کشمیر کے غازی اور شہید
امریکا چاہتا ہے اور اس لیے کہ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہو جائیں جیسے کہ دو دوست پڑوسیوں کے درمیان ہو اکرتے ہیں۔ گپ شپ ہو، خرید و فروخت ہو، موج میلہ ہو اور ساتھ ساتھ کشمیر کا ذکر بھی ہوتا رہے، اسی لیے امریکی صدر نے عمران خان سے ملاقات میں کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر کے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی تھی۔
کم و بیش چھ ماہ ہونے کو ہیں کہ کشمیر میں بھارت کا غاصبانہ قبضہ جاری ہے۔ کشمیری کرفیو کی وجہ سے گھروں میں بند ہیں لیکن عالمی برادری ٹس سے مس نہیں ہو رہی اور کشمیریوں کے لیے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ پاکستان اپنی بساط کے مطابق بھارت کی کشمیر پر جارحیت پر کشمیریوں کے حق میں دنیا سے حمائیت حاصل کی کوشش کر رہا ہے لیکن فی الحال یہ کوششیں ناکام نظر آ رہی ہیں۔
بھارت نے حقیقت میں ہماری شہ رگ کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور کشمیر کو اپنی دھاندلی زدہ ترامیم سے اپنا اٹوٹ انگ بنانے کا خواب پورا کر لیا ہے۔ یہی آج کی تلخ حقیقت ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پاکستان کشمیریوں سے کیے گئے وعدوں سے مکر گیا ہے بلکہ پاکستان اپنے دشمن بھارت کے ساتھ اب بات چیت کا روادار بھی نہیں رہا حالانکہ کہا جاتا ہے کہ بات چیت کرنے سے وقت کٹ جاتا ہے اور اس وقت کو گزشتہ ستر برسوں سے ہم بات چیت کر کے کاٹتے آ رہے تھے۔ ایسے ہی جیسے سردار صاحبان نے اپنا وقت کاٹا تھا۔
ایک سردار صاحب نے سفر کے دوران دوسرے سردار سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں اس نے جواب دیا امرتسر جا رہا ہوں۔ اچھا بہت خوب میں بھی امرتسر جا رہا ہوں۔ امرتسر میں آپ کہاں رہتے ہیں جواب ملا محلہ کرتار سنگھ میں، بہت خوب میں بھی وہیں رہتا ہوں۔ اچھا ہوا لمبا ساتھ رہے گا مگر محلہ کرتار پورہ کی کس گلی میں گھر ہے جواب ملا آٹھویں گلی میں اور کوچہ مان سنگھ میں، بھئی حد ہو گئی میں بھی اسی گلی میں رہتا ہوں۔ اچھا آپ کا گھر کون سا ہے، پیلے رنگ کی دو منزلہ عمارت والا۔ اس پر سردار صاحب نے دوسرے سردار کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارکر کہا میں بھی تو اسی مکان میں رہتا ہوں۔
ایک صاحب حیرت کے ساتھ سردار صاحبان کی گفتگو سن رہے تھے مزید صبر نہ کر سکے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ ایک ہی مکان میں رہ کر بھی اجنبی ہیں اور ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔ دونوں سردار صاحبان نے زور کا قہقہہ لگایا اور اس شخص کی معصومیت اور حیرت کا مذاق اڑانے لگے اور کہا بھائی ہم اجنبی کہاں ہم تو باپ بیٹا ہیں بس وقت گزاری کے لیے ذرا گپ شپ لڑا رہے تھے۔
یہ ایک پرانا سا گھسا پٹا لطیفہ مجھے بھارت کی گیڈر بھبکیوں کی وجہ سے یاد آیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف نے کہا ہے کہ اگر بھارتی حکومت انھیں حکم دے تو وہ آزاد کشمیر کو بھی بھارت میں شامل کر سکتے ہیں۔ بھارتیوں کی یہ خواہش ایک خواب اور اس کے آرمی چیف کی ایک گپ اور وقت گزاری تو ہو سکتی ہے لیکن بھارت کی یہ جرأت نہیں کہ وہ پاکستان کی سرحد کے اندر قدم رکھ کر بھی دیکھے۔ وہ کئی مرتبہ پاکستان کی سرحد کی خلاف ورزی کر کے منہ کی کھا چکا ہے۔ ہماری مسلح افواج کے ترجمان نے بھارتیوں کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت گزشتہ برس ہوائی جارحیت کر کے اپنی اوقات دیکھ چکا ہے اور اگر اب دوبارہ کوئی ایسی کوشش کی گئی تو پہلے سے زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔
کشمیر کا جب بھی ذکر آتا ہے تو مجھے اپنے وہ شہید یاد آ جاتے ہیں جنھوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کے لیے اپنی جوانی قربان کر دی۔ مجھے بھائی صفدر چوہدری مرحوم کا بیٹا مظفر نعیم شہید یاد آتا ہے۔ مرحوم ملک غلام علی کا بیٹا یاد آتا ہے، محترم جان محمد عباسی کا بیٹا یاد آ جاتا ہے، کئی دوسرے شہید جوان اور ان کے والدین یاد آ جاتے ہیں کیونکہ جب کوئی کشمیر کے محاذ پر جاتا تھا تو شہید ہو کر جاتا تھا ایسا بہت کم ہوا کہ کوئی مجاہد صحیح سلامت واپس آگیا ہو اور ایسا بار ہا ہوا کہ کوئی مجاہد واپس آ بھی گیا تو پتہ چلا کہ وہ پھر کسی ایسی ہی موت کی تلاش میں لوٹ گیا ہے۔
مجھے سیاچن کے غازی یاد آتے ہیں اور جوش جہاد میں تڑپتے فوج کے وہ جوان یا د آتے ہیں جو سیاچن جانے کے لیے اپنے نام لکھوا کر موت یا نیم موت کے اس میدان میں داخل ہونے کا انتظار کرتے ہیں، بے چین رہتے ہیں اور جلد باری آنے کے لیے خدا کے حضور میں سجدہ ریز رہتے ہیں۔ مجھے سیاچن سے واپس آنے والے مجاہد یاد آتے ہیں کہ کسی کی ٹانگیں نہیں تو کسی کے بازو ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ ان کڑیل جسموں کو سردی کھا گئی، وہ فوج کے اسپتالوں سے فارغ ہو کر گھروں میں پڑے رہتے ہیں اور معذوری کی زندگی گزارتے ہیں۔ مجھے وہ مقبرے اور قبریں یاد آتی ہیں جہاں دشمن کے ساتھ جنگوں میں شہید ہونے والے عیش کر رہے ہیں مگر ہم ان کو دیکھ نہیں پاتے۔
مجھے بہت کچھ یاد آتا ہے اور میں پر امید ہوں اس یقین کے ساتھ کہ ہمارا دشمن ہم پر غالب نہیں آ سکتا۔ وہ نہ سیاچن چھین سکتا ہے اور نہ کشمیر۔ ہمارا کوئی حکمران یہ جرات نہیں کر سکتا کہ کسی لالچ یا خوف میں دشمن کے ساتھ سودا بازی کر لے۔ یہ نہیں ہو سکتا اور یہ نہیں ہو سکے گا، دشمنی مزید کیوں نہ بڑھ جائے کچھ بھی ہو جائے، کشمیر پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ کشمیر اور سیاچن کے غازی مجاہد اور شہید اس کی اجازت نہیں دیں گے اور جس بات کی روحیں اجازت نہیں دیں گی، وہ نہیں ہو سکتی۔