سزائوں کا سونامی

ملک میں فتنہ فساد کا سونامی لانے والی پاکستان تحریک دنگا فساد کو سزائوں کے سونامی نے آ لیا ہے اور اس کے غل غپاڑہ بریگیڈ نے اس پر عنوان لگانا شروع کر دئیے ہیں۔ ایک جیّد غل غپاڑچی نے اپنا تھمب نیل یوں بنایا: فسطائی حکمرانوں نے پی ٹی آئی پر رندا پھیر دیا، دوسرے نے لکھا، جھاڑو پھیر دیا۔ یعنی کیا پھرا ہے، اس بارے میں اصولی اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے، کیا پھرا؟ رندا پھرا یا کہ جھاڑو پھرا۔ اس تصفیے میں الجھنے کے بجائے غل غپاڑیوں کو مرشد سے رجوع کرنا چاہیے جو دیوار کے پار دیکھ لیتے ہیں۔ وہی بتا سکتے ہیں کہ یہ شے جو تنکوں سے بنا جھاڑو نظر آ رہا ہے، اصل میں رندا ہے یا رندا نظر آنے والی شے اصل میں جھاڑو ہے۔
***
ویسے بھی رندے جھاڑو کی بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں، جو بھی پھرنے والی شے تھی، وہ پھر گئی۔ آج 2 تاریخ ہوگئی، مزید دو دن بعد تحریک دنگا فساد نے اس تحریک کو نقطہ عروج پر لے جانا ہے جو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ کیا پتہ، شروعات ہی نقطہ عروج سے ہو۔ ایک سزا یافتہ مفرور انقلابی نے کہ نام ان کا وقاص اکرم ہے، کے پی میں اپنی خفیہ استراحت گاہ سے ایک وڈیو جاری کی ہے۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ مرشد کی خاطر ہر قربانی دیں گے۔ ان سے بھی بڑے مراد سعید ہیں، وہ وڈیو جاری کرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لیتے، کسی سے ٹویٹ کرا دیتے ہیں کہ انقلاب کیلئے خون کا آخری قطرہ بہا دیں گے۔ عزم بالکل واضح لیکن جو بات واضح نہیں ہو رہی کہ خون کے جسم میں لاکھوں قطرے ہیں، ان میں سے آخری کون سا ہے یہ پتہ نہیں چل رہا، آخری قطرے کا تعین ہو جائے تو ترنت بہا ڈالیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
***
یہ سزائیں 9 مئی کے تاریخی دنگے فساد کے بلوائیوں کو سنائی گئی ہیں جن کی تعداد دو سو سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں تحریک دنگا فساد کے بڑے بڑے سرغنے بھی شامل ہیں اور ان میں ایک وہ بھی ہیں جو دادا صاحب کے پوتا صاحب ہیں جنہوں نے گزشتہ جنگ چہار روزہ کے آغاز سے پہلے ایک خطاب جاری کیا تھا اور اس میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان جنگ لڑے گا کیسے، سارا بم بارود تو فسطائی حکمرانوں نے بیچ ڈالا۔ مطلب جنگ ہوئی تو بھارت ہمیں بہت مارے گا۔
اس طرح کے مصرعہ پر غل غپاڑچیوں نے ایک سے ایک ہولناک گرہ لگائی۔ دبئی کے مفرور آفتابے نے کہا پاکستان ختم ہو جائے گا اس کے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لاہور میں ریش ابیض والے ایک خضر صورت نے کہا، آسمانوں پر لکھا پڑھ کر آیا ہوں، پاکستان تباہ اور برباد ہو جائے گا۔ بالشت بھر کے ایک غپاڑچی نے کہ باجوہ اس کے ولاگ شیو کرتے ہوئے سنا کرتے تھے، کہا، بھارت کیلئے پاکستان پر حملہ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے، عوام فوج کے ساتھ نہیں ہیں۔ پونی بالشت کے ایک غپارچی نے اطلاع دی کہ بھارتی فوج آئے، عوام اس کا ساتھ دیں گے۔ ایک جیب تراش عرف رام راجیہ خاں، جس نے جیب تراشی کی ایک اکیلی واردات میں کے پی حکومت سے دس ارب روپے کا فارم ہائوس ہتھیا لیا تھا، کل ہی اپنے ولاگ میں کہا کہ پاکستانی فوج جھوٹ بول رہی ہے کہ حالیہ جنگ میں اس نے دشمن کی چوکیاں فتح کر لی ہیں۔ رام راجیہ خاں نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوج کے پاس بھارت کی ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ کچھ مزید انکشاف بھی کر سکتا تھا یہ رام راجیہ خاں کہ دراصل پاکستان نے بھارت کا کوئی رفائیل نہیں گرایا، پانچ کوّے اڑ رہے تھے، ان کو مار گرایا۔
دس ارب روپے کا فارم ہائوس چکوال میں رام راجیہ خاں کا منتظر ہے جو اب کبھی نہیں آئے گا۔ خیر، جب الٹا بھارت کو جوتے پڑ گئے تو ان سب کا کچھ ایسا حال ہوا کہ جوتے سنگھا کر ہوش میں لانا پڑا۔
9 مئی کے رنگوں میں اڑھائی سو فوجی اہداف تھے جن پر حملے کئے گئے۔ چھائونیاں، ایر فورس کے فضائی اڈے، آئی ایس آئی کے دفاتر، کور کمانڈر ہائوس اور حتیٰ کہ جی ایچ کیو۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی بلند و بالا عمارت محض اس لئے راکھ بنا ڈالی کہ اس پر ریڈیو پاکستان لکھا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو لکھا ہوتا تو کبھی حملہ نہ کرتے۔
کرنل شیر خاں شہید کے مجسمے کو گرایا، توڑا، اس کے ٹکڑوں پر پائوں جما جما کر ناچے، ان پر تھوکا۔ کرنل شیر خاں سے اتنی زیادہ نفرت کیوں تھی؟ اس لئے کہ اس اکیلے نے درجنوں بھارتی فوجی کارگل کے معرکے میں مار دئیے تھے۔ ایک آدھ بھارتی مارا ہوتا تو شاید مجسمہ گرانے پر ہی اکتفا کر لیتے۔
***
سبھی مبصرین کہتے ہیں کہ دنگا فساد پارٹی اس صدمے سے سنبھل نہیں سکے گی۔ ایک صاحب نے البتہ اختلاف کیا کہ سیاسی جماعتیں اس طرح کی مصیبتوں سے ختم نہیں ہوا کرتیں، باقی رہتی ہیں۔
بجا فرمایا۔ لیکن یہ بات پارٹیوں کیلئے درست ہے اور دنگا فساد پارٹی کوئی پارٹی نہیں ہے، کلٹ ہے اور کلٹ کیخلاف جب بھی کریک ڈائون ہوا، کلٹ ختم ہوگیا، باقی نہیں رہا۔
سب سے بڑا کلٹ حسن بن صباح کا تھا۔ پورے ایران و عربستان میں قیامت مچا اٹھی تھی۔ مسلمان حکومتوں نے کریک ڈائون کیا ناکام رہا، پھر منگولوں نے کامیاب کریک ڈائون کیا۔ نہ قلعہ الموت رہا نہ کلٹ نہ اس کی سوچ۔ ایک ہولناک باب قصہ کہانی بن کر رہ گیا۔ حالیہ تاریخ میں امریکہ اور مغرب بلکہ یہاں بھارت میں کتنے ہی کلٹ بنے، کتنا اودھم مچایا، کریک ڈائون ہوئے، کلٹ ختم ہو گئے اب لوگوں کو ان کا نام بھی یاد نہیں۔
کلٹ کا لیڈر ایک قسم کا ماہر نفسیات ہوتا ہے۔ وہ جو کہتا ہے، چیلے مان لیتے ہیں۔
وہ کہے کہ میں بھگوان ہوں، چیلے مان لیتے ہیں، وہ کہے میں اوتار ہوں، نبی ہوں، لوگ مان لیتے ہیں، وہ کہے سال میں بارہ موسم ہوتے ہیں، لوگ وہ بھی مان لیتے ہیں لیکن انجام سب کا ایک۔

