لندن پلٹ
جن شہروں سے ہمارا زمانہ چلا گیا پھر ان شہروں کا رخ ہم نے نہیں کیا اور ان کو ان کے نئے پرستاروں کے سپرد کر دیا۔ ان شہروں میں ایک شہر لندن بھی ہے جہاں ہر سال گرمیوں میں دو تین ماہ کے لیے میرا ٹھکانا بھائی مقصود کا مکان ہوتا تھا۔
لندن کی کونسل کی طرف سے انھیں یہ گھر ملا ہو ا تھا، وہ خود صبح کام پر جاتا تو شام کو لوٹتا۔ دن بھر اور پھر شام کے بعد یہ ڈیرہ ہمارے قبضے میں ہوتا اور مقصود اس سے بہت خوش ہوتا۔ میرے ملاقاتیوں کے علاوہ شام کی اس محفل میں پاکستانی سیاست کے چسکہ باز بھی موجود ہوتے تھے، ان میں سے کئی ایک براستہ لندن پاکستانی سیاست میں بھی آنا چاہتے تھے جو بالآخر کامیاب ہو گئے لیکن یہاں ان کا نام لکھنا مناسب نہیں۔
البتہ میں یہ عرض کر دوں کہ میں نے دنیا میں جتنے بھی شہروں میں قیام کیا ہے کسی میں بھی اس کی تعمیرات کے حسن کی وجہ سے نہیں ان دوستوں کی وجہ سے جو یہاں مقیم تھے، کئی دوست چلے گئے تو میں نے بھی ان شہروں میں جانا چھوڑ دیا۔
شوکتؔ ہمارے ساتھ برا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
اب اسی لندن کی بات کریں تو یہ شہر میرے بھائی عبدالرزاق کا شہر تھا جو اخبار وطن کے ایڈیٹر تھے جنھوں نے نہ جانے کتنے پاکستانیوں کو صحافی بنا دیا تھا۔ وہ پاکستان کے شہر گوجر خان کے رہنے والے تھے اور ہر سال اپنے اس شہر کو یاد بھی کرتے تھے اور ہم بھی ان کی میزبانی کے لیے موجود رہتے اور چوہدری برداران بھی جن سے ان کا خاندانی تعلق تھا بلکہ چوہدری صاحبان کی لندنی سیاست کا مرکز رزاق اور میرے دوست طارق عظیم کے سپرد تھا۔ میں لندن کے جس ڈیرے کا ذکر کر رہا ہوں وہ ایک درویش کا ڈیرہ تھا یعنی ایک پاکستانی صحافی کی بیٹھک یہاں کی نشست و برخواست سب رزاق بھائی کے سپرد تھا جن کے لامحدود تعلقات میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔
ایک دوست کھانا پکانے کے ماہر تھے، وہ سالن کا سامان اور مسالے وغیرہ ایک دن پہلے جمع کر لیتے اور دوسرے دن کام سے فارغ ہو کر وہ اس باورچی خانے پہنچ جاتے جہاں ان کی مقدور بھر مدد کے لیے ہم سب موجود ہوتے تھے۔ لندن میں بلکہ دنیا بھر میں جتنے بھی پاکستانی رہتے ہیں، وہ سب کے سب کھانا پکانا جانتے ہیں کہ وہ جب ان شہروں میں پہنچے تو بازار سے کھانے کی توفیق نہ تھی، اس لیے خود ہی اس ہنر میں بھی اپنے آپ کو یکتا کر لیا۔
ہمارے اس فقیرانہ ڈیرے پر پاکستانی روساء بھی آ جاتے تھے، یہ کہہ کر کہ ہوٹلوں کے کھانوں سے سے تنگ آ گئے ہیں اور چپاتی کی شکل کو ترس گئے ہیں۔ اگر کبھی کوئی اپنے ساتھ کھانا پکانے کا کوئی سامان لے کر آیا تو اس کا صاحب مکان برا مناتے تھے۔ یہ مزدور دولت مندوں کا ڈیرہ تھا کسی چوہدری کا نہیں جس کی کچھ روایات تھیں اور کچھ رکھ رکھائو تھا۔
ڈیرے کے کچن کے اخراجات کے انچارج رزاق بھائی تھے سوائے کھانے کے اور جو کچھ بھی ہوتا وہ مہمان کو خود لے کر آنے کی اجازت تھی۔ بس یہی تو حسن تھا اور اسی حسن کی برکت سے سب کچھ چلتا تھا۔ اور میں جو دوہفتے کا پروگرام بنا کر لندن آتا تھا دو مہینوں کے بعد بھی مشکل سے واپسی کی اجازت ملتی تھی اور اس کے باوجود لندنی دوست ناراض ہو جاتے تھے۔
میں اس زمانے کی بات کر رہاہوں جب ابھی ہمارے سیاست دان لندن منتقل نہیں ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے یا موسم کی تبدیلی کے لیے لندن یاترا کرتے تھے اور وہاں پر اپنے کسی پاکستانی نژاد دوست کے ہاں مقیم ہو جاتے تھے جو بڑی خوشی سے ان کی میزبانی کرتے تھے۔ یہ تو بہت بعد میں ہوا کہ ہمارے سیاست دانوں نے پاکستان کے علاوہ لندن میں بھی اپنے گھر بنا لیے یعنی جب حکومت میں ہو تو اسلام آباد میں اور جب حکومت سے باہر ہوں تو لندن میں۔
ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سیاستدانوں نے لندن کے مرکز میں عربوں کے ہمسائے میں اپنی رہائش گاہیں خرید لیں، وہاں مقیم ہو گئے اور پاکستان کی سیاست کا مرکز لندن کو بنا لیا۔ لندن میں ہم نے پاکستانی سیاست دانوں کے اجتماع بھی دیکھے اور پاکستانی سیاست کے لیے اتحاد بنتے بھی دیکھے۔ یعنی ہمارے سیاست دان کسی نہ کسی بہانے اپنے آقائوں کی راجدھانی میں فروکش ہونے کو ترجیح دیتے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ دیگر سرگرمیوں میں بھی مست رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے سیاست وغیرہ ایک بہانہ ہے، ایسے ہی لوگوں کے لیے فارسی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
منعم مرا بکوہ و بیابان برابر است
ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت
کہ میرا سردار کرم فرماء کہیں بھی ہو خواہ وہ بیاباں ہو یا سر سبز وادی ہو وہ جہاں بھی جاتا ہے وہاں خیمے گاڑے جاتے ہیں اور وہ دربار منعقد کر لیتا ہے۔ ہمارے روساء اور سیاستدان بھی لندن میں تفریح کر رہے ہیں اور وہاں سے پاکستان کے حالات پر تبصرے کرتے ہیں۔
ان لیڈروں کی سرگرمیاں بڑی باقاعدگی کے ساتھ ہم پاکستانیوں تک پہنچائی جاتی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان لیڈروں کی ایسی سرگرمیوں کا بڑا حصہ ان کے مخالف پاکستان پہنچاتے ہیں جو ان کے خیال میں لندن مقیم لیڈروں کے خلاف جاتی ہیں لیکن خلاف ہوں یا مواقف ہم پاکستانی لطف اندوز ہو لیتے ہیں جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا کسی میں بھی کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی ہم ان لندن مقیم لیڈروں کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں۔
بات لندن کے دوستوں سے شروع کی تھی کہ بیچ میں سیاست دان آگئے جب سے رزاق اپنے خالق حقیقی کے پاس چلا گیا ہے ہم نے بھی سات سمندر پار والے اس شہر کا رخ نہیں کیا جس کے ساتھ ہماری ذاتی ہی نہیں قومی یادیں بھی وابستہ تھیں۔ کبھی وہ بھی زمانہ بھی تھا جب کوئی لندن سے ہو آتا تھا تو اپنے نام کے ساتھ لندن پلٹ بھی لکھتا تھا اور اس اعزاز پر خوش ہوتا تھا، اب نئے زمانے میں شاید کچھ لوگ لندن مقیم لکھتے ہوں۔