یہ مسکین مشیر
حکمرانوں کے مشیروں کی طرح ہمیں بھی مشورے بہت سوجھتے ہیں لیکن سرکاری مشیروں اور ہمارے درمیان فرق یہ ہے کہ یہ لوگ حکومت کو ایسے مشورے دیتے ہیں جن میں وہ خود بھی کہیں نہ کہیں فٹ ہو سکیں اور ہم ایسے مشورے دینے کی کوشش کرتے ہیں جس میں پاکستان فٹ ہو سکے۔ ہم دونوں طبقوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ ہمیں صرف اسی صورت میں کچھ مل سکے گا جب اس ملک کو کچھ ملے گا لیکن سرکاری مشیروں کو اس سے کوئی غرض نہیں، ملک کو کچھ ملے نہ ملے ان کی یافت فوراً شروع ہو جاتی ہے۔
یہ چند الفاظ اس لیے لکھ دیے ہیں کہ آج حکومت کو مشورہ دینے کو پھر جی چاہ رہا ہے اور مشورے پر ایک پشتو کہاوت نے اکسایا ہے۔ کہاوت کے مطابق "ایک مسکین مولوی کی اذان پر کوئی روزہ بھی افطار نہیں کرتا"۔ روزے دار کی افطار کے لیے بے چینی ذہن میں رکھئے تب اس کہاوت کا لطف آئے گا۔ پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج مسکین پاکستان کی سانس گلے میں اٹکی ہوئی ہے کیونکہ اسے کھربوں روپے کے قرضے ادا کرنے ہیں اور ان کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے مگر جیب خالی ہے۔
پاکستان جیسے مالا مال ملک پر یہ وقت کیوں آیا اور کیوں مسلسل جاری ہے اس کی وجوہات بار بار بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ قوم یہ بات جان چکی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ پاکستان کو مسکین بنانے والوں کا یومِ حساب کب آئے گا۔ ہمارے وزیر اعظم بھی پاکستان کو مسکین بنانے والے کے متعلق بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں اور اگر پاکستان میں وزیر اعظم بے بس ہے تو پھر اس سے بڑا تو کوئی عہدیدار نہیں جو ان مسکین بنانے والوں کو پکڑ سکے۔
ایک بات ذہن میں آ رہی ہے کہ ہم نے آج سے تقریباً دو دہائیاں پہلے افغانستان میں طالبان کی حکومت دیکھی ہے۔ کچھ وقت کے لیے ہم پاکستانی عوام افغانستان کے طالبان بن جائیں اور ہمارے حکمران بے شک طالبان کے حکمرانوں کی طرح درویش فقیر نہ بنیں صرف دیانتدار بن جائیں اور تھوڑے وقت کے لیے مجبوری سمجھ کر دیانتداری اختیار کر لیں۔ اگر ہم دو تین برس اس حال میں گزار لیں تو نہ صرف قرض ادا ہوں گے جیب میں کچھ بچ بھی رہے گا اور تب پاکستان کے مولوی کی اذان کسی مسکین کی اذان نہیں ہو گی۔
میرے گائوں میں میرے گھر کے سامنے کبھی کھادی کا کپڑا بننے کی کھڈی ہوا کرتی تھی۔ چاچا میرو جب کھڈی چلاتا تھا تو یہ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اس پڑوسی کے گھر چلا جاتا تھا۔ اس کھڈی اور اس طرح کی دو تین اور دیہی "ٹیکسٹائل ملوں " میں پورے گائوں کے کپڑے تیار ہوتے تھے اور گائوں کے لوگ نہ صرف یہ کپڑے پہنتے تھے بلکہ ان کے لحاف اور کھیس بھی اسی طرح تیار ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ والد صاحب کا تہہ بند تو چابی یا ڈی ون کے لٹھے کا ہوا کرتا تھا لیکن ان کے کرتے کا کپڑا چاچا میرو بنتا تھا اور جب وہ باریک دھاگے کی تانی شروع کرتا تھا تو اعلان ہوتا تھا کہ اب دوسرا کپڑا یہ تانی ختم ہونے کے بعد ہی بننا شروع ہو گا۔ گندم، باجرہ کھیت میں پیدا ہوتا تھا سبزیاں بھی گائوں کی اپنی ہوتی تھیں اور اس سادہ پلوشن فری زندگی میں بیماریاں بہت ہی کم ہوتی تھیں۔ اس طرح کسی "بیرونی امداد" کے بغیر میرے گائوں اور پاکستان کے دوسرے دیہات کی زندگی گزر رہی تھی۔
ابتدائے پاکستان میں حکمران بھی دیانتدار تھے جنھوں نے دنیا بھر کی یہ پیشگوئی غلط ثابت کر دی کہ پاکستان چل نہیں سکے گا، معاشی اعتبار سے یہ ایک غلط ملک ہے۔ اس کے بعد ہم نے ترقی شروع کر دی جو ضروری بھی تھی اور اس میں ہمارے حکمرانوں کی بددیانتی کی خواری بھی تھی۔ اس کے بعد کی دیکھی بھالی زندگی بلکہ بھگتی ہوئی زندگی پر میں بحث نہیں کرتا۔
عرض صرف یہ کرنی ہے کہ جس طرح ہم میں سے کوئی مقروض ہو تو قرض کی ادائیگی کے لیے اپنی ضروریات کم اور آمدنی بڑھانے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح ہم سب اگر اپنی قومی آمدنی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مخصوص کر دیں اور اپنی زندگی میں مخصوص وقت کے لیے سادگی پیدا کر لیں تو شائد ہم تمام یا بہت جلد سارے قرضے اتار سکیں گے۔
لیکن میرے اس مشورے پر عوام تو شائد کان دھر لیں لیکن حکمرانوں کے تو کان ہی بند ہیں، ان تک آواز پہنچانے کے لیے ان کے کان اور آنکھیں کھولنی ضروری ہیں تا کہ وہ اپنی کھلی آنکھوں سے عوام کی حالت زار دیکھ لیں اور اپنے کانوں سے ان کی آہ و بکاء سن لیں۔ ہمیں اپنے مولوی کی مسکینی دور کرنے کے لیے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اقدامات کرنے ہوں گے اور دیانتدارانہ اقدامات ہماری مسکینی دور کرنے میں معاون ہوں گے۔
یہ ایک آزمایا ہوا نسخہ ہے جس پر خرچ کچھ نہیں آتا لیکن اس سے آمدنی بہت ہوتی ہے اور جب تک یہ رویہ جاری رہتا ہے یہ آمدنی بھی جاری رہتی ہے۔ آمدنی ایک ایسی نعمت ہے جو کچھ محنت اور بچت سے جاری ہوتی ہے اور ہوتی ہی چلی جاتی ہے۔ بس یہی ایک کامیاب زندگی ہے اور اسی میں فرد اور قوم کی خوشحالی ہے۔ یہ خوشحالی ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اب یہ ہماری مرضی کہ ہم کون سی زندگی اختیار کرتے ہیں۔ خوشحالی والی یا محتاجی والی۔