لاہور سے استنبول تک
آج کے ترقی یافتہ دور میں جب دنیا سمٹ کر ایک گائوں کی عملی شکل میں ڈھل گئی ہے ہم گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے واقعات کواپنی ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں اور دور سے سہی مگر دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اسی جدیدیت کی بدولت ہم ماضی کے مسلمان حکمرانوں کی زندگی پر بنائے جانے والے ڈراموں کو دیکھ کر لطف اٹھا رہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ہدایات پر پاکستان ٹیلی ویژن سے ترکی کا مشہور زمانہ ڈرامہ ارتغرل غازی دکھایا جارہا ہے۔ اور اب حالات یہ ہیں کہ گھر کے بڑے بوڑھے ہوں یا بچے سب ہی اس ڈرامے کے سحر میں کھو چکے ہیں جس پر اس ڈرامے میں کام کرنے والے ترک اداکار بھی حیران ہیں کہ ان کی مقبولیت کا گراف یکایک اتنا بلند کیسے ہو گیا ہے اور جب ان کو معلوم ہوا اس مقبولیت کی اصل وجہ پاکستان میں ان کے ڈرامے کے ناظرین ہیں تو انہوں نے پاکستانیوں کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے جو اپنی دکھوں بھری زندگی کو بھول کرارتغرل دیکھنے میں مگن ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک ترک ڈرامہ میرا سلطان ہم دیکھ چکے ہیں۔
ترک حکمرانوں نے اپنے عوام کو تاریخ یاد دلانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور ہم پاکستانی جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا درد دل رکھتے ہیں اور خلافت عثمانیہ کا ایک اہم حصہ رہ چکے ہیں ان ترک ڈراموں کے سحر میں گرفتار ہو کر عثمانیوں کی تاریخ دیکھ رہے ہیں۔ میں چونکہ گھر سے باہر کم ہی نکلتا ہوں اس لیے جب بچے ٹی وی پر ڈرامے دیکھتے ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتا ہوں اور یہ شمولیت مجھے ماضی میں لے جاتی ہے۔
استنبول سے بہت دور ایک دوسرے مسلمان شہر لاہور میں بیٹھا ہوا میں یکایک استنبول پہنچ جاتا ہوں اور ان دنوں کی یادوں میں کھو جاتا ہوں جب آج سے تقریباً پچیس برس قبل میں اس خوبصورت شہر کی گلیوں، بازاروں اور مزاروں میں ایک وارفتگی کے عالم میں گھوم رہا تھا اور ناقابل بیان حد تک حیرت انگیز اس پر شکوہ مسجد میں نماز ادا کر رہا تھا جوسلطان سلیمان عالی شان کی خواہش پر اس کے عظیم المرتبت معمار سنان نے تعمیر کی تھی۔
عجوبہ روزگار یہ مسجد ترکی کی دوسری مساجد کی طرح ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کے اوپر کئی گنبد ہیں۔ ترکی میں سرد موسم کی وجہ سے شاید صحن نہیں ہوتے اور مسجد کے دروازوں پر خوبصورت قالین لٹکا دیے جاتے ہیں جو باہر کی سرد ہوا کو روک لیتے ہیں۔ ویسے مسجدوں کے باہر کھلی جگہ رکھی جاتی ہے لیکن وہ عموماً مسجد میں شامل نہیں ہوتی۔
میں نے استنبول کی تاریخ پڑھ رکھی تھی اور کتابوں میں اس شہر کے خاص مقامات کا ذکر یاد تھا جب میں اس شہر میں پہنچا تو میرے لیے اس شہر کی ہر گلی اور ہر بازار ایک عجوبہ تھا لیکن تاریخوں میں جن مقامات کا ذکر ملتا ہے میں نے ان میں سے ایک ایک کو دیکھنے کا پروگرام بنا لیا۔ انھی میں یہ مسجد بھی شامل تھی جس کے قریب پہنچ کر میں دنگ رہ گیا جو حیرت انگیز حد تک پرشکوہ تھی۔
ترکی کی مسجدوں کے اونچے پتلے نازک مینار ترک معماروں کی خاص ایجاد ہیں جو گنبدوں والی عمارتوں کو گھیرے رہتے ہیں اور مسجد کے اندر ان معماروں نے اپنے فن کا طلسم اندرونی دیواروں کی نقش کاری، مسجد کے اندر محرابوں اور ستونوں کی تعمیر اور منبر پر ختم کر دیا ہے اور ان خطاطوں نے مسجد کو اپنے خطوط سے آراستہ کر کے اپنی فانی زندگی کو دوام بخش دیا ہے۔
عثمانی سلاطین نے تاریخ کو اپنے جن کارناموں سے زندہ کیا ہے ان میں شہروں کی آبادی اور آرائش بھی ان کے یادگار کارنامے ہیں اور استنبول تو مجھے کئی حوالوں سے بے حد پسند ہے ایک تو اس کے اصل نام ’اسلامبول، کا ترجمہ اسلام آباد ہے دوسرے اسے فتح کرنے والے لشکر کے لیے حضور پاک ﷺ نے دعا فرمائی تھی۔ قسطنطنیہ (استنبول) کو ایک عثمانی سلطان محمد نے فتح کیا اور محمد فاتح کہلایا۔ اس کی حیران کن جنگی چال کا ذکر مورخ بڑے شوق سے اور حیرت کے ساتھ کرتے ہیں۔
بحری جہازوں کو خشکی پر چلا کر وہ راتوں رات قسطنطنیہ کے پانی کے راستے پر تنی ہوئی زنجیر کے اندر لے آیا اور یہ شہر جو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا اسے فتح کر لیا اور پھر جب وہ اپنے سفید رنگ کے گھوڑے پر تن کر آیا صوفیہ کے گرجے کی طرف چلا تو یکایک ایک خیال اس کے ذہن میں کوند گیا کہ میں تو مغرور ہو رہا ہوں۔ وہ گھوڑے سے اترا، زمین کی خاک اٹھا کر اپنے سر میں ڈال لی اور اسی درویشانہ حالت میں مسیحیوں کی مشرقی دنیا کی اس سب سے بڑی عبادت گاہ میں داخل ہو گیا اور یہاں شکرانے کے نفل ادا کیے۔
میں اس مقام کے قریب ایک بنچ پر بیٹھ کر چشم تصور سے نہ جانے کتنی دیر تک تاریخ کے اس منظر کو دیکھتا رہا اور جسم میں دوڑجانے والی ایک عجیب سی سنسناہٹ سے کانپتا رہا کہ عین ممکن ہے کہ جہاں میں بیٹھا ہوں سلطان محمد فاتح عین اسی مقام پر اپنے گھوڑے سے اترا ہو اور یہیں سے چل کر سامنے آیا صوفیہ کے کلیسا میں داخل ہوا ہو اور پادریوں کو عبادت کی آزادی، امن اور پناہ دی ہو۔
اسی با برکت شہر میں میزبان رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزارہے جنھیں ترک ایوب سلطان کے نام سے پہچانتے ہیں۔ انھوں نے قسطنطنیہ پر ایک ناکام حملے کے موقع پر وصیت کی تھی کہ مجھے اس شہر کی فصیل کے قریب تر جگہ پر دفن کیا جائے۔ عثمانی سلطان نے بڑی مشکل سے اس قبر کو تلاش کیا اور اس پر روضہ تعمیر کرایا۔
استنبول کی گلی گلی پھیلا مسقف بازار اس کی لاتعداد مسجدیں، توپ کاپی کا عجائب خانہ اور ینی چری فوجیوں کی بیرکیں جنھوں نے یورپ کو لرزا دیا تھا اور اس شہر کا محل وقوع کہ آدھا یورپ میں اور آدھا ایشیا میں واقع ہے۔ اسی شہر میں عربی رسم الخط کو مٹا دیا گیا عربی کی وجہ سے اذان پر پابندی لگا دی گئی مسلمانوں کا روائتی لباس تک تبدیل کر دیا گیا اور مسلمان کہلانا جرم ٹھہرا تھا آج پھر اللہ اکبر کی صدائوں سے گونجتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ سلسلہ نقشبندیہ کے وہ زاویئے جن کی ذکر کی محفلوں میں لوگ چھپ چھپ کر شریک ہوتے تھے اب یقینا کھل گئے ہوں گے۔
بخارا میں جب میں شیخ بہائو الدین نقشبندی ؒ کی درگاہ پر حاضری دے رہا تھا تو مجھے کسی نے بتایا کہ پورے وسطی ایشیا میں ترکی تک لوگ سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ ہیں۔ برادر ترکی میں اسلامی تہذیب نے ایک مدت کے بعد انگڑائی لی ہے، اسلامی تاریخ، تہذیب و ثقافت پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔ ترکی اور وسط ایشیا میں کوئی ستر برس تک اسلام کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر دلوں کی دنیا نہ بدلی جا سکی۔ عثمانیوں کی مسجدوں کے مینار بلند رہے۔ ترک اپنی تاریخ سے جڑے رہے ہیں اور خلافت عثمانیہ کی یہ تاریخ برصغیر کی نئی نسل میں ڈراموں کی شکل میں زندہ ہو رہی ہے۔