موکلات کی سرگوشیاں

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد اس وقت رو پڑیں جب انہوں نے ٹی وی پر اپنا گھر جلتا ہوا دیکھا۔ مشتعل عوام نے ان کے گھر اور ان کے والد شیخ مجیب کے گھر کو بھی نذر آتش کر دیا جو اب قومی میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ عوام اچانک کیوں مشتعل ہوئے؟ دراصل ایک خبر آئی کہ حسینہ واجد بھارت سے جہاں وہ سیاسی پناہ گزین ہیں، بذریعہ وڈیو لنک قوم سے خطاب کریں گی۔
حسینہ واجد اپنا گھر جلتے ہوئے نہ دیکھ سکیں اور رو پڑیں لیکن انہیں یاد نہیں، انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے گھر جلائے نہیں تھے، اجاڑ کر رکھ دئیے تھے۔ کسی جمہوری ملک میں اتنے سیاسی مخالفوں کو پھانسیاں نہیں دی گئیں جتنی ان کے "پارلیمانی دور حکومت" میں دی گئیں۔ بہت سے ان لوگوں کو 1971ء کے جنگی جرائم پر سزائے موت دی گئی جن کی عمر تب بارہ چودہ سال تھی۔ دسیوں بار عرصہ دراز تک جیلوں میں رہے۔ ان سے عوامی نفرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب یہ تاثر پھیلایا گیا کہ بھارت ان کی پشت پر ہے اور وہ ان کی حکومت گرنے نہیں دے گا۔ اپنی حکومت گرنے کا جتنا غم حسینہ کو ہے، اس سے زیادہ بھارت کو ہے۔
***
تختے الٹنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ ملکوں میں مارشل لا لگتے رہتے ہیں، عوامی تحریکیں بھی حکمرانوں کا تختہ الٹ دیتی ہیں، عدم اعتماد سے بھی وزرائے اعظم کی چھٹی ہو جاتی ہے اور سربراہان مملکت قتل یا حادثے کی نذر بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ملک اپنے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں کچھ انوکھا ہوا، یہ کہ حسینہ کی حکومت ختم ہونے سے ملک کی سمتیت ORIENTATION افاداتی گہرائی بن گئی۔ یہ معاملہ بجائے خود تفصیل بتانے کا طلب گار ہے لیکن اسے ابھی رہنے دیں۔
یہ دیکھئے کہ تاریخ عالم میں اگر بہت سے واقعات کسی "سٹیک ہولڈر" کی منصوبہ بندی یا سازش کے تحت ہوتے ہیں تو بعض واقعات اچانک، دراصل کچھ اور نامعلوم یا خفیہ اسباب کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جو ہوا، وہ انہی اسباب کے تحت ہوا۔
معاملہ اتنا اچانک ہوا کہ بھارت کو اس کا اندیشہ تھا نہ پاکستان کو اس کی توقع تھی۔ امریکہ روس اور چین بھی لاعلم رہے اور کایا کلپ، ایک پورے ملک کی کایا کلپ ہوگئی۔ ایسی انہونیوں کے بعد ماہرین اس طویل سلسلہ اسباب کا کھوج لگا لیتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ ہوا لیکن پہلے سے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
عجیب اتفاق یہ ہوا کہ ایسا ہی ماجرا، بنگلہ دیش میں اس مخیرالقول تبدیلی سے بھی بڑھ کر، فوراً بعد شام میں ہوا جس نے اس خطے کی بساط ہی درہم برہم کر دی۔ ہمارے ٹی وی چینلز پر تشریف فرما "ہائبرڈ" تجزیہ کاروں نے فوراً ہی اعلان کر دیا کہ امریکہ نے سازش کی ہے لیکن پھر مزے کی بات یہ ہوئی کہ تازہ تازہ صدارتی الیکشن جیتن والے ڈونلڈ ٹرمپ نے شامی انقلاب پر یہ کہہ کر "برہمی" ظاہر کی کہ شام میں جو ہوا، ایسے ہی نہیں ہوا، سازش کے تحت ہوا۔ ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا اور اس لئے نہیں بتایا کہ بتانے کو ان کے پاس کچھ تھا ہی نہیں، کہ سازش کس نے کی۔ دراصل جو ہوا، وہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کیخلاف تھا۔
شام میں انقلاب سے ایک طرف روس کو علاقے سے دیس نکالا ملا اور ایران پھر سے اپنے دائرے میں سکڑ کر رہ گیا وہیں امریکی اسرائیلی مفادات کے راستے میں غیر متوقع رکاوٹ بھی آ گئی جیسے رواں دواں ٹریفک کے سامنے، پہاڑی سے کوئی تودہ آ کر گرے اور ہموار سفر میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔
اسرائیل کیلئے بشار الاسد کی نصیری حکومت بہت بڑی ڈیفنس لائن تھی۔ ماہرین عرصے سے یہ لکھتے آ رہے تھے کہ اسد اور پھر بشاری حکومت اسرائیل کے تحفظ کی گارنٹی ہے۔ خود اسرائیلی دفاعی ماہر بھی یہ لکھنے میں شامل تھے۔ اسرائیل اتنا خوفزدہ ہوا، اس نے امریکی مدد سے، شام پر ہزاروں فضائی حملے کرکے بشار حکومت کا چھوڑا ہوا اسلحہ خانہ تباہ کر دیا۔ شام کی فضائی زمینی طاقت ختم کر دی۔ یہ ہتھیار نئی شامی حکومت کے ہاتھ لگ جاتے تو کیا ہوتا، اسرائیل اور امریکہ اچھی طرح جانتے تھے۔ اب شام کے پاس "جارحیت" تو دور کی بات، اپنے دفاع کیلئے بھی کچھ نہیں لیکن اس کے باوجود اب مستقبل قریب میں، شام اہم ترین عوامل میں سے ایک بننے والا ہے۔
صدر ٹرمپ کو بھی معاملے کا پتہ ہے اس لئے اس نے غزہ کا قضیہ جلد سے جلد نمٹانے کااعلان کر دیا ہے۔ یہ کہ فلسطینیوں کو نکال کر غزہ وہ اپنے قبضے میں لے لے گا۔ یہ منصوبہ نیا نہیں ہے۔ کل لکھا تھا کہ ٹھیک ایک سال پہلے ٹرمپ کے داماد کشتر نے اس کا اعلان کیا تھا، نئی بات محض یہ ہے کہ اب اس پر جلد عمل ہوگا۔ اسرائیل نے کل کہا ہے کہ غزہ والوں کو نکال کر کہیں اور بسانے کی بات غلط ہے، انہیں محض یہ حکم دیا جائے گا کہ فوراً یہاں سے نکل جائو۔ کہاں جائو، کیسے جائو، یہ تمہارا مسئلہ ہے ہمارا نہیں
لیکن جلد بازی کا نتیجہ کیا ہوگا۔ ابھی سے نظر آ رہا ہے کہ فیصلے پر عمل ہوتے ہی بعض عرب ملکوں میں عوامی سطح پر صورت حال امریکی نکتہ نظر سے، نہایت ناساز گا ر ہو سکتی ہے۔
ایک غیر متوقع نتیجہ تو نکل بھی آیا۔ خاموش سعودی عرب متحرک ہوگیا۔ یہ کہہ کر کہ دو ریاستی حل کے بغیر وہ اسرائیل سے تعلقات نہیں بنا سکتا، عملاً ٹرمپ کے "ابراھام اکارڈ" کو سپردخاک کر دیا ہے اور مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکی منصوبے کی عرب مزاحمت کی قیادت سعودی عرب کرنے والا ہے۔
کیا اس تبدیلی کا اندازہ دس بارہ دن پہلے تک بھی کسی کو تھا؟
***
ٹرمپ کی "ھنوات" کے دیسی متاثرین میں سرفہرست پاکستان کی مرشداتی پارٹی ہے۔ کل تک مرشداتی پارٹی کے لوگ مرے جا رہے تھے کہ ٹرمپ نے مرشد کے حق میں ابھی تک کوئی ٹویٹ یا فون کیوں نہیں کیا۔ غزہ پر ٹرمپ کے عزائم ظاہر ہونے کے بعد دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹرمپ سے نفرت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب مرشداتی پارٹی نے بھی اپنی پرارتھنا کا رخ بدل لیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے مرشد کے حق میں اب ٹویٹ کیا تو مرشد بھی عوامی نفرت کا شکار ہو جائے گا۔
اب مرشداتی حلقے اس بات سے ڈر کر مرے جا رہے ہیں کہ کہیں ٹرمپ کا ٹویٹ مرشد کے حق میں آ گیا تو کیا بنے گا۔
***
جیل سے خبر ہے کہ مرشد کے مزاج ناسازگار ہیں۔ انہیں بے چینی، گھبراہٹ اور ڈپریشن کے دورے پڑ رہے ہیں اور وجہ ڈاکٹروں نے یہ بتائی ہے کہ ازحد بسیار خوری کے نتیجے میں ان کا بلڈپریشر ہائی رہنے لگا ہے۔
بلڈ پریشر کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے، وہ تو ایسی پریشان کن نہیں ہے۔ اس عمر میں اتنا بلڈ پریشر "نارمل" ہی مانا جاتا ہے۔ بے چینی، گھبراہٹ اور ڈیپریشن کی وجوہات کچھ اور ہوں گی۔ مناسب ہے کہ ڈاکٹروں کے علاوہ کچھ "روحونیاتی ماہرین" سے بھی مشورہ لے لیا جائے۔
بے چینی وغیرہ کے ساتھ ساتھ ایک اور عارضہ بھی مرشد کو لاحق ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہیں کانوں میں سیٹیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ معاملہ بھی ماورائے طبی لگتا ہے۔ ممکن ہے بنی گالہ اور زمان پارک میں عرصہ اڑھائی سال سے "موکلات" کی جو فوج ظفر موج "بے روزگار" ہے، وہی کانوں میں سرگوشیاں اور تقاضے کرتی ہو اور مرشد کو یہ سرگوشیاں سیٹیوں کی صورت سنائی دیتی ہوں۔
چنانچہ ڈاکٹروں سے زیادہ روحونیاتی عاملین سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔