ایسا نہ کیجیے
نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ وجود میں آئی ہماری حکومت نے ایک پنجابی محاورے کے مطابق ہر پاکستانی کو "وخت پا دتا اے"کسی پیشے سے متعلق کوئی پاکستانی ایسا نہیں ہے جسے کوئی نہ کوئی وختا نہ پڑ چکا ہو۔ جن لوگوں کے پاس اپنا مکان ہے گھر میں ضرورت کی اشیاء موجود ہیں موٹر کار ہے وہ بھی دہشت زدہ ہیں اور جس کے پاس کچھ نہیں اور محنت مزدوری کر کے ہر روز اپنی روزی کا بندوبست کرتا ہے وہ بھی بے کار بیٹھا بھوک کے مزے لوٹ رہا ہے۔
اس ہمہ گیر پریشانی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سفید کالر والے کہلاتے ہیں اور دفتر سے گھر پہنچ کر کپڑے احتیاط سے کھونٹی پر لٹکا دیتے ہیں اور پرانے کپڑے پہن کر بچے کو گود میں اٹھا کرکسی پارک میں یا سڑک پر نکل جاتے ہیں کہ گھر میں بیوی بچوں کے سوالات سے کچھ دیر کے لیے جان چھڑا سکیں۔ ان سفید پوشوں میں مجھ سمیت کئی لوگ شامل ہیں جو دن بھر روزی کاسامان کرتے ہیں اور گھر پہنچتے ہی ضروریات زندگی کی ایک لمبی فہرست مل جاتی ہے جس کو پورا کرنا اب بس سے باہر ہو چکاہے۔
ہم لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے حکومت طرح طرح کے بہانے ڈھونڈ لیتی ہے جیسے کہ لاہور میں ماحول کو بہتر بنانے کے لیے عوامی ٹرانسپورٹ کی بسیں جو عوام کو لاہور جیسے بڑے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچاتی ہیں یکایک بند کرنے کے احکامات جاری کر دئے گئے ہیں اس قدم کی وجہ آلودگی کم کرنا بتائی گئی ہے یہ قدم تو اٹھا لیا گیا لیکن حکومت نے لاہوریوں کے لیے متبادل سواری کا کوئی بندوبست نہیں کیا اور ان کو ٹیکسیوں اور رکشاؤں کے حوالے کر دیا ہے۔
آگے چلیے جس کے پاس کچھ جمع پونجی بینک میں موجود ہے اور وہ اپنی ضروریات زندگی چلا رہا ہے یا اپنی بچت بینک میں جمع کر کے اس سے منافع حاصل کر کے زندگی کے دن کاٹ رہا ہے اس پر بھی حکومت نے چیک لگا دیا ہے کہ ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکالنے والے کو بھی حساب دینا پڑے گا اور جنھوں نے بینک سے منافع حاصل کرنا ہے ان کو بھی محکمہ ٹیکس کے کٹہرے میں پیش ہونا پڑے گا۔
بینکوں سے منافع حاصل کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان ریٹائرڈ ملازمین کی ہوتی ہے جو زندگی بھر ملازمت کے دوران جبراً ٹیکس کٹواتے رہے اور اب جو کچھ ان کو اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد باقی ماندہ زندگی گزارنے کے لیے ملا ہے اس پر بھی حکومت نے ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ ٹیکس کے محکمے نے بینکوں کو پابند کر لیا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پرایک مخصوص رقم نکالنے والے اکاؤنٹ ہولڈرز اور سالانہ کی بنیاد پر جمع کرائی گئی رقم کا حساب کتاب ان کی دسترس میں دیں گے۔
یوں لگتا ہے کہ یہ ملک پاکستانیوں کے لیے نہیں ٹیکس لگانے والے محکمے کے لیے بنایا گیا ہے اور ان کا دائرہ کار ملک کے ہر شعبے تک بڑھایا جارہا ہے۔ مجھے گاؤں سے زرعی ٹیکس کی رسید فوری ادائیگی کی تاکید کے ساتھ موصول ہوئی ہے۔
جس پر فوری ایکشن لیتے ہوئے میں نے گاؤں میں اپنے عزیزوں کو اس کی ادائیگی کی درخواست کی ہے تا کہ میں محکمہ مال کا نادہندہ ہونے سے بچ سکوں کیونکہ بزرگوں کی جو زمینیں مجھے ورثے میں ملی ہیں ان کی دیکھ بھال میری ذمے داری ہے اور میں اپنے علاقے کے پٹواری جسے نئے پاکستان میں اب ولیج آفیسر کا نام دیا جارہا ہے اس سے اپنے تعلقات میں بگاڑ برداشت نہیں کر سکتا اس لیے جیسے ہی مجھے ٹیکس ادائیگی کے لیے کہا گیا میں نے فوراً اس پر عمل درآمد بھی کر دیا ہے۔
مہنگائی کی اگر بات کی جائے تو ان دنوں سب سے بری حالت دہاڑی دار مزدوروں کی ہے جو مہنگائی اور ٹیکسوں کی وجہ سے دم دوڑتی معیشت کا سب سے پہلا شکار بنے ہیں، یہ دہاڑی دار روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کا سامان کرتے تھے لیکن ملک میں کاروبار کی دگرگوں حالت کی وجہ سے ان کی اکثریت بے کار ہو گئی ہے۔
یہاں لاہور میں اب چوریاں اور چھینا جھپٹی عام ہو گئی ہے اور غربت کی یہ وہ حالت ہے جس میں چوری چکاری پر اسلامی فقہ کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ ایک اور بات جسے بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے غربت کے ہاتھوں عزتیں محفوظ نہیں رہی ہیں، میں اس کی تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ اب سر شام راستہ روک لیا جاتا ہے اور جو بوالہوس بہت سستے داموں اپنی تسکین کا سامان کر لیتے ہیں۔ غربت نے مسلمانوں کی خاندانی عزتیں بھی پامال کر دی ہیں۔ عورتوں کے متعلق مختلف این جی اوز بہت خوش ہیں اور اوباش لوگ ان سے زیادہ خوش۔" بھوک کفر کے قریب کر دیتی ہے"۔
دکاندار ٹیکس سے کم اور اپنے کاروبار کو دستاویزی شکل دینے سے زیادہ پریشان ہیں کہ ٹیکس تو انھوں نے گاہکوں سے وصول کر لینا ہے مگر اپنے کاروبار کو دستاویزی شکل دینے سے ان کو اپنے غیر معمولی منافع پر ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس لیے وہ حکومت کے لیے حساب کتاب رکھنے کو تیار نہیں بلکہ منافع کے بجائے ایک مقررہ ٹیکس کی ادائیگی کرنا چاہتے ہیں۔ ملازم لوگ باقاعدہ ٹیکس دیتے ہیں بلکہ یہی وہ طبقہ ہے جو ٹیکس دیتا ہے ان کے دفترتنخواہوں سے ان کا ٹیکس کاٹ کر جمع کرا دیتے ہیں۔
عرض یہ ہے کہ قبلہ اگر آپ کو اقتدار مل ہی گیا ہے تو اسے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے استعمال کیجیے۔ خلق خدا پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بہت تنگ ہے اسے مزید تنگ نہ کریں۔ دنیا بھر میں اچھی حکومتیں عوام کی خدمت کے لیے ہوتی ہیں۔
آپ اچھی حکومت کے وعدے اوردعوے تو کر رہے ہیں اور بیانوں میں اس کا ذکر بھی مسلسل کررہے ہیں مگر آپ کا عمل اس کے مطابق نہیں ہے کیونکہ عوام کو تلاش کرنے کے باوجود آسانیاں پیدا کرنے والی حکومت دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ ایسا نہ کیجیے۔ لوگوں کو اتنا تنگ نہ کیجیے کہ یہ ماضی کے کرپٹ، دھوکے باز، مطلبی اور لٹیرے حکمرانوں کو یاد کرنے لگیں۔