سینیٹر نامہ

سابق سینیٹر مشتاق احمد نے جماعت اسلامی چھوڑ دی ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ جماعت سے استعفیٰ دیتے ہوئے میں رو پڑا۔
کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ بہت سے لوگ بلکہ سارے ہی لوگ بہت زیادہ خوشی ملے تو رو پڑتے ہیں۔ غم اور خوشی میں بس ایک باریک سا پردہ ہے ورنہ دونوں جڑواں بہن بھائی ہیں۔ چنانچہ مشتاق صاحب کا رونا عین فطری ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ سنا ہے کہ جماعت اسلامی والے تو اور بھی زیادہ روئے۔ ایک دم سے فریقین کو اتنی خوشی ملی ہے، بے اختیار رونا تو بنتا ہے۔
***
مشتاق صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا لیکن جماعت اسلامی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ جماعت والوں کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ انہوں نے سینیٹر مشتاق احمد کے اس پانچ نکاتی دھرنے کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ واضح رہے یہاں نکات سے مراد افراد ہیں۔ پانچ نفری دھرنا کی اصطلاح کچھ اچھی نہیں لگتی، اس لئے نفریا افراد کو نکات میں بدل دیا۔ اسے ضرورتِ غیر شعری سمجھیئے۔
اس صورت میں البتہ جماعت والے جوابی سوال کر سکتے ہیں۔ یہ کہ ہم نے لاکھوں افراد پر مشتمل درجنوں دھرنے دئیے، درجنوں ریلیاں نکالیں، درجنوں مظاہرے کئے، مشتاق احمد ایک میں بھی نہیں آئے۔ کیوں؟ برسبیل تذکرہ، جماعت کو آپ، باطنی طور پر کب کا چھوڑ چکے اور پی ٹی آئی میں، باطنی طور پر، کب کے شامل ہو چکے۔
***
سینیٹر مشتاق کے پانچ نکاتی یعنی پانچ نفری یعنی پانچ افرادی دھرنے میں دونوں ماہ رنگ بلوچ کے ہمدرد ہوتے تھے، تیسرے وہ خود ہوتے تھے، باقی دو کون ہوتے تھے؟ یہ سوال ماہرین اسراریات کے سامنے ہے۔
وہ یہ پانچ نفر لے کر بیچ سڑک میں بیٹھ جاتے تھے اور اور ٹریفک روک دیتے تھے جس پر پولیس کو کارروائی کرنا پڑتی تھی۔ اس پولیس ایکشن پر اور تو کوئی بولتا تھا نہ توجہ دیتا تھا البتہ مرشداتی پارٹی کا غل غپاڑہ سیلِ آسمان سر پر اٹھا لیتا تھا کہ دیکھو، فسطائی حکومت نے اسرائیل کیخلاف مظاہرہ کرنے سے روک دیا۔
***
سینیٹر مشتاق حال ہی میں اسرائیل یاترا کرکے لوٹے ہیں۔ وہ غزہ کی مدد کیلئے جانے والے کشتیوں کے قافلے یعنی فلوٹیلا میں سوار تھے کہ اسرائیل نے سب کو پکڑ لیا۔
بہرحال، پھر سب کی رہائی ہوگئی۔ پاکستان واپسی پر دیکھا کہ ان کی داڑھی کٹی ہوئی ہے۔ پوچھنے پر بتایا کہ دوران قید اسرائیل والوں نے کاٹ دی۔
لیکن رہائی کے بعد جب وہ ترکیہ پہنچے تو ان کی داڑھی پوری تھی۔ ترکی سے پاکستان آتے ہوئے، کسی جگہ، اسرائیل والے گھس آئے ہوں گے۔ غالباً۔
***
آپ سابق سینیٹر ہیں۔ یعنی کبھی سینیٹر ہوا کرتے تھے اب نہیں ہیں۔ قاعدے سے انہیں اپنے نام کے ساتھ سینیٹر نہیں، سابق سینیٹر لکھنا چاہیے لیکن وہ سابق کا لفظ نہیں لکھتے۔ بدستور سینیٹر لکھتے ہیں، جو خلاف معمول ہے۔ معمول تو یہی ہے کہ جو سبکدوش ہو جاتا ہے، سابق ساتھ میں لگاتا ہے، مثلاً سابق وزیر، سابق رکن اسمبلی، سابق وفاقی سیکرٹری وغیرہ۔
یہ راز کھلا جب ان کے ایک بہی خواہ کے مراسلے سے پتہ چلا کہ سینیٹر دراصل مشتاق صاحب کا تخلص ہے۔ مراسلے میں ان کا تازہ کلام بھی تھا کہ کالم میں چھاپ دو۔ سارا کلام تو چھاپا نہیں جا سکتا کہ کالم میں اتنی جگہ کہاں لیکن چند چیدہ چیدہ شعر کالم کے آخر میں پیش کروں گا لیکن پہلے یہ وضاخت کہ تخلص تو نام کے بعد آتا ہے۔ سینیٹر صاحب یہ تخلص نام سے پہلے کیوں استعمال کرتے ہیں۔
جواب اس کا یہ ہے کہ شاید وہ جگر مراد آبادی یا وحشت کلکتوی، اکبر الہ آبادی وغیرہ کے ناموں سے غلط فہمی میں پڑ گئے کہ یہ بھی تو تخلص ہے اور نام سے پہلے استعمال کرتے تھے۔ یعنی ان کا خیال ہو کہ مراد آبادی، کلکتوی الہ آبادی وغیرہ شاعروں کے نام ہیں۔ یا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہو کہ نام کے بعد تخلص لگانے کی روایت بوسیدہ اور فرسودہ ہوگئی اب رسم جدیدہ کی ضرورت ہے۔
ویسے بعض کا کہنا ہے کہ تخلص پہلے یا بعد میں کا مسئلہ میر کو بھی درپیش تھا۔ عرصہ تک سوچتے رہے کہ تخلص نام سے پہلے لکھوں کہ بعد میں۔ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے چنانچہ تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ میں تخلص نام سے پہلے بھی لکھوں گا اور بعد میں بھی، چنانچہ پھر وہ میر تقی میر ہو گئے۔ یعنی تقی میر نہیں ہوئے، میر تقی بھی نہیں ہوئے بلکہ میر تقی میر ہو گئے۔ اس مثال پر سینیٹر مشتاق بھی عمل کریں تو سینیٹر مشتاق سینیٹر لکھ سکتے ہیں۔ اب چند چیدہ چیدہ شعر ان کے کسی نیازمند کے بھیجے ہوئے ملاحظہ فرمائیں
سینیٹر کیا سادہ ہے بیمار ہوئی جس کے سبب
اسی عطار کی بچی سے دوا لیتی ہے
ریختہ کی تمہی استاد نہیں ہو سینیٹر
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی شیر مروت بھی تھی
عشقِ عمراں میں سینیٹر نکمی ہوگئی
ورنہ ہم بھی آدمی تھی کام کی
اطلاع ہے کہ ایک عریضہ انہوں نے کے پی کے متوقع وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو بھی لکھا ہے کہ
وزیر نہ سہی، مشیر ہم کو بنا لو آفریدی
کہ نگاہ لطف کی امیدوار ہم بھی ہے۔

