اور ہم ہو گئے سرفہرست
اوپر کی سطح پر کچھ حساس قسم کے بحران چل رہے ہیں، جن پر کچھ لکھنا کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام والا معاملہ ہے۔ نیچے کی سطح پر حالات کے دھارے کچھ اور ہیں کہ زیست دشوار سے دشوار ہوئی جاتی ہے بلکہ دشوار سے دشوار کی جا رہی ہے۔ پلس نامی ادارے کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ اس آبادی کی شرح 68 فیصد ہو گئی ہے، جو اب اپنے اخراجات پورے نہیں کرپاتے، یعنی ٹھیک سے روٹی بھی نہیں کھا پاتے۔ سروے مہینہ بھر پہلے کیا گیا تھا، اب تو یہ 68 فیصد 70 فیصد ہو گئے ہیں۔ باقی ہے تیس فیصد تو ان میں سے بیس فیصد کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کب تک خبر سنائیں گے۔
جلد ہی یہ بیس فیصد بھی سینہ چاک ہو کر ستر فیصد سینہ چاکان چمن سے آ ملیں گے، یوں سینہ چاک آبادی کی شرح نوے فیصد ہو جائے گی اور پھر پیچھے رہ جائیں گے وہ دس فیصد جن کے لیے یہ ریاست مدینہ کے دعویدار لائے گئے ہیں۔ دھمکی وزیروں کی یہ ہے کہ ابھی سے کیا روئے ہو، ابھی تو اور ٹیکس لگیں گے، یہ نرخ ابھی کہاں گراں ہوئے ہیں، ابھی تو گراں ہونے ہیں، پر سرگرانی کا مرحلہ ہوگا۔ رب خیر کرے۔
٭اکانومسٹ کی تازہ رپورٹ نے وزیراعظم کی اس بات کو سچ ثابت کردیا، جس پر کچھ نامعقول عناصر نے مذاق اڑانے کی کوشش کی تھی۔ وزیراعظم نے کہا تھا، پاکستانیوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، دنیا کے کئی ممالک سے پاکستان ابھی بھی سستا ملک ہے۔ اس پر نامعقول عناصر نے کہا تھا کہ جی نہیں۔ پاکستان میں مہنگائی حد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اکانومسٹ نے بتا دیا کہ ارجنٹائن، برازیل اور ترکی پاکستان سے بھی مہنگے ملک ہیں۔ یوں وزیراعظم کا کہا گیا سچ نکلا۔ اب یہ سوال مت اٹھائیے کہ یہ تینوں ملک پاکستان سے زیادہ مالدار بھی تو ہیں، ان کی فی کس آمدنی پاکستانیوں کی فی کس کو آمدنیوں سے کئی گنا زیادہ ہے (ترکی 27 ہزار 780 ڈالر فی کس، پاکستان چار ہزار ڈ الر فی کس)۔ بات زیادہ مہنگائی کی تھی، فی کس آمدنی کی نہیں تھی۔
یہ سوال بھی سراسر نامعقول اور غیر معقول ہو گا کہ آج سے تین برس پہلے کتنے ملک تھے جن سے پاکستان سستا تھا۔ اعزاز کی بات پر ناز کرنے کی ضرورت ہے اور اعزاز کی بات یہ ہے کہ پاکستان اس حوالے سے دنیا کے چار سرفہرست ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ تبدیلی کا ایک اور ٹھوس نتیجہ جس کا اعتراف گراس روٹ پر کیا جانا چاہیے۔ ہاں، یہ بات تو ذکر ہونے سے رہ گئی کہ افغانستان بھی ہم سے سستا ملک ہے۔
٭سرفہرست تو پاکستان ایک اور معاملے میں بھی آیا ہے۔ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے رول آف لا جسٹس کی تازہ رپورٹ کے مطابق کرپشن، بنیادی حقوق کا چدم وجود، امن و امان اور سکیورٹی امور اور گورننس کے معاملات میں پاکستان دنیا کے 9 بدترین ممالک میں شامل ہے۔ دس ممالک کی فہرست بنائی جائے تو دسواں افغانستان ہوگا۔ یعنی ہم قریب قریب افغانستان کے ہم پلہ ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، خطے کے تمام ممالک سمیت آٹھ کے علاوہ دنیا کے باقی تمام ممالک پاکستان سے بہتر ہیں۔ یہ بات آپ کو بری لگی ہے۔ کوئی بات نہیں، ہم اسے مثبت زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں، یعنی وہی سرفہرست ممالک کی بات کے حوالے سے۔ یعنی ہم دنیا کے 9 سرفہرست ممالک میں شامل ہیں اور سرفہرست ہونا ہر لحاظ سے باعث فخر و ناز و رنگیں و طمانیت ہے۔ امید ہے تبدیلی کے پرستار خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔
٭ڈالر اوپر سے اوپر جا رہا ہے کیوں؟ معقول عناصر کے مطابق اس کی وجہ ماضی کی حکومت یعنی نواز حکومت کی کرپشن اور بالخصوص ایون فیلڈ فلیٹس کی خریداری ہے۔ اس کے برعکس نامعقول عناصر اسے سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیتے رہے ہیں یعنی یہ کہ کچھ قرب و جوار میں واقع اے ٹی مشینوں کو نوازا جارہا ہے۔ نامعقول عناصر یعنی محرر ایں سطور نے چند ماہ قبل لکھا تھا اور چھپ بھی گیا تھا کہ اس سال دسمبر تک ڈالر 175 روپے کرنے کا طے ہو چکا ہے۔ یہ نومبر ہے اور خیر سے ڈالر 174 کا ہو بھی چکا۔ اور یہ بھی لکھا تھا کہ 2022ء تک اسے 200 روپے کا کر دیا جائے گا۔ گورنر سٹیٹ بینک نے جو اس سے قبل سربیا اور مصر کی معیشتوں کو اوپر پہنچا چکے ہیں انکشاف کیا ہے کہ اس سے سمندر پار پاکستانیوں کا بھلا ہوگا۔ ماشاء اللہ۔
یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، موصوف نے یہ بھی فرما دیا۔ پرانی بات یاد آ گئی، محلے میں چوریوں کی وارداتیں بہت بڑھ گئیں۔ محلہ کمیٹی کے منتظم نے تسلی خاطر رکھنے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے آپ کا نقصان ہورہا ہے تو کئی گھرانوں کا بھلا بھی ہورہا ہے۔ کاش وہ منتظم صاحب زندہ ہوتے۔ بہرحال اسے کہتے ہیں وژن، یہ ہوتا ہے لیڈر۔
٭آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈالر کے نرخ مزید بڑھائے جائیں۔ یعنی وہی بات کہ سال کے آخر تک ڈالر دو سو روپے کا کیا جائے۔ اگلے سال کیا نرخ ہوں گے، اس کا حکم تو اگلے سال ہی آئے گا۔ نہ بھی آیا تو پتہ چل جائے گا۔ ماہرین معاشیات تو ناکام ہو گئے، اناڑیان معیشت کی مانی جائے، شاید یہ مسئلہ حل ہونے میں مدد مل سکے۔ چنانچہ اناڑیان معیشت کی تجویز ہے کہ پاکستان کی سرکاری کرنسی روپے کے بجائے ڈالر کو قرار دے دیا جائے۔ نہ رہے گا روپیہ نہ ہوگا اس کی رسوائی اور پامالی کا مطالبہ۔ ڈالر پاکستان کا سرکاری سکہ ہو گا تو اس کی ڈی ویلیویشن کا مطالبہ نہ آئی ایم ایف کرے گا نہ ورلڈ بینک۔