سیاحت کے لیے بے مثال پاکستان
سطح سمندر سے صرف چند فٹ اونچائی سے لے کر دنیا کی بلند ترین سرزمینوں تک بچھے اور پھیلے ہوئے میرے وطن عزیز کا ذرہ ذرہ بے مثال ہے، اس کی سر بلند چوٹیوں کے نظارے انسانی عقل کو مبہوت کر دیتے ہیں۔
شمالی پاکستان کے دروں اور وادیوں میں سے ابھرتی ہوئی ان چوٹیوں میں ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں سے طلوع آفتاب کا نظارہ کرنے والے سوچتے ہیں کہ کیا جنت کا کوئی منظر اس سے بھی دلفریب ہو گا۔ طلوع آفتاب کے وقت یوں لگتا ہے جیسے کسی نے رنگ رنگ کے کروڑوں ہیرے جواہرات یکایک فضا میں اچھال دیے ہیں اور آتشبازی کے لاتعداد رنگوں نے زمین کے ان بلند ترین نظاروں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس منظر کو جو چند ثانئے برقرار رہتا ہے بیان کرنے کے لیے انسان الفاظ تلاش نہیں کر سکا۔
دنیا میں کوئی دوسرا مقام ایسا نہیں جہاں سے طلوع آفتاب کی ایسی سج دھج دیکھی جا سکے۔ یہ منفرد ہے، صرف پاکستان کے لیے مخصوص ہے۔ قدرتی جغرافیہ نے یہ زاویہ صرف اسی مقام کو عطا کیا ہے جو شمالی پاکستان کی اس پہاڑی پر واقع ہے اور انسانی دسترس میں بھی ہے۔ مگر ان خوش نصیبوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں جنھوں نے کسی سرد صبح کو قدرت کے اس پاکستانی عطیہ کو دیکھا ہو۔ جنھوں نے دیکھا وہ پہروں گم سم رہے اور پھر کئی صبحوں تک مطلع صاف ہونے کا انتظار کرتے رہے۔
ان چوٹیوں پر جمی رہنے والی برف اور آسمانوں کو دیکھتے رہنے والے درختوں میں سے بہتے پانیوں کے ساتھ ساتھ نیچے اتر کر کوئی مسافر جب ان صحرائوں تک جو چولستان سندھ اور بلوچستان میں بچھے ہوئے ہیں، پہنچتا ہے تو وہ بالکل ایک دوسرا منظر دیکھتا ہے، ایک ایسا منظر جو بہت کم صحرائوں کے نصیب میں ہے۔ صحرائی عرب اپنے ریگستانوں کو چھوڑ کر پاکستان کے ان صحرائوں میں آتے ہیں اور یہاں ایسے نظارے دیکھتے ہیں کہ یہاں ڈیرے لگا اور بنا لیتے ہیں۔
ہزارہا برسوں سے نسل در نسل بادیہ نشین عربوں کا پاکستانی صحرائوں کو یہ خراج تحسین ہے۔ یہ صحرا دیکھ کر ان عربوں کو اپنے سب سے بڑے شاعر امراء القیس کے قصیدے کا وہ منظر ضرور یاد آتا ہو گا جو اس نے اپنی محبوبہ کے فراق میں اس کی خیمہ گاہ کو دیکھ کر یوں کھینچا تھا کہ اس کے قبیلے نے دخول اور حومل نامی دو ٹیلوں کے درمیان خیمے ڈال دیے تھے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں شمال اور جنوب دونوں طرف سے چلنے والی ہوائیں رواں ریت کو سوئی دھاگے کی طرح پروتی اور بُنتی رہتی ہیں۔ میرے دوستو ذرا ٹھہرو اور مجھے اس منظر کی یاد میں آنسو بہا نے دو۔
پاکستان کے سر کشیدہ پہاڑوں پر دنیا کے کوہ دامن رشک کرتے ہیں اور اس کے صحرائوں پر عربوں کے صحرا۔ یہ میرا پاکستان ہے۔ یہاں کے انسانوں کے لیے قدرت کا انعام۔ ان دنوں سیاحت کے فروغ کے لیے حکومت پاکستان کے تاریخی شہروں، تاریخ کے کھنڈروں، تاریخ کے زندہ نمونوں اور قدرت کے عطا کردہ فرواں نظاروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ سیاحوں کی دلچسپی کا اتنا کچھ رکھنے کے باوجود ہم سیاحت کے صنعت سے محروم کیوں رہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نے پاکستان میں امن و امان کو بگاڑ رکھا جس کی وجہ سے سیاحوں نے ہم سے منہ موڑ لیا۔
پاکستان میں سیاست کا خزانہ خالی نہیں ہے، اس کی دلکشی کو کسی ساہوکار کی ضرورت نہیں صرف ہمیں خود اس شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ شروع دن سے ایک محکمہ موجود ہے مگر شجر کاری والے محکمے کی طرح وہ بھی کام نہیں کرتا اور شاید اس محکمے کے کارپردازوں کو بھی پوری طرح علم نہ ہو کہ ان کا خزانہ عامرہ کن حیران کُن اشیاء سے بھر پور ہے۔ عرض کرتا ہوں کہ ایک دن ایک باتصویر کتاب دیکھ رہا تھا جس میں لاہور کی مسجد وزیر خان کی عقبی دیوار کی تصویر تھی اور لکھا تھا کہ اس سے خوبصورت تاریخی دیوار دنیا میں کوئی اور نہیں۔
دنیا کے تاریخی عجائبات پر کسی غیر ملک کی چھپی یہ کتاب ہمیں بتا رہی تھی کہ جس دیوار کو ہم نے اوپلوں سے بھر رکھا ہے اور بھینسیں جس سے سینگ رگڑتی رہتی ہیں وہ کیا ہے۔ مرحوم عبداللہ چغتائی کی طرح چند سر پھرے لوگوں نے کچھ کام کیا تھا مگر وہ لوگ ان پرانی دیواروں پراپنے ذوق شوق کا لہو چھڑک کر گزر گئے اور ان کے بعد ہم ان در و دیوار میں شادیاں رچانے میں مصروف ہیں۔ اپنے آثار قدیمہ کا تحفظ کرنے کے بجائے ان کو ختم کرنے پر لگ گئے ہیں۔ سیاحوں کی دلچسپی کے لیے ہمیں آثار قدیمہ کے تحفظ سے آغاز کرنا ہو گا ان کی از سر نو مرمت کرنا ہو گی ان کے ماحول کو خوشگوار بنانا ہو گا کیونکہ ان کا متبادل کوئی نہیں ہے۔ یہ کوئی کارخانے یا فیکٹریاں نہیں جو نئی مشینری کے ساتھ آسانی سے بدلتی رہتی ہیں۔
جہاں تک بات ہے سیاحت کے فروغ کی تو اس کے لیے ہمیں ایک مخصوص ثقافت کی ضرورت ہے جن ممالک نے اس صنعت کو ترقی دی ہے انھوں نے اس کے مطابق کلچر بھی بنایا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اس وقت ترکی سر فہرست ہے جہاں اس صنعت سے وہ بہت مال کما رہے ہیں۔ حکومت بھر پور کوشش کر رہی ہے کہ وہ غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان لائیں جس کے لیے سیاحت کے متعلق لکھنے اور فضا ہموار کرنے والوں کو پاکستان بلایا جا رہا ہے جن کی وجہ سے پاکستان کے متعلق غیر ملکیوں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر برطانیہ کے شاہی جوڑے کی شمالی علاقہ جات آمد نے پاکستان کے سیاحتی تشخص کو دنیا میں اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
میں عرض کروں پاکستان کے دامن میں بہت کچھ ہے جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، بھارت کے پاس مسلمانوں کی چند عمارتیں ہیں، پاکستان کے مقابلے میں کم دلکش پہاڑ ہیں اور ایسا کوئی منظر نہیں جو پاکستان سے بہتر ہو لیکن وہاں محنت کر کے سیاحوں کی دلکشی کا سامان پیدا کیا گیا ہے۔ پاکستان کا ذہن بہت کچھ سوچ سکتا ہے، نئی راہیں نکالی جا سکتی ہیں۔ سیاحت کی ترقی کی چند تجاویز میرے پاس ہیں لیکن مجھے بہت ڈر لگتا ہے خصوصاً علمائے کرام کی ناراضی سے۔