جب عوام ناراض ہوتے ہیں
اگر میں یہ کہوں کہ میری سیاسی عمر پاکستان سے زیادہ ہے تو درست ہو گا لیکن پھر بھی میں اس ملک کی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا عینی شاہد نہیں ہوں۔ میری ذہنی بلوغت کا زمانہ صحافت میں آنے سے شروع ہوا اور بطور صحافی میں ایوب خان کے آخری دور میں بالغ ہوا۔ یہ ایوب خان مرحوم کا وہ دور تھا جب اس کے افسروں نے بڑی محنت کے بعد اسے سولی پر چڑھایا تھا اور اس سولی کی نوک پر وہ پیٹ کے نیچے چمڑے کا ٹکڑا رکھ کر ایک نٹ کی طرح سولی پر گھوم رہا تھا اور تماشائی تالیاں بجا رہے تھے۔
پاکستان کی صنعتی اورزرعی ترقی کی بنیاد رکھنے والا ایوب خان چونکہ ایک ہوشیار فوجی مگر بصیرت سے محروم سیاستدان تھا اس لیے وہ اس قوم کے لیے روٹی کپڑے کا انتظام تو کر گیا مگر اپنی سیاسی حماقتوں سے اس کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ بھی کر گیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن کا نقطہ نظر سننے کے بعد یہ تو کہہ دیا کہ وہ پاکستان کی شکست و ریخت کی کانفرنس کی صدارت نہیں کر سکتا لیکن اسے یہ احساس نہ تھا کہ اس شکستگی کی بنیاد تو وہ بہت پہلے سے خود اپنے ہاتھوں سے رکھ چکا ہے۔
افراد کی طرح قومیں روٹی کپڑے مکان سے ہی زندہ نہیں رہتیں وہ یقین باہمی اعتماد اور سیاسی قیادت کی دانش و حکمت سے زندہ رہتی ہیں۔ برصغیر کے ملکوں میں پاکستان سب سے خوشحال ملک تھا مگر اس کے باوجود سب سے پہلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا کیونکہ اس کی سیاسی قیادت اس اہل نہیں تھی کہ اس قوم کی خواہشات اور نظریات کی حفاظت کر سکتی۔ وہ نظریات جن کی طاقت سے وہ قوم ایک بڑا ملک عدم سے وجود میں لے آئی تھی۔
یحییٰ خان آیا تو وہ ایک ہوشیار اور سمجھدار فوجی بھی نہیں تھا، اس کے ساتھیوں کے لیے اسے کسی سولی پر چڑھانے کے لیے محنت کرنے کی ضرورت نہ تھی، وہ خود ہی سولی پر چڑھا ہوا آیا تھا چنانچہ ملک ٹوٹ گیا۔ ٹوٹنا تو درحقیقت غریب خستہ حال اورگوناگوں ذاتوں، زبانوں اور علاقائی تعصبات میں گھرے بھارت کو تھا مگر اس کی اس وقت کی سیاسی قیادت دانش و حکمت سے مالا مال تھی، اس نے ایک ڈوبے ہوئے ملک کو ساحل پر اتار لیا۔ اسے ایک بڑا ملک بنا لیا مگر بھارت کی موجودہ قیادت نے ذاتوں اور زبانوں کی بنیاد پر بھارت کو تقسیم کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دیکھتے ہیں اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔
جنرل محمد ضیاء الحق اس ملک کی تاریخ کی ایک بہت بڑی اور بلند بانگ حقیقت ہیں جو آنجہانی روس اور اس کے ہمنوائوں کو سخت ناپسند ہیں اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ ان کو ضیاء الحق کی طرف سے سخت صدمات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ضیاء الحق نے روس کا پاکستان کے آر پار ہوجانے کا روستہ روکا اور نیت کا خلوص تھا کہ سوویت یونین کا وجود ہی سرے سے مٹ گیا حا لانکہ مقصد صرف اسے افغانستان سے باہر کرنا تھا تا کہ وہ آگے پاکستان کی طرف نہ بڑھ سکے اور یہ سر زمین روسیوں کے ناپاک قدموں سے محفوظ رہے۔ لیکن روسی افواج آمو دریا کو عبور کر کے اپنی سرحدوں کو بھی عبور کر گئیں چنانچہ آج دنیا سپر پاور روس کو بھلا چکی ہے۔
میاں نواز شریف کی حکومت بھلی چنگی جیسی بھی تھی چل رہی تھی۔ میاں صاحب پر بھاری مینڈیٹ کا نشہ طاری تھا اور ان کے بھائی پنجاب میں اپنی حکومت قائم کیے ہوئے تھے لیکن بیچ میں جنرل مشرف اچانک ٹپک پڑے، ایسا کیوں ہوا اس کا جواب ہم سب کے پاس موجود ہے۔ عموماً فوجی حکومتیں راتوں کو گھپ اندھیروں میں ڈیرے ڈالتی ہیں اور صبح جب قوم کی آنکھ کھلتی ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے لیکن جنرل مشرف کی حکومت تو شام کے سر مئی اندھیروں کے پھیلنے سے بھی پہلے آنی شروع ہو گئی اور سندھ کی فضائوں میں ہی اس کا فیصلہ ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف خلاف معمول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ نہیں بلکہ چیف ایگزیکٹو کے نئے فوجی عہدے کے ساتھ سر بر اہ سلطنت ہو گئے۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کسی سول حکومت کو اقتدار سے الگ کر کے فوجی حکومت جب بھی آئی بظاہر اس کی کوئی واضح وجہ دکھائی دی۔ سول حکومت سے عوام کی ناراضگی اور بے چینی اس کا بنیادی سبب سمجھی گئی لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے، ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے سے کئی دن پہلے دل میں اقتدار کی خواہش پال لی تھی، ان کی یاداشتوں سے اس کا پتہ چلتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھالتے ہی دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ذوالفقارعلی بھٹو کا اقتدار طویل نہیں ہونے دیں گے چنانچہ پی این اے کی تحریک کو ضیاء الحق کی تائید بھی حاصل تھی جس کو عذر بنا کر بھٹو صاحب کو حکمرانی سے معزول کر دیا گیا۔ فوجی حکمرانوں کی نیتیں کیا تھیں دلوں کی باتوں پر بحث کی ضرورت نہیں، بظاہر کسی حکومت سے عوامی ناراضگی ہی آمرکے آنے کا سبب سمجھی گئی اور اسی لیے ہر فوجی حکومت کے آمد پر عوام کی طرف سے زبردست خیر مقدم کیا گیا۔