مٹھائی کا تیسرا ڈبہ

کبھی خوشی کبھی غم پارٹی، اپنا نام تبدیل کرکے تھوڑی خوشی زیادہ غم، رکھنے پر غور کر رہی ہے۔ خوشی ملتی ہے تو اگلے دن ہوا ہو جاتی ہے، غم ملتا ہے تو جم جاتا ہے۔ اکثر تو یہ ہوا کہ خوشی ملی تو کچھ ہی دیر یا دن بعد پتا چلا کہ وہ تو پرینک، تھا۔ کل ہی کی بات ہے۔ ہمارے محلے میں تھوڑی خوشی زیادہ غم پارٹی کے محلہ جاتی سربراہ مٹھائی کا ڈبہ لے کر تشریف لائے۔ شکریہ ادا کرنے کے بعد پوچھا یہ کس خوشی میں؟
تعجب کے ساتھ فرمانے لگے، ارے تمھیں نہیں پتا، امریکا مرشد کی رہائی کے لیے سرگرم ہوگیا ہے، اس نے پاکستانی برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف لگا کر چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا ہے۔ اب پتا چلے گا ان کو۔ اب تو مرشد کو رہا کرنا ہی پڑے گا۔ عرض کیا، اس ٹیرف کا مرشد کی رہائی سے کیا تعلق، وہ تو اس نے دنیا کے بہت سے ملکوں پر لگایا ہے، چین پر تو 36 فیصد لگا دیا۔ دنیا بھر میں کہرام مچا ہے، امریکی سٹاک مارکیٹ گر گئی ہے۔ کہنے لگے، یہ سب جھوٹی خبریں ہیں، فسطائی حکومت عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے گھڑتی ہے لیکن عوام اب باشعور ہو گئے ہیں، مرشد نے انھیں شعور دے دیا ہے۔
عرض کیا، نہیں بھائی، اخبار میں ساری خبر چھپی ہے، یہ لو پڑھو۔ انھوں نے اخبار پکڑا، فرنٹ پیج پر اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پوچھا، کہاں ہے۔ انگلی رکھ کر بتایا کہ یہاں ہے۔ سرسری نظر سے سرخی پڑھی، پھر کہا، جھوٹ ہے، لفافہ اخبار ہے۔ ویسے اس اخبار کا نام کیا ہے۔ حیرت سے کہا، کیا مطلب، سامنے پیشانی پر اتنا موٹا نام چھپا ہے اور تم مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ کہنے لگے، پیشانی کہاں ہے۔ عرض کیا، سب سے اوپر، دائیں کونے میں اتنی بڑی پیشانی ہے۔ دوبارہ نظر ڈالی، کچھ دیر گھورتے رہے اور پھر اچھا، اخبار کا نام یہاں لکھا ہوتا ہے۔ میں سمجھا، ویسے ہی کوئی ڈیزائن بنا ہوا ہے۔
میں نے پوچھا آپ اخبار بھی نہیں پڑھتے، ٹی وی بھی نہیں دیکھتے، پھر آپ کو خبریں کہاں سے ملتی ہیں۔ کہنے لگے، ہمارے اپنے سوشل میڈیا سے، وہ بالکل سچی خبریں دیتا ہے۔ یو ٹیوب ہے، ٹویٹر ہے، فیس بک ہے، ٹک ٹاک ہے۔
یہ پرسوں کی بات ہے، کل گلی میں نکلا، چلتے چلتے ان کے گھر کے سامنے سے گزرا تو دیکھا، درازے پر کھڑے اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر روہانسے ہو گئے۔ آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں، چہرہ شدید غم سے بجھا ہوا تھا، لگتا تھا ابھی آنسو بہہ نکلیں گے۔ پوچھا، کون مر گیا۔ کہنے لگے، نہیں مرا تو کوئی نہیں، حکومت نے بجلی سات آٹھ روپے یونٹ سستی کر دی ہے۔ فسطائی حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ اب مرشد کیسے رہا ہوگا۔
تسلی دی کہ فکر نہ کرو، کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ پوچھا، کیا مطلب؟ عرض کیا، حکومت بجلی سستی نہ کرتی، مرشد نے پھر بھی رہا نہیں ہونا تھا۔ سستی کر دی تو سبھی رہا نہیں ہوگا، مطلب یہ کہ کوئی فرق نہیں پڑا چنانچہ بے فکر رہو۔
***
یہ اس ہفتے کا پہلا غم نہیں تھا، پچھلے ہفتے بھی مٹھائی کا ڈبہ لے کر آئے تھے۔ بتایا، مرشد کو امن کا نوبل انعام مل گیا ہے۔ حکومت والوں پر تو بجلی گر پڑی ہے۔ حیران ہو کر پوچھا، کب ملا؟ بولے، بس مل ہی گیا سمجھو، نامزدگی ہوگئی ہے، بس رسمی کارروائی ہونا باقی ہے۔ خیر، انھیں مبارکباد دی۔
بعد میں نیٹ پر سرچ کیا تو پتا چلا کہ نامزدگی کی تاریخ گزرنے کے ایک مہینے بعد ناروے کی ایک نومولود سیاسی پارٹی نے ایک خط میں یہ نامزدگی کی، اس پارٹی نے پچھلے الیکشن میں سارے ملک سے مل ملا کر سات ہزار ووٹ لیے تھے۔ پچھلے ماہ امریکا سے تھوڑی خوشی زیادہ غم پارٹی کے کچھ عہدیدار ناروے آئے تھے اور اس پارٹی سے کہا کہ اگر تم یہ سٹنٹ، کر ڈالو تو ہم اتنے پیسے دیں گے اور اگلے الیکشن میں پاکستانیوں کے ووٹ لے دیں گے۔
پارٹی نے فرمائش مان لی اور سٹنٹ، کر دیا۔ لیکن ہوا یہ کہ نوبل انعام کمیٹی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو اس پر ینک، کی خبر پہنچی تو وہ سخت ناراض ہوئے اور اخبارات میں چھپوا دیا کہ خبر جھوٹی ہے اور یہ کہ امن انعام کی پوری تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی نے سیاسی ڈراما کرکے نوبل انعام کے وقار کو اس طرح ٹھیس پہنچائی ہو۔
مٹھائی لانے والے کو بھی اس پرینک، کا پتا چل گیا ہوگا اور اس بات کا بھی کہ سٹنٹ کرنے والوں نے یہ کارنامہ کرکے مرشد، کی بھد اڑا ڈالی۔ بہرحال، ان سے پوچھ کر انھیں شرمندہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ویسے کوشش کر لیتا تو بھی فائدہ کچھ نہ ہوتا، شرمندہ ہونے کے عارضے انھیں لاحق ہی نہیں ہوتے۔ جب مرشد اوکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر، منتخب ہوئے تھے، یہ تب بھی شرمندہ نہیں ہوئے تھے۔ ارے، سطر لکھنے میں غلطی کر دی۔ تصحیح خود ہی فرما لیجیے، اس انتخاب کا ماجرا آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں۔
***
جیسا کہ عرض کیا، یہ تیسرا ڈبہ مٹھائی کا تھا۔ اس مہینے کا پہلا ڈبہ وہ اس خبر کے ساتھ لائے تھے کہ صدر ٹرمپ کے دست راست ایلن مسک پاکستان تشریف لانے والے ہیں۔ وہ اڈیالے میں مرشد سے ملیں گے اور ٹرمپ کا خصوصی پیغام انھیں پہنچائیں گے۔ پھر ملک کی ساری صورتحال پر رپورٹ لکھیں گے، اس میں سفارشات ہوں گی وہ یہ سفارشات انھیں پیش کریں گے جن کے وہ دست راست ہیں، ان سفارشات کی روشنی میں ٹرمپ راست اقدام کرتے ہوئے، مرشد کو نہ صرف رہا کروائیں گے بلکہ پھر سے وزیر اعظم بھی بنوائیں گے۔ بس دیکھتے رہنا، وزیر اعظم بن کر مرشد کسی کو نہیں چھوڑیں گے، حافظ صاحب کو بھی۔۔
اگلے دن پتا چلا کہ ٹرمپ جی نے اپنے دست راست کو برطرف کر دیا ہے__مطلب ان سے استعفیٰ لے لیا ہے۔ ایلن مسک کے ساتھ ہی برے دن بھی آئے ہوئے ہیں، ان کا دھندا 13 فیصد حد تک مندا ہوگیا ہے۔
مٹھائی لانے والے موصوف اس سانحہ، سے ابھی تک بے خبر ہیں کہ اخبار وہ پڑھتے ہیں، ٹی وی وہ دیکھتے ہیں اور ان کے سوشل میڈیا نے یہ خبر دی ہی نہیں کہ دست راست کا چپ راست ہوگیا ہے۔
***
پھوٹ سے بڑی پھوٹک ہوتی ہے۔ تھوڑی خوشی زیادہ غم پارٹی خیبر پختونخوا میں ان دنوں پھوٹک پڑی ہوئی ہے اور اس پھوٹک کی وجہ سے کئی چھوٹے بڑے بھانڈے پھوٹ رہے ہیں۔ ایک میڈیم سائز کا بھانڈا یہ پھوٹا کہ کوئی وزیر جھگڑا نام کے ہیں (ارے وہی جھگڑا صاحب جنھوں نے مرشد کے حکم پر آئی ایم ایف کو خط لکھا تھا کہ پاکستان کا دانہ پانی بند کر دو۔)، انھوں نے 36 ارب روپے کی کرپشن کر ڈالی۔
اس بھانڈے کو میڈیم، سائز اس لیے کہا کہ اس صوبے میں اس سے کہیں بڑے بہت سے بھانڈے ہیں جو پھوٹنے کے منتظر ہیں۔