غریبوں کی پیاس امیروں کے خون سے بجھتی ہے
دولت مندوں میں گھرے ہمارے وزیر اعظم انقلابی خیالات رکھتے ہیں، وہ جب بھی عوام سے مخاطب ہوتے ہیں عوام میں خوشحالی تقسیم کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمیشہ ان کا موضوع سخن عوام کی غربت دور کرنا ہوتا ہے چنانچہ وہ کئی ایسے منصوبوں کا ذکر کرتے ہیں جن پر عملدرآمد کر کے عوام کی غربت دور کرنے میں مدد ملے گی۔
میں جب وزیر اعظم کے ارد گرد بیٹھے خواتین و حضرات کو دیکھتا ہوں تو یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ وزیر اعظم کے سامنے وہ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو اس قدر دولت مند ہیں کہ خود ان لوگوں کی دولت ہی اگر عوام میں تقسیم کر دی جائے تو متعدد گھرانوں کی غربت دور ہو سکتی ہے اور کئی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔
غربت کی جاری سرکش لہر کو روکنے کا ایک تیر بہدف طریقہ یہ ہے کہ ملک میں اور خصوصاً حکومت کے اندر جو لوگ غیر معمولی دولت کے مالک ہیں وہ اپنے وزیر اعظم کا ہاتھ بٹائیں اور قربانی کا آغاز اپنے آپ سے کریں۔ اس طرح ایک ایسی مثال قائم ہو گی کہ عوام کے اندر دولت مندوں کے خلاف یا دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف جو جذباتی لہر اٹھی ہوئی ہے وہ ٹوٹ جائے گی۔
ہم عوام تو ایسی کئی مثالیں قائم کرتے رہتے ہیں لیکن خواص نے کبھی ایسی مثال قائم کرنے پر غور نہیں کیا۔ ماضی میں ملک سنوارو اسکیم میں عوام نے قربانیوں کی مثالیں قائم کیں اور ابھی حال ہی پاکستان ڈیم کے لیے سپریم کورٹ کی اپیل ایک مرتبہ پھر پاکستانی عوام نے لبیک کہا، ملک سنوارو اسکیم کا جو حشر ہمارے حکمرانوں نے کیا اس سے سبھی آگاہ ہیں لیکن اب پاکستان ڈیم کو بھی ہم نے خود ہی ڈبو دیا ہے۔ جس ملک میں انتظامیہ زکوٰۃ کھا جاتی ہے ان کے لیے عوام کی جانب سے قربانیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم خیالات کی حد تک زبردست انقلابی ہیں اور بعض اقدامات سے ظاہر بھی کرتے ہیں کہ وہ ان پر عمل کرتے ہیں مثلاً وہ وزیر اعظم ہاؤس میں تعمیر کردہ ایک چند کمروں کے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کی طرح کوئی برانڈڈ کپڑا استعمال نہیں کرتے نہ ہی بیش قیمت گھڑی اپنی کلائی پر سجاتے ہیں اور بعض دوسری ایسی باتیں بھی جن سے وہ عوامی یا متوسط ظاہر ہوں۔
میرا خیال تھا کہ وہ اقتدار کے بعد وہ شاید کچھ بدل جائیں مگر وہ جو باتیں کرتے ہیں وہ پرانی ہیں۔ وہ مظلوم اور محروم طبقہ کی بات کرتے ہیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کرتے ہیں، خوشحالی کو مفلوک حال طبقوں میں بانٹنے کی بات کرتے ہیں، غریبوں کو غربت سے اٹھانے کی بات کرتے ہیں، ان کو یہ احساس ہے کہ اگر ملک کے محروم طبقہ کو اس کا حق نہ دیا گیا تو محروم افراد اپنا حق چھین کر لے جائیں گے۔
ایک حکمران کی زبان سے ان باتوں کا اظہار اور اعتراف ایک خوشخبری سمجھی جاتی ہے اور یہ امید کی جاتی ہے کہ حکمران آج اگر زبانی اظہار کر رہا ہے تو کل ممکن ہے یہ باتیں عمل میں بھی ہمارے سامنے ہوں اور جب کوئی ایسا دن آئے گا تو پھر سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور عوام اپنے حکمرانوں کی گفتگو پر اعتبار کرنے لگیں گے۔ عوام تو ہر وقت اعتماد کے لیے تیار رہتے ہیں اور بعض اوقات بھاری مینڈیٹ بھی دے دیتے ہیں لیکن یہ حکمران ہی ہوتے ہیں جو عوام کے اعتماد کو ٹھکراتے رہتے ہیں جس سے وہ عوام میں اپنی ساکھ اور اعتبار کھو دیتے ہیں۔ یہ ہم نے بارہا دیکھا ہے مگر ہمارے حکمران ایسے برے وقت کو دیکھنے کے باوجود بھول جاتے ہیں۔
پرانی تاریخ کو چھوڑیں کل کی تاریخ سے بھی لوگ سبق نہیں لیتے اور جیتی جاگتی عبرت بن جاتے ہیں۔ عمران خان عوام میں خوشحالی تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں وہ رضاکارانہ نہیں ہو سکتی اس کے لیے حکومتی اقدامات کی ضروت ہے۔ عمران خان کو عوام نے بڑی امیدوں کے ساتھ مینڈیٹ دیا تھا جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے یا پھر وہ ہمارے جیسے مڈل کلاسیئے ہیں جن کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے کسی نیک اور اچھے حکمران سے توقعات ہیں، خوشحال لوگوں نے تو الیکشن کے لیے ٹکٹوں، وزارتوں اور مشاورتوں کے لیے عمران خان کی مدد کی تھی۔ عمران خان کو یاد دلانے کے لیے عرض ہے کہ ان کے پیشترو حکمرانوں کو بھی عوام نے بھاری مینڈیٹ دیا تھا اور عمران خان کو بھی الیکشن میں اس لیے ووٹ ملے تھے کہ وہ ملک کی معاشی خرابیوں پر قابو پائیں گے۔
عوام اگر خوشحالی بانٹنے کی بات کریں جو وہ ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں تو یہ محض ایک خواب اور خواہش ہے لیکن کوئی حکمران جب ایسی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے جو حکمران بس جانتے ہیں اور عوام بھی۔ سوال یہی ہے کہ خوشحالی کون بانٹے گا بلکہ یہ کہ کون بٹوائے گا۔ عوام کو اسی دن کا انتظار ہے اور عمران خان کے بقول وہ دن دور نہیں ہیں لیکن عوام کی اگر بات جائے تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور چھلکنے کو ہے ڈریں اس دن سے جب یہ پیمانہ چھلک جائے گا اور عوام اپنا حق چھین لیں گے۔ خان صاحب یہ دن بہت خوفناک ہو گا جو کوئی خود کشی پر تیار ہوتا ہے وہ کسی پر رحم نہیں کر سکتا، یہ بہت خونخوار ہوتا ہے اور اس کی پیاس امیروں کے خون سے بجھتی ہے۔
عمران خان جو خیالات کی حد تک انقلابی خیالات والے لیڈر ہیں خوب جانتے ہیں کہ اپنی غریبی کا انتقام لینے والے کیسے ہوتے ہیں۔ خدا کرے وہ ان کی غریبی میں ہاتھ بٹا لیں اور ان کی امیدوں پر پورا اتر جائیں۔ میں ایسی کسی تبدیلی کے حق میں نہیں ہوں جو چند دوسرے دولت مندوں کو اقتدار پر بٹھا دے۔ عمران خان مایوس نہ کریں۔