سیاست کا نیا رخ
قدرے سمجھدار پاکستانی اپنے سیاست دانوں کی شعبدہ بازیوں کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہیں کہ یہ کیا بے معنی تماشہ ہو رہا ہے۔ ان پاکستانیوں نے بہت سیاسی جماعتیں بھی دیکھیں اور ان کے جلسے جلوس بھی لیکن ہر ایک کا کوئی مقصد اور کوئی وجہ ہوا کرتی تھی اور لوگ اس سے اتفاق کر کے اس کا ساتھ دیتے یا اختلاف کرتے ہوئے اس سے الگ رہتے۔
اسلام آباد پر سیاست دانوں کی چڑھائی کی روائت موجودہ حکمرانوں نے ڈالی اور اب یہ اپنی اس روائت کو بھگت رہے ہیں لیکن ایک بات ان کے حق میں جاتی ہے کہ موجودہ حکمران عمران خان صرف اور صرف پاکستانی ہیں، وہ پاکستان سے ہی وفاداری رکھتے ہیں اور ان کا واحد پتہ پاکستان ہے، کوئی دوسرا ملک نہیں، ان کانفع نقصان سب یہیں ہے۔
عمران خان کا پاکستانی سیاست میں ایک مقام بنا ہے جس کے لیے انھوں نے ایک طویل سفر طے کیا ہے لیکن وہ اپنی سادگی کی وجہ سے سیاست کے داؤ پیچ اور گر نہیں جانتے۔ ان کی واحد طاقت عوام ہیں جن کی اکثریت ابھی تک ان کے ساتھ کھڑی ہے اور یہی کسی بڑے سیاستدان کی نشانی ہے۔
اسلام آباد پر تازہ چڑھائی کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن نے عمران خان کو دو دن کی مہلت دی ہے کہ وہ وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ مولانا کا خطاب ٹیلی ویژن کی اسکرینوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ امید تھی کہ مولانا اپنی خطابت کا جادو جگائیں گے اور قوم کو اپنی پراثر باتوں سے جذباتی کر دیں گے لیکن انھوں نے قوم سے مخاطب ہونے کی بجائے یہ کہہ کر اپنا مدعا واضح کر دیا کہ وہ جن کو اپنی بات سنانا چاہتے ہیں وہ بھی ان کی بات سن لیں۔ ہماری معصوم قوم جو ماضی میں دھرنوں کے نعروں پر واہ واہ کرتی رہی، راتوں کو جاگتی رہی اور کسی مبہم فرضی انقلاب اور نئے پاکستان کے نعرے لگاتی رہی اس قوم کو ایک بار پھر اسی طرز سیاست میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے ماضی میں اس کو کچھ مل نہیں سکا تھا۔
ستر برسوں تک زبردست اور گوناگوں سیاسی زندگی بسر کرنے والی قوم کوئی ایسا لیڈر تلاش کرنے میں ناکام نظر آتی ہے جو اس کو بکھرنے سے بچا سکے۔ اس قوم کو بڑی مشکل سے دو بڑی طاقتوں برطانوی سامراج اور ہندو مت سے لڑ کر یہ ملک ملا۔ مسلمانوں لیڈروں نے اپنی سیاسی فراست اور بصیرت سے یہ معجزہ کر دکھایا۔ اس طرح یہ قوم ایک بہت بڑی سیاسی سرگرمی سے ہو کر گزری اس کے بعد فوجی آمریت نے بھی اس ملک کی راہ دیکھ لی لیکن جمہوریت بھی موقع پا کر آتی رہی جس پر اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
سیاست کا نیا انداز قوم کا دیکھا بھالا ہے۔ دھرنوں میں عوام کی شرکت سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ جب حکومت سے تنگ آ جاتے ہیں تو اپنے کسی سیاسی رہنما کے پیچھے چل پڑتے ہیں وہ اس میں اپنی سلامتی کی کوئی راہ دیکھتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کا قائد ان سے مخلص ہو اور ان کو سیدھے راستے پر لے جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے مطالبے کی بات کی جائے تو ایک آدمی جو طویل جدو جہد کے بعد وزیر اعظم کے منصب تک پہنچا ہے کیا وہ کسی ہوائی نعرے پر وزرات عظمیٰ جیسے منصب سے بلاتکلف اور بلا تامل مستعفی ہو جائے گا، یہ کوئی بے قرار لیڈر ہی سوچ سکتا ہے۔
درست ہے کہ عمران خان اپنے دعوؤں اور وعدوں کے برعکس عوام کو سہولتیں دینے میں ناکام رہے ہیں لیکن ایسی حکومت کو بھی وہ اتنی آسانی کے ساتھ کیسے چھوڑ سکتے ہیں جب تک عوام ان کو الیکشن پر مجبور نہ کر دیں یا ملک کے وسیع تر مفاد میں فوج نہ آ جائے جو ان دنوں حکومتی امور سے زیادہ ضروری قومی خدمت میں مصروف ہے۔ مطالبہ تو کوئی سیاستدان کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن یہ کام ذرا دیکھ بھال کر کیا جائے تو مناسب ہوتا ہے کہ عزت بھی بچ جاتی ہے سیاست بھی مجروح نہیں ہوتی اور مخاطب کو ضرب بھی شدید لگ جاتی ہے۔ عمران خان سے بہتر دھرنا سیاست کون جانتا ہے۔ انھوں نے اپنے دھرنے کو بھی بھگتا ہے اور بڑی مشکل سے عزت بچا کر واپسی کی راہ لی تھی۔
امام الہند مولانا آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا تو کسی دوسرے دانشور نے اس میں اضافہ کیا کہ سیاست کی آنکھ میں شرم و حیا بھی نہیں ہوتی۔ سیاست نفسا نفسی اور خود غرضی کا کھیل ہے اور سیاستدان اپنے آشیانے بدلتے رہتے ہیں اور کسی سر سبز شاخ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مولاناکا مطلب یہ ہے کہ سیاستدانوں کا دل درد مند نہیں ہوتا لیکن ہم نے ایسے سیاستدان بھی دیکھے اورسنے ہیں کہ ان کے پاس دل تو ہوتا ہے مگر پتھر کا ہوتا ہے یعنی سنگ خارا۔ ان کا کوئی وعدہ کبھی وفا نہیں ہوتا اس لیے حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن حکومت کے ساتھ آزادی مارچ کے لیے کیے گئے معاہدے سے پھر گئے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ بھی سیاستدان ہیں اور ان کے ساتھ مذہبی تڑکا بھی لگا ہوا ہے۔
مولانا نے وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے کے لیے دو دن کا وقت دیا ہے جب کہ عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ فضل الرحمٰن بھارتی شہری ہیں بھارتی میڈیا میں مسلسل ان کی پذیرائی جاری ہے۔ کشمیر جیسے اہم ترین مسئلے کے بیچوں بیچ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا اعلان کیا اور پھر اس پر عمل درآمد بھی کر دیا۔ یہ بات ہر ذی شعور سمجھتا ہے مسئلہ کشمیر جو ستر برسوں کے بعد ایک طاقت بن کر سامنے آیا تھا اور دنیا بھر میں پاکستان نے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کر دیا تھا، اس مقدمے کو مولانا کا آزادی مارچ کمزور کرنے میں پیش پیش رہا ہے اور ہمیں اندرونی طور پر جو اتفاق اور یگانگت مسئلہ کشمیر پر درکار تھی وہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ جس پر دشمن بھارت میں بجا طور شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔
عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک کچھ وقت کے لیے موخر کی جا سکتی تھی لیکن مولانا نے اپنے اپوزیشن کے اتحادیوں کی بات پر بھی کان نہ دھرا اور اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور عمران خان کے ساتھ فوج کو بھی للکار رہے ہیں۔ کیا ستر برسوں میں ہم نے یہی کچھ سیکھا ہے کہ اپنے ہی اداروں کو مورود الزام ٹھہراتے رہیں۔ شکر ہے کہ پاکستان قوم کے بانی اب اس دنیا میں نہیں ورنہ اس اندھا دھند سیاست بازی پر وہ ہمیں بنچ پر کھڑا کر دیتے۔ ہمیں اپنا خیال خود کرنا ہے کہ کہیں ہم اونچے نیچے ٹیڑھے راستوں پر بے دھیانی میں چلتے چلتے کہیں گر نہ جائیں اور ہمیں کوئی اٹھانے والا بھی نہ ہو۔