موسم اور سیاست
موسم کی تبدیلی کا اثراسلام آباد کے موسم پر بھی ہورہا ہے ان دنوں اسلام آباد میں قدرتی موسم کی تبدیلی کے ساتھ غیر یقینی کیفیت بھی پائی جارہی ہے۔ اسلام آباد جتنی ٹھنڈ تو شاید دنیا کے کسی دوسرے دارالحکومت میں بھی ہو گی لیکن اتنا ابہام، مخمصہ اور غیر یقینی کی کیفیت شاید دنیا میں کہیں اور نہ ہو افغانستان میں بھی نہیں جہاں سے امریکا اپنا بوریا بستر لپیٹنے کے چکر میں ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں ہر شخص کی زبان پر سوال ہے کہ اب کیا ہو گا۔ ایوان کے مقتدر ایوانوں کے اندر مقتدر لوگ بھی یہی پوچھ رہے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ دن رات رہنے والوں کے دل و دماغ بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور اگر مبالغے سے کام نہ لیا جائے تو وزیر اعظم ہاؤس کے مقیم بھی اسی مخصمے کا شکار ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ اور یہ سوال مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے اعلان کے بعد پیدا ہوا ہے۔ ایک بے چینی کی کیفیت ہے اور ان دیکھے خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ …
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
چنانچہ سب سے بڑا ابہام تو یہی ہے۔ حکومتی کار پرداز اس صورتحال پر بوکھلائے پھر رہے ہیں مگر ہمارے وزیر اعظم کسی حد تک مطمئن نظر آتے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم محترم ظفر اللہ جمالی صاحب بھی اپنے مختصر دور اقتدار میں اپنے "باس" کی آشیر باد سے مطمئن تھے۔
سیانے لوگ کہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب اس طرح تلاش کیا جا سکتا ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی متبادل موجود ہے اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ستے خیراں ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آزادی مارچ کے امام کو پاکستان کی امامت سونپی جا سکتی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ بہرکیف اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں غیر یقینی کی کیفیت ہے اس پر طویل گفتگو ہو سکتی ہے لیکن میرا یہ خیال ہے کہ ہم سب کو کچھ انتظار ضرور کرنا چاہیے۔
قومی اسمبلی کی ہیئت ترکیبی کو اگر دیکھا جائے تو پریشانی لاحق ہونا فطری عمل ہے کہ اسمبلی میں اتنی بڑی اپوزیشن موجود ہے کہ قائد ایوان کی حکومت چند اکثریتی ووٹوں کے ناتواں کندھوں پر کھڑی ہے اور یہ بات معلوم نہیں کہ یہ ناتواں کندھے کب تک یہ بھاری بوجھ سہارتے ہیں۔ اس طرح یہ حکومت ہر دم معرض خطر میں ہے۔ ایسی کمزور حکومت جو کسی اور کی مرہون منت ہو عوام کے مسائل کے لیے کیسے یکسو ہو کر کام کر سکتی ہے۔
اسے خود تو اپنے پارلیمانی مسائل کے حل کے لیے بھی اپوزیشن کی ضرورت ہے اور اسے کسی بھی متنارعہ مسئلہ پر شکست کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کب تک وزارتیں بانٹ بانٹ کر حکومت کو تحفظ دیا جاتا رہے گا یہی وہ صورتحال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کسی غیبی اشارے پر آزادی مارچ کا اعلان کر بیٹھے ہیں۔ حکومت کی موجودہ صورتحال پر مجھے فارسی زبان کے ایک مجذوب شاعر عثمان ہارونی کی مشہور غزل کا یہ مصرح یاد آتا ہے کہ۔۔۔
منم آں قطرہ شبنم بنوکِ خار می رقصم
میں تو شبنم کا وہ قطرہ ہوں جو کسی کانٹے کی نوک پر رقص کرتا ہے۔
شروع دن سے حکومت مشکلات کا شکار ہے اسے کسی پہلو قرار نہیں کیونکہ اس کے زیادہ تر ارکان حکومتی امور سے نابلد ہیں۔ صحیح معنوں میں یہ ایک دیانتدار لیکن ناتجربہ کار حکومت ہے جس کی اپوزیشن بہت جاندار اور حکومت سے زیادہ طاقتور دکھائی دینا شروع ہو گئی ہے ان حالات میں حکومت کی مشکلات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن پیغام یہی ہے کہ پانچ سال کے بعد ہی انتخابات میں عوام اپنی مرضی کے حکمران منتخب کر سکتے ہیں۔
اپوزیشن کی بات کی جائے تو اس کے ارکان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو آج تک ملک پر حکومت کرتے آئے ہیں اور ان کی بری حکمرانی کی وجہ سے ملک اس عبرتناک مقام پر پہنچ گیا ہے کہ ملکی معیشت ڈوب چکی ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے بھی اپنے سیاسی وعدوں اور دعوؤں کے برعکس عوام کے مسائل میں ناقابل برداشت اضافے کیے ہیں اور عوام کے قومی جذبات کو صدمے بھی پہنچائے ہیں لیکن ملک کے معاشی مستقبل کے تحفظ کے لیے یہ سب کچھ ناگزیر ہے۔ وزیر اعظم مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کو چوروں لٹیروں سے بچا کر آگے لے جائیں گے اور اگر ان کو یہ اختیار ہو کہ وہ چند سو لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیں تو ملک کے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
فی الحال تو حکومت کو ایک اور دریا کا سامنا ہے اور یہ دریا اسی مہینے عبور کرنا ہے۔ اس دریا کو عبور کرنے کے لیے دانشمندانہ فیصلے ہی حکومت کو مشکل سے نکال سکتے ہیں زور زبردستی سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ اپوزیشن کے علاوہ بھی کچھ حلقے یہی چاہتے ہیں کہ حکومت کوئی بونگی مارے اور وہ حکومت کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کریں۔ یہ بھٹو صاحب کی اپوزیشن نہیں کہ مفتی محمودصاحب کو اٹھا کر اسمبلی سے باہر پھینک دیا جائے۔ پلوں کے نیچے سے بہت ساراپانی گزر چکا ہے۔ دانشمندی اور فہم وفراست سے معاملات طے کرنے میں کامیابی کا امکان بہر حال موجودہے۔