عقل، عورت اور علم

خبر آئی ہے کہ ٹی ٹی پی کے مسلح کارکن پشاور کی سڑکوں پر گشت کرتے دیکھے گئے ہیں۔ خبر کیا، سوشل میڈیا پر ان کی گشت کرتے ہوئے وڈیو بھی گشت کر رہی ہے اور احباب اس پر طرح طرح کے تبصرے بھی کر رہے ہیں۔ خبر کے مطابق کچھ دیر گشت کرنے اور تصویریں بنوانے کے بعد یہ لوگ اپنے اڈوں کی طرف لوٹ گئے۔
ایک لحاظ سے یہ "تعارفی گشت تھی، یعنی اسے رونمائی بھی کہا جا سکتا ہے، سابق مکھیہ منتری گنڈاپور کے زمانے میں ٹی ٹی پی کو ہدایت تھی کہ سارا صوبہ آپ کا گھر ہے بس پشاور کو معاف رکھئیے گا کیونکہ کچھ بھرم ہمارا بھی رہ جائے لیکن لگتا ہے، نئے مکھیہ منتری شری سہیل آفریدی نے پشاور بھی ان کے حوالے کر دیا ہے
سپردم بہ تو مایہ خویش را
چنانچہ آنے والے دنوں میں یہ لوگ پشاور کی سڑکوں پر صبح شام پریڈ کرتے ہوئے نظر آئیں تو کچھ عجیب نہیں۔ سیاں بنے کوتوال ڈر کاہے کا والا محاورہ ایسے ہی تو موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔
***
شاید میری ہم عمر نسل کے لوگوں کو یاد ہو کہ کسی زمانے میں لاہور سے ایک طنز و مزاح کا رسالہ نکلا کرتا تھا۔ عوامی اور سستے مزاح کا یہ رسالہ وحشی مارہروی مرحوم "چاند" کے نام سے نکالتے تھے اور اس کے ادارتی صفحے پر رسالے کا "نصب العین" بھی لکھا ہوتا تھا، یہ کہ ہم عقل عورت اور علم کے دشمن ہیں۔
یہ رسالہ بند ہوگیا۔ 50 سے 1970 کے درمیان بلکہ بعد تک بھی نکلتا رہا۔ کون جانتا تھا کہ عقل عورت اور علم کی دشمنی کا یہ مزاحیہ نعرہ ٹی ٹی پی کی شکل میں "سنجیدہ مشن" میں ڈھل جائے گا۔ صرف ٹی ٹی پی نہیں بلکہ پوری تحریک طالبان ہی کا "موٹو" یہی ہے۔ علم سے نفرت اس درجے کو پہنچی کہ افغانستان کے حکمران ملّا ہیبت اللہ نے کچھ دن پہلے یہ اعلان کیا کہ عورتیں قرآن پاک کی تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔ طلبہ کے سکولوں کو یہ لوگ بموں سے اڑا رہے ہیں اور طالبات کیلئے سکول کوئی ہے ہی نہیں کہ اسے بھی اڑا دیں۔
عورت دشمنی کا عروج یہ کہ اب نیا حکم آ گیا۔ یہ کہ عورتوں کے علاج پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ کہہ کر علاج تو مرد ڈاکٹر کرتے ہیں (افغانستان میں لیڈی ڈاکٹر نام کی مخلوق تو ہوتی ہی نہیں) اور غیر محرم مرد کے پاس کسی عورت کا جانا غیر شرعی ہے لہٰذا جو بھی عورت بیمار ہو، وہ گھر پر رہ کر موت کا انتظار کرے۔ عورت کی تعریف میں عمر کا تعین نہیں کیا گیا۔ مطلب نوزائیدہ بچی بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کرانا بھی ممنوع ہوگا کیونکہ بھلے سے نوزائیدہ ہے، جنس تو عورت کی ہے۔
عورت کو جہاں دیکھو، سنگسار کر دو یا کوڑے مار دو والے حکم پر عملدرآمد تو پہلے ہی ہو رہا ہے۔
کل کی خبر ہے، ٹانک کے علاقے میں ایک ہی پرائمری سکول بچ گیا تھا، وہ بھی ٹی ٹی پی والوں نے بم لگا کر اڑا دیا۔
***
عقل علم کے دشمنوں سے یاد آیا، ہمارے ملک میں کچھ "دینی" دانشور بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ دانشور لگ بھگ تین چار سال سے، یعنی جب سے مرشد کا "ہبوط" ہوا ہے، یہ بشارتیں دیتے آ رہے ہیں کہ طالبان عنقریب غزوہ ہند کرنے والے ہیں اور ان کی قیادت کوئی اور نہیں، "مرشد" کرے گا۔
تو دو ہفتے پیشتر ان کی یہ بشارت پوری ہوگئی۔ طالبان کا وزیر خارجہ ملاّ لالہ امر کھنڈ ٹاکیہ نئی دہلی جا پہنچا، نریندرا مودی کے چرن چھوئے، اس کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ملتمس ہوا کہ پیرومرشد، ہم نے پاکستان کے خلاف "غزوہ ہند" کرنا ہے، کچھ نقد نارائن دان ہو جائے۔ کر بھلا ہو بھلا۔
***
مودی نے ملاّ ٹاکیہ کو الکھ نرنجن کا درشن کرایا جس کے بعد ملاّ جی دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ دارالعلوم والوں نے انہیں شیخ الحدیث کی اعزازی سند دی اور دستار بندی کی۔
مودی کی زیارت اور بیعت سے مشرف ہونے کے بعد یہ دستاربندی ان کا حق بنتا تھا۔ کچھ لوگ اس پر معترض ہوئے کہ ایسے رام پیارے کو سند حدیث کیوں دی۔
یہ معترض حضرات اس وقت نہ جانے کیا کریں گے جب دارالعلوم والے آدتیہ ناتھ یوگی کو شیخ التفسیر اور شری نریندرا مودی کو شیخ الاسلام کی دستار پہنائیں گے۔ اگر ملا ٹاکیہ کی دستار بندی ہو سکتی ہے تو ان دونوں کی کیوں نہیں جو فضیلت میں ملاّ جی سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
***
بالآخر تحریک لبیک کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ادھر ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریک لبیک نے اب تک کے جلوسوں میں پولیس والوں سمیت 200 افراد کو قتل کیا۔ ان میں بیشتر شہری تھے۔ انہیں بلاوجہ مارا گیا۔ بعض کے گلے کاٹے گئے، کچھ کو گولیاں ماری گئیں، کچھ کے سر پتھر اور ہتھوڑوں سے کچل دیئے گئے۔ کیا یہ شوقیہ قتل تھے؟
چلئے، خیر، ایک "باب الفتنہ" تو بند ہوا

