ایک نوجوان کا مقدمہ
میرے قارئین اپنے دکھ دردبیان کرنے کے لیے مجھے فون کرتے ہیں یا پھر ای میل کے ذریعے خط و کتابت کرتے ہیں۔ قارئین کے پیغامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے وطن کے حالات کا دشمنوں کے ساتھ موازنہ کرتے رہتے ہیں۔
اس موازنے سے ان میں مایوسی پھیلتی ہے جس کو وہ میرے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میرے پاس ان کے دکھوں کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ میں ان کی باتیں اپنے کالم کے ذریعے حکمرانوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہوں۔ اب خط ملاحظہ کیجیے۔
ہمارے حکمرانوں نے ملک کی جو حالت کر دی ہے اور آزادی کے دور کو اپنی شخصی آزادی اور لوٹ کھسوٹ کے لیے جس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا ہے اس کا مداوا میں یا آپ کیا کر سکتے ہیں۔ قارئین شکایت کیا کرتے ہیں کہ انھیں امید نہیں دلائی جاتی، مایوس کیا جاتا ہے لیکن جھوٹی تسلی مایوسی سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ حالات جو اور جیسے ہوں ہم سب کو معلوم ہونے چاہئیں اور اپنے آپ کو کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہیے۔
ایک نوجوان نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کا اور میرا رشتہ وطن سے محبت کرنے والا رشتہ ہے، مجھے صرف اسی سے سروکار ہے کہ آپ کی تحریریں وطن کے پیار میں ڈوبی ہوتی ہیں اور یقین کریں وطن کی محبت اس سینے میں آپ سے بھی زیادہ ہے۔ میرا تعلق نوجوانوں کے اس گروہ سے ہے جو کئی ڈگریاں لے کر بھی وطن میں بیروزگار رہتے ہیں۔ میں نے کئی شعبوں کو اپنی خدمات پیش کرنے کی کوشش کی لیکن شاید میرے وطن کو میری ضرورت نہیں تھی اور یوں آج میں روزگار کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہوں جہاں پر وطن کی یاد تو ویسے بھی بڑھ جاتی ہے لیکن موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر مجھے ڈپریشن رہنے لگا ہے۔
میرے اس ڈپریشن کی ذمے داری کس پر ہے، یہ آپ بھی جانتے ہیں لیکن میں ایک عام شہری ہوں، کسی بڑے آدمی سے میرا کوئی تعلق نہیں لیکن میں خدا اور رسولﷺ کے بعد اپنا مقدمہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ میرے ڈپریشن کی وجہ یہ ہے کہ جب میں یہ پڑھتا ہوں کہ ہندوستان آزاد معیشت پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کے زر مبادلہ کے ذخائربڑھ رہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کا تو کوئی شمار ہی نہیں جب کہ میرے وطن عزیز کے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی خبریں آتی ہیں جب کہ بیرونی سرمایہ کار تو پاکستان کا نام سننا ہی پسند نہیں کرتے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سابقہ حکمران کا اپنا کاروبار ہی بیرون ملک ہے تو پھر بیرون ملک سے سرمایہ کار ہم پر اعتماد کیوں کریں گے، جب ہم کو خود اپنے ملک پر اعتبار نہیں۔
ہم ٹیکس پر ٹیکس لگاتے ہیں تا کہ ملکی پیداوار کی حوصلہ شکنی ہو اور ہم بین الاقوامی ملکوں کی منڈی بن کر رہیں۔ میں جب بھارت کی طرف دیکھتا ہوں کہ تو اس نے راتوں رات کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کر لیا ہے اور لاکھوں کشمیری پچھلے چند ماہ سے اس کے رحم و کرم پر ہیں جب کہ ایٹمی پاکستان کے موجودہ حکمران ایمان کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد صرف بیانات تک ہی محدود ہو گئی ہے یا پھر امریکا کے سامنے شکوہ کیا ہے۔ میں اگر اپنے ہمسائیہ ملکوں کو دیکھوں ہم نے کئی دہائیوں تک افغانستان میں سرمایہ کاری کی، نقصان برداشت کیا لیکن جب پھل پکنے کا وقت آیا تو آج افغانستان میں بھارت بھی پہنچ چکا ہے جب کہ چین اور ایران بھارت میں اپنے مفادات کے تحت سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
میرے ملک کے داخلی مسائل میرے لیے بے حد پریشان کن ہیں۔ آئے روز ہنگامے، ہڑتالیں، مذہبی منافرت، قتل اور ڈاکے لیکن افسوس کہ ملزمان گرفتار نہیں ہوتے۔ مہنگائی کا تو کچھ نہ پوچھیں کہ آپ سمیت سب اسے آنے والے اچھے دنوں کی آس و امید میں بھگت رہے ہیں۔ حکومت کا تمام تر زور اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے پر لگا ہوا ہے۔ افسر شاہی جو ملک چلانے کی ذمے دار ہے اس کو حکومت کی جانب سے کوئی سپورٹ نہیں بلکہ آئے روز کے تبادلوں نے ان میں بے دلی پیدا کر دی ہے جس کے اثرات ان کی منفی کار کردگی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
مہنگائی کے سیلاب کے ساتھ بیروزگاری ختم کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس اور واضح منصوبہ بندی ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔ اسپتالوں میں دوائیں نہیں تو ڈاکٹروں کی ہڑتالوں نے مریضوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پیسہ بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، صوبائیت اور عصبیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ غرض ہر طرح کی سماجی اور اخلاقی برائی کا شکار ہم ہو چکے ہیں۔ ایسی حالت میں ملک کے مستقبل کے لیے پریشانی قدرتی امر ہے۔ میرے ملک کو ایک قومی سوچ پر کون لائے گا۔
میرے ملک سے غربت، پسماندگی اور دوہرے نظام کا خاتمہ کون کرے گا۔ میرے ملک کو ارد گرد کے ممالک کے ہم پلہ کرنے کے لیے کون آگے آئے گا، آئے دن جلسے جلوس، ریلیاں اور مذاکرے کرنے والے جب تک خود اپنی باتوں پر عمل نہ کریں تو ایسے مذاکرے کس کام کے۔ یہ میرا مقدمہ ہے اپنے ملک کے حکمرانوں کے خلاف جو میرے ملک کی اس حالت کے ذمے دار ہیں۔ آپ میرے اس مقدمے کو میرے وطن کے حکمرانوں کے سامنے رکھئے کہ کون ہے جو سامنے آ کر مجھے اور میرے ملک کی حالت کو ٹھیک کرے۔
اس طرح کے کئی مراسلے مجھے قارئین کی جانب سے موصول ہوتے رہتے ہیں جن میں اپنے ملک کے حکمرانوں سے مایوسی اور دکھ درد بیان کیا ہوتا ہے۔ ان مراسلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں بسنے والوں کے علاوہ غیر ممالک میں روزگار کی خاطر مقیم پاکستانی بھی ملکی حالات پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اس کے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں لیکن میری ہمیشہ ان سے یہی گزارش ہوتی ہے کہ یہ ملک اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، اس ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ نیک نیت اور بد نیت حکمرانوں کا چنائو ہم اپنی مرضی سے کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کی لا تعداد کوتاہیوں اور لوٹ مار کے باوجودیہ ملک انشاء اللہ قائم و دائم رہے گا یہ میرا ایمان ہے۔