ہمارے ریڑھی بان
ہم سب بازاروں میں ایک منظر اکثردیکھتے ہیں، ایک چھوٹا سا ناتواں مریل گدھا ریڑھی کے آگے جتا ہوا ہے۔ ریڑھی کے اوپر اس کمزور گدھے کی جسامت سے کئی گنا زیادہ سامان لدا ہوا ہے اور اس سامان میں تھوڑی سی جگہ بچا کر ریڑھی بان جس کی جسامت کچھ بھی ہو سکتی ہے ریڑھی پر سوار ہے۔ اس کے ہاتھ میں گدھے کی لگام ہے۔ گدھا چل رہا ہے کیسے چل رہا ہے یہ خدا ہی جانتا ہے ورنہ اس کا جسم اس قابل نظر نہیں آتا کہ وہ سامان تو کجا خود اپنا وزن بھی اٹھا کر چل سکے۔ میں اس گدھے کو اکثر غور سے دیکھتا ہوں اس کی آنکھوں کی مظلومیت اور بے بسی سوائے ریڑھی بان کے ہر انسان کو تڑپا دیتی ہے۔
مجھے یہ گدھا بعض اوقات نہایت معصوم بھی دکھائی دیتا ہے جو اپنے اس استحصال کو برداشت کیے جا رہا ہے۔ میں نے ڈرائیور سے کہہ رکھا ہے کہ جب گدھا گاڑی تمہارے سامنے چل رہی ہو تو ہارن نہیں بجانا اور اس سے راستہ لینے کی کوشش نہیں کرنا کیونکہ راستہ بنانے کے لیے گاڑی بان گدھے کو چابک لگا کر یا اس کی لگام سختی کے ساتھ کھینچ کر اسے راستے سے ہٹاتا ہے اور ایسا کرنے میں گدھے کو اپنا بچا کچھا پورا زور لگانا پڑتا ہے۔ میں اس گدھے کی کوئی اور خدمت تو نہیں کر سکتا مگر اسے اپنے تشدد سے محفوط رکھ سکتا ہوں۔ میری یہ خواہش اکثر اوقات ناکام رہتی ہے کیونکہ پیچھے سے آنے والی گاڑیاں شور مچا دیتی ہیں اور گدھے کو چارو ناچار راستے سے ہٹنا پڑتا ہے۔
یہ مال برادر گدھا مجھے ترک سلاطین یا خلفاء کی یاد دلاتا ہے جن کا حکم ہوتا تھا کہ جب کوئی مزدور سامان اٹھائے راستے سے گزر رہا ہو تو سلطان کی شاہی سواری روک دی جائے اور بوجھ اٹھانے والے مزدور کو اس کی اپنی رفتار سے گزرنے دیا جائے کیونکہ جو انسان کسی بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس کا راستے کا حق کسی سوار سے زیادہ ہے مگر ہمارے آج کے سلاطین کے پاس ایسا دل نہیں ہے جو اس بے زبان گدھے کے راستے کا حق اپنے حق سے فائق سمجھتا ہو اور اس کے راستے سے ہٹ جائے۔
ان گدھوں پر تو محکمہ انسداد بے رحمی والے بھی رحم نہیں کھاتے معلوم نہیں کہ یہ محکمہ اب ہے بھی یا نہیں۔ جب لاہور میں ہر سڑک پرٹانگے چلا کرتے تھے تو اس محکمہ کے کارکن بڑے سرگرم ہوا کرتے تھے اور سواریاں بھی ٹانگے والوں کومحکمہ انسداد بے رحمی والوں کی دھمکیاں دیا کرتی تھیں مگر ان گدھوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان کی حالت دیکھ کر مجھے اس ملک کے عوام یاد آتے ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں اور آپ بھی، ہم سب ایک ریڑھی کے آگے جتے ہوئے ہیں اور اس پر اتنا بوجھ لدا ہوا ہے کہ اس کو کھینچنا عوام کے بس سے باہر ہوچکاہے۔ یہ کیوں ہوا ہے اس کے متعلق ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
یہ بوجھ عوام نے اپنے اوپرنہیں لادا بلکہ اس بوجھ کو ہمارے کرتا دھرتا نے بتدریج ہمارے اوپر لادا ہے اور یہ بوجھ لادنے والے خود اس بوجھ سے مبرا ہیں البتہ عوام کا استحصال کر کے انھوں نے اپنی جیبیں بھر رکھی ہیں اور نوٹوں کے وزن کی وجہ سے یہ بھاری جیبیں اب ان کے لیے مشکل بنتی جا رہی ہیں۔ عوام کے بوجھ کی اگر بات کی جائے تواس بوجھ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جوگاڑی بان بھی آتا ہے اس پر ایک اور گٹھڑی ڈال دیتا ہے اور اب تو یوں ہے کہ ہمارے سلاطین نے بوجھ کی گٹھڑیوں کا ایک انبار جمع کر رکھا ہے جس میں سے وہ وقتاً فوقتاً ایک گٹھڑی اٹھا کر اس ریڑھی پر لاددیتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ گدھے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس سے بڑی منہ زوری اور کیا ہو سکتی ہے۔ میں اگر اپنے آپ کو ریڑھی کا گدھا سمجھوں تو یہ بالکل درست ہو گا، فرق صرف اتنا ہے کہ میں منہ میں زبان رکھتا ہوں مگر اس زبان کو کھولتا نہیں ہوں، اس لیے مجھے بھی اور آپ اپنے آپ کو بھی ایک بے زبان گدھا ہی سمجھیں۔ ہم سب اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے گدھے ہیں لیکن ہمارے میں اور اس ریڑھی والے گدھے میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ کہ ریڑھی بان جوں توں کر کے گدھے کو اتنا کچھ کھانے کو ضرور دیتا ہے جس سے وہ اتنی طاقت جمع کر لے کہ اس کی گاڑی کھینچ سکے اور اس کی روزی کا سلسلہ چلتا رہے لیکن ہمارے ریڑھی بان اتنا کرم بھی نہیں کرتے۔ ہم اپنے خرچ پر گدھے بنے ہوئے ہیں اور اپنے جسموں میں اتنی سکت پیدا کرنے کا بندو بست خود ہی کرتے رہتے ہیں کہ یہ گاڑی کھینچ سکیں۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ جس ملک کو ہم ستر برسوں میں ترقی کی جانب نہیں دھکیل سکے اور اپنی بدعنوانیوں کے بوجھ کو مسلسل بڑھاتے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گدھے نے ٹانگیں اٹھا کر ریڑھی کا وزن کھینچنے سے انکار کر دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا یہ گدھاپن کب تک چلے گا اور کب تک چل سکے گا۔ عربی زبان کا یہ محاورہ کتنا سچ ہے " عوام کا لانعام" یعنی عوام بدرجہ حیوان، عوام مویشیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ کہاوت کہیں اور سچی ہو یا نہ ہو ہمارے ہاں یہ بالکل درست ہے لیکن اس ملک کے عوام جن کو خدا نے ایمان دیا ہے اور جو ایک نظریئے کے پیروکار کہلاتے ہیں، کسی ایسے ریڑھی بان کی تلاش میں ہیں جس کے دل میں ان کے لیے رحم ہو، جو ان کے شانہ بشانہ زندگی کا یہ بوجھ کھینچنے پر تیار ہو اور عوام کی طرح زندگی بسر کرتا ہو۔