھایا کہ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہیں ۔ جب برطانیہ، فرانس، پرتگال، ہالینڈ وغیرہ نے اپنی نوآبادیات کا قبضہ چھوڑا تو انکو نسلی، لسانی اور قبائلی بنیادوں پر چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کردیا تاکہ انکے اتحاد سے مغربی سامراج کی برتری کو خطرہ نہ ہو۔ سامراجی ممالک ان ملکوں کو اپنی مصنوعات مہنگے داموں فروخت کرتے رہیں، ان سے خام مال سستے داموں خریدتے رہیں ۔ ان ملکوں میں اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے من پسند حکومتیں بنوا کر انکی پالیسیوں کو کنٹرول کرتے رہیں۔ انکے آپسی اختلافات کو اتنا ہوا دیں کہ یہ ممالک سامراجی ممالک سے جدید مہلک ہتھیار مہنگے داموں خریدتے رہیں۔ سامراج کی ایک جنگی مشین ہے جو دنیا کو خفیہ انٹیلی ایجنسیوں اور غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے۔

جمہوریت اور انسانی حقوق سامراجی ممالک کے وہ نعرے ہیں جن کے ذریعے نافرمان ممالک کو سزا دی جاتی ہے۔ جیسے لیبیا کے صدر قذافی کو جمہوری تحریک کی آڑ لیکر تباہ و برباد کردیا گیا۔ آج وہاں بازاروں میں عورتیں نیلام ہوتی ہیں۔ سامراجی ممالک سے چندہ کھانے والی غیر سرکاری تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں برسوں بغاوت کی تیاری کرتی ہیں۔ نوجوانوں کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اپنی ریاست کے خلاف بھڑکاتی ہیں ۔ جب لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر آجاتی ہے تو ریاستی اداروں سے انکا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں سامراج جمہوریت اور انسانیت کے نام پر مداخلت کرتا ہے اور اپنے ناپسندیدہ حکمران کو ہلاک کردیتا ہے جیسے معمر قذافی اور صدام حسین کے ساتھ کیا۔ جن ممالک میں سامراج کے کٹھ پتلی حکمران ہوتے ہیں جواسکا پیٹ بھرتے رہتے ہیں وہ انسانی حقوق کا جنازہ نکال دیں، لوگوں کو قتل کروائیں، میڈیا پر سخت ترین پابندیاں لگائیں، مغربی ممالک انکی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ عرب ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کو دیکھ لیں ۔ اس نے کشمیر میں کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے لیکن وہ امریکہ اور یورپ کا لاڈلا ملک ہے۔ کوئی اس کی کھل کر مذمت تک نہیں کرتا کیونکہ بھارت مغربی سامراج کی بڑی تجارتی منڈی ہے۔

مغربی سامراج کا مکروہ چہرہ مشرق وسطیٰ میں سب سے نمایاں ہے۔ چھوٹے چھوٹے عرب ممالک کو کنٹرول کرنے کی خاطرفلسطینیوں کو انکے وطن سے بیدخل کرکے اسرائیل کی صیہونی ریاست قائم کی گئی۔ گزشتہ صدی کے تقریباً نصف میں عرب ملکوں میں تیل دریافت ہوگیا، وہ پیٹرولیم فروخت کرکے سینکڑوں ارب ڈالر کمانے لگے۔ ان پر امریکہ اور برطانیہ نے ایسے حکمران مسلط کردیے جنہیں عوامی تائیدحاصل نہیں تھی۔ ان حکمرانوں کا کام استعمارکی خدمت کرنا تھا۔ اسرائیل کا ہوّا دکھا کر امریکہ اور یورپ ان عرب ملکوں کو ہزاروں ارب ڈالر کا اسلحہ اور ہتھیار فروخت کرچکے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہر سال کئی ارب ڈالر کا عطیہ دیا جاتا ہے۔ اس سال اس گرانٹ کی رقم پونے چار ارب ڈالر ہے حالانکہ کورونا وبا کے باعث امریکی معیشت کا حال اچھا نہیں۔ اسرائیل کو امریکہ ایسا جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے جو دنیا کے کسی اور ملک کو نہیں دی جاتی۔ شمال میں اسرائیل اور لبنان سے لیکر جنوب میں یمن، عراق اور ایران تک مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقہ میں امریکہ کا نامزد تھانیدار اسرائیل ہے۔ اب متحدہ عرب امارات کو امریکہ تئیس ارب ڈالر سے جدید ترین ایف۔ 35 جنگی طیارے فروخت کررہا ہے۔ امریکی سامراج کی معیشت کا پہیہ ہتھیاروں کی فروخت کے ایسے بڑے بڑے معاہدوں سے ہی چلتا ہے۔ دنیا میں ممالک ایک دوسرے سے لڑتے رہیں، جنگیں ہوتی رہیں تو مغربی سامراج خوشحال ہے۔ جنگی ہتھیاربنانے والی کمپنیاں امریکہ کی سب سے بااثر لابی ہے۔ بڑے بڑے فیصلے اسکی مرضی سے کیے جاتے ہیں۔

گزشتہ پندرہ بیس سال سے عرب ملکوں کے اسرائیل سے خفیہ سفارتی تعلقات قائم ہیں کیونکہ یہ سب امریکہ کے بغل بچے ہیں۔ ظاہری طور پر جو بھی نورا کشتی کریں اندرون خانہ ایک ہی سامراجی سپر طاقت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب انکے باہمی تعلقات کا باقاعدہ رسمی اعلان ہورہا ہے۔ کیونکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنے کی غرض سے گریٹر مڈل ایسٹ کا قیام ضروری ہوگیا ہے۔ امریکہ کے راستے میں بڑی رکاوٹ یہ بنی کہ ایران میں امریکہ اور اسرائیل کی مخالف حکومت قائم ہے۔ شام کے صدر بشارالاسد اور لبنان میں حزب اللہ بھی ایران کے اتحادی ہیں۔ شام کو خانہ جنگی کرواکے تباہ کردیا گیا لیکن روس، ایران اور حزب اللہ نے اسد حکومت کو گرنے نہیں دیا۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ چین نے ایران سے تزویراتی(اسٹریٹجک) اتحاد کرلیا۔ چین کے لیے اب ایران کی اس خطہ میں وہی اہمیت ہے جو اسرائیل کی امریکہ کے لیے۔ چین چار سو ارب ڈالر ایران کی معیشت میں لگارہا ہے تاکہ اسے امریکی پابندیوں کے مضر اثرات سے باہر نکالا جاسکے اور اتنا مضبوط بنایا جاسکے کہ وہ امریکی دباؤ کا مقابلہ کرسکے۔ ایران سے پچاس ساٹھ میل کی دُوری پرمتحدہ عرب امارات میں اسرائیل براجمان ہوگیاہے۔ اس کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد نے اپنے اڈّے بنالیے ہیں۔ جدید الیکٹرانک آلات سے لیس اسرائیلی انٹیلی جنس مرکز صرف ایران ہی نہیں بلکہ پاکستان کی جاسوسی بھی کررہا ہے۔ موساد پہلے ہی براستہ افغانستان پاکستان میں سرگرم ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سابق سربراہ برینن کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کو تلاش کرنے میں موساد نے مدد کی تھی۔

امریکی سامراج کو اپنی جنگی مشین کو چلاتے رہنے کے لیے ایک بڑے دشمن کی ضرورت رہتی ہے۔ پہلے سوویت یونین کو دشمن کے طور پر پیش کرکے دنیا کو اپنا اسلحہ بیچا۔ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تواسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا چرچا کیا گیا اور جنگیں کرکے مسلمان ملکوں کو تاراج کیا گیا۔ اب نیا دشمن چین ہے۔ اس کے خلاف اتحاد بنائے جارہے ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو اپنے مستقبل کا راستہ منتخب کرنا ہے۔ ہمیں چین کے خلاف امریکی اتحاد کا ہرگز حصہ نہیں بننا چاہیے۔ پاکستان کو جنگ و جدل سے بچ کر معاشی ترقی کو اپنی تزویراتی ترجیح بنانا چاہیے۔ جب ہماری معیشت مضبوط ہوگی تو باقی معاملات بھی ٹھیک ہوتے جائیں گے۔

Check Also

Bheer Chaal

By Syed Mehdi Bukhari