سقوطِ ڈھاکا… کیا سیکھا
یہ یحییٰ خان کا دورِ حکومت تھا۔ 1970ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ مشرقی پاکستان قومی اسمبلی کی 169 میں سے 167سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ اس طرح قومی اسمبلی کے کُل 313 کے ایوان میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہو گئی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بُلا کر شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بظاہر دو وجوہات آڑے آ رہی تھیں، ایک تو جنرل یحییٰ یہ سازش کر رہے تھے کہ ان کو صدر برقرار رکھا جائے اور دوسرا مغربی پاکستان سے اکثریت حاصل ہونے کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں غیر معمولی تاخیر پر مجیب نے عام ہڑتال کی کال دے دی۔ یہ ہڑتال اتنی مکمل اور کامیاب تھی کہ مشرقی پاکستان میں حکومت کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔
ان حالات میں گورنر احسن اور جنرل یعقوب علی خان نے استعفیٰ دے دیا۔ یعقوب کی جگہ ٹکا خان کو کمان سونپ دی گئی۔ آنے والا ہر دن ہنگاموں کی نذر ہونے لگا، لااینڈ آڈر ختم ہو گیا۔ بنگالیوں نے 300 بہاریوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر ذبح کر ڈالا۔ یحییٰ خان کے احکامات پر پچیس مارچ کی رات سے فوجی آپریشن شروع ہو گیا، بہت بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ انڈیا نے موقع جان کر مغربی بنگال میں مہاجر کیمپ قائم کر لیے اور ساری دنیا میں بنگالیوں کے قتلِ عام، لوٹ مار کا ڈھنڈھورا پیٹنا شروع کر دیا۔ 26 مارچ کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر کے جلاوطن حکومت قائم کر دی گئی۔
27 اپریل 1971ء کو دہلی جی ایچ کیو کے آپریشن روم میں اندرا گاندھی کی صدارت میں ایک اجلاس کے بعد اندرا نے جنرل مانک شا کو کہا کہ وہ اپنی افواج کو مشرقی پاکستان پر حملے کا حکم دیں۔ مانک شا نے اندرا کو بتایا کہ وہاں موجود پہاڑی ڈویژن فوج ہے جسے میدانی علاقے میں آپریشن کے لیے مناسب تیاری درکار ہے اور پھر مون سون موسم شروع ہونے والا ہے۔
مشرقی پاکستان کے دریا بپھر کر سمندر کی شکل اختیار کر لیں گے ایسے میں فوج کے پاس بڑی سڑکوں کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ نہ تو انڈین آرمی کی تیاری مکمل ہے اور نہ ہی یہ موسم مناسب ہے اس لیے وہ لڑائی کا حکم نہیں دے سکتا۔ میٹنگ ختم ہوئی۔
وزرا باہر چلے گئے تو اندرا گاندھی نے مانک شا کو رکنے کا کہا۔ مانک نے وزیرِ اعظم کو کہا کہ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیا میں اپنا استعفیٰ یہیں ہاتھ سے لکھ کر دے دوں یا دفتر سے ٹائپ کروا کے بھیج دوں۔ اندرا نے کہا کہ یہ بات نہیں ہے، تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ ابھی میٹنگ میں تم نے مجھے جو کچھ بتایا ہے کیا وہ صحیح ہے اور تم لڑائی کے لیے کب تک تیار ہو جاؤ گے۔ مانک نے کہا کہ میں نے آپ کو بالکل صحیح صورتحال بتائی ہے۔ مجھے تیاری کے لیے آٹھ نو ماہ درکار ہیں۔ اندرا نے کہا کہ ٹھیک ہے، تم تیاری کرو اور مجھے بتاؤ کہ لڑائی کب شروع ہو گی۔
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے بعد کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی کہ حالات کو سدھارا جا سکے۔ جنرل یحییٰ اپنے غلیظ مشاغل میں مصروف پاکستانی سیاست سے کھیلتے اور قوم کا مستقبل تاریک کرتے رہے۔ ادھر انڈیا لڑائی کی تیاری کرتا رہا۔ جنرل جیکب نے مشرقی پاکستان سے لوگوں کو ٹریننگ دے کر مکتی باہنی کھڑی کی اور اسے ایک دشمن قوت کے طور پر پاک فوج کے مقابل کھڑا کر دیا۔ مانک شا کے حکم پر 22 نومبر کو انڈین افواج حرکت میں آ گئیں۔
پاک فوج کے دستے جرات، ہمت اور پامردی سے لڑے۔ ایک محاذ پر پاک فوج کے صرف بیالیس بہادروں نے دشمن کے 540 فوجی مارے۔ جنگ کے بعد ایک انٹرویو میں مانک شا نے کیپٹن احسن ملک کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ کہ ہیلی کے محاذ پر کیپٹن احسن اتنی بہادری اور عقلمندی سے لڑا کہ انڈین فوج متعدد حملوں کے باوجود اس محاذ پر کامیاب نہ ہو سکی لیکن یہ بہادریاں نا اہل قیادت اور بہت ہی بری جنگی حکمتِ عملی کی وجہ سے رائیگاں چلی گئیں۔
ہندوستانی فوجی دستے مکتی باہنی اور مقامی آبادی کی مدد سے ندیوں، دریاؤں کو چھوٹی کشتیوں پر عبور کر کے، ڈھاکا کے باہر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، ہندوستانی پیش قدمی کی جنرل نیازی کو بھنک ہی نہ پڑی۔ مشرقی پاکستان میں ہماری ائیر فورس کا صرف ایک اسکورڈن تعینات تھا جس نے مہارت اور ہمت کی تاریخ رقم کی لیکن ڈھاکا ائیر پورٹ انڈین ہوائی حملوں سے ناقابلِ استعمال بن جانے سے کوئی طیارہ وہاں سے اُڑ نہیں سکتا تھا۔ اِن حالات میں فضائیں مکمل طور پر انڈین ائیر فورس کی دسترس میں آ گئیں۔
13 دسمبر کو ڈھاکا کے باہر پہنچ کر میجر جنرل جیکب وائر لیس پر نیازی سے رابطے میں ہو گیا۔ امریکا کا طیارہ بردار بیڑہ حرکت کرتے ہوئے جنگی تھیٹر کی طرف بڑھنے لگا تو روس نے اپنی ایٹمی سب میرین اور جنگی بحری جہاز بھی مقابلے میں روانہ کر دئے۔ دہلی میں ایک اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد طے پایا کہ جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انڈین افواج کو واپس بلا لیا جائے۔ جنرل اروڑہ کو یہ آرڈر پہنچا دیا گیا جس نے جیکب کو اطلاع دے دی۔
جیکب نے مقامی انڈین ائیر فورس کمانڈر سے ساز باز کر کے ڈھاکا میں گورنر ہاؤس، فوجی ہیڈکوارٹر پر شدید بمباری کی۔ جنرل نیازی پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک طرف تو دھاڑ رہا تھا اور دوسری طرف وہ اور جنرل فرمان امریکی قونصل جنرل کے پاس پہنچے اور تین تجاویز دیں۔
پہلی یہ کہ اقوامِ متحدہ کے تحت سیز فائر ہو جائے، دوم مشرقی پاکستان کی حکومت اقوامِ متحدہ کو سونپ دی جائے اور سوم یہ کہ پاکستانی افواج اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی نکل جائیں۔ یہاں ہندوستان کا کوئی ذکر نہیں تھا، یہی تجاویز اقوامِ متحدہ میں بھٹو کو بھجوا دی گئیں تا کہ انھی لائنوں پر اقوام متحدہ میں حل نکل سکے لیکن بھٹو نے ان تجاویز کو یکسر مسترد کر دیا اور سلامتی کونسل سے طوفان کی طرح باہر آ گئے۔ تبدیل شدہ صورتحال میں سولہ دسمبر کی صبح مانک شا نے اروڑہ اور جیکب کو حکم دیا کہ جنرل نیازی کے پاس جا کر سرنڈر کروائیں۔
جیکب نے نیازی کو بتایا کہ وہ پہنچ رہا ہے۔ نیازی نے اچھے بچوں کی طرح اپنی گاڑی ایک بریگیڈیر کو دے کر اسے لینے بھیج دیا، جیکب نے سرنڈر ڈاکومنٹ نیازی کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ میں تمھیں جواب کے لیے تیس منٹ دیتا ہوں، اسی دوران اروڑہ کلکتہ سے اگرتلہ پہنچا اور وہاں سے ہیلی کوپٹر کے ذریعے ڈھاکا روانہ ہو گیا۔ قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ انڈین اپنی مرضی سے حرکت کر رہے تھے اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
آدھے گھنٹے بعد جیکب نے نیازی سے پوچھا کہ کیا تم سرنڈر کرتے ہو۔ نیازی نے کوئی جواب نہیں دیا، اس پر جیکب نے تین دفعہ پوچھا اور پھر کہا کہ تمہاری خاموشی کہہ رہی ہے کہ تم ہاں کر رہے ہو، اب تم اگلے دن ریس کورس گراؤنڈ میں پبلک کے سامنے دستخط کرو گے۔ یوں اگلے دن نیازی نے ریس کورس گراؤنڈ میں اروڑہ کو سیلوٹ کر کے، اپنے ہتھیار اس کے حوالے کر کے دستخط کر دیے۔
اس سرنڈر کے نتیجے میں نوے ہزار سے اوپر پاکستانی انڈین قیدی بن گئے اور ساری قوم کا سر ذلت سے جھُک گیا۔ جنرل نیازی ڈھاکا کا بخوبی دفاع کر سکتا تھا۔ فوجی تو بغیر اسلحہ و خوراک بھی لڑنے کے لیے تیار تھے۔ اگر نیازی صرف ایک دو دن گزار لیتا اور وہ اتنی بڑی تعداد میں جان نچھاور کرنے والے فوجیوں کی موجودگی میں بآسانی دو دن نہیں بلکہ دو ہفتے بھی گزار سکتا تھا تو اس دوران سیز فائر کی قرارداد ضرور منظور ہو جاتی۔ اگر کاغذی ٹائیگر نیازی کی جگہ یہی کمان کیپٹن احسن یا کرنل سلیمان جیسے دل اور دماغ رکھنے والے کسی کمانڈر کے ہاتھ ہوتی تو تاریخ بہت مختلف ہوتی۔ کاش ہم اب بھی کچھ سبق لے لیں۔