ایف اے ٹی ایف اور پاکستان
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) ایف اے ٹی ایف39( ملکوں بشمول امریکا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، آسٹریا، بلجیم، برازیل، کینیڈا، چین، ڈنمارک، یورپین کمیشن، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، جی سی سی، ہانگ کانگ، آئس لینڈ، آئر لینڈ، اسرائیل، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، لکسمبرگ، ملائیشیا، میکسیکو، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، پرتگال، روس، سعودی عرب، سنگاپور، جنوبی افریقہ، اسپین، سویڈن، سوئٹزر لینڈ، ترکی اور برطانیہ جب کہ انڈونیشیا بطورآبزرور پر مشتمل ایک تنظیم ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد جی سیون ممالک کی سربراہی کانفرنس منعقدہ پیرس میں 1989ء میں رکھی گئی۔ یہ ایک بین الحکومتی تنظیم ہے۔ چین اس کا موجودہ صدر ہے۔
اپریل 2019ء سے پہلے یہ تنظیم ایک فکسڈ مدت کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن اس سال اپریل میں اس کے قیام کی مدت کو اوپن اینڈڈ یعنی کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اس لیے اب یہ اُس وقت تک کام کر سکتی ہے جب تک اس کی ضرورت ہو، اس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے قانونی، ریگولیٹری اور آپریشنل اقدامات بروئے کار لانا ہے۔
اکتوبر 2001ء میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ ٹیرر فنانسنگ Terror Financing کی روک تھام کے لیے مالیاتی اقدامات کو بھی ایف اے ٹی ایف کے مینڈیٹ میں شامل کر لیا گیا۔ پھر اپریل 2012ء میں بڑے پیمانے پر تباہی پھلانے والے ہتھیاروں Weapons of Mass Destruction کو بنانے اور پھیلانے کے خلاف اقدامات کو بھی ایف اے ٹی ایف کے مینڈیٹ میں دے دیا گیا۔
ایف اے ٹی ایف کا اجلاس سال میں تین مرتبہ ہوتا ہے۔ بھارت اس کا کُل وقتی ممبر ہے جب کہ پاکستان اس کا ممبر نہیں ہے۔ بھارت اپنی بڑی معیشت، بڑی آئی ٹی انڈسٹری۔ بڑی منڈی اور پرو ایکٹو سفارتکاری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس تنظیم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے دنیا کو باور کرا دیا ہے کہ پاکستان اس کے خلاف دہشتگردی کرتا ہے۔ بھارت ایف اے ٹی ایف اجلاسوں میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔
پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار ایک عرصے سے لٹک رہی ہے۔ بار بار کی ناکامیوں اور وارننگز کے باوجود ہم اپنے مالیاتی نظام کو گلوبل مالیاتی نظام سے ہم آہنگ نہیں کر پائے۔ پاکستان کافی دیر سے گرے لسٹ میں چل رہا ہے۔ ہم نے آئی ایم ایف کو پروگرام لینے سے پہلے یقین دہانی کروادی تھی کہ پاکستان اکتوبر 2019ء تک ایسے اقدامات کر لے گا کہ اکتوبر میں گرے لسٹ سے باہر ہو جائے گا۔ حماد اظہر اکتوبر کی میٹنگ میں پیرس جانے سے پہلے یہ کہہ کر گئے تھے کہ ہم نے بہت کام کر لیا ہے اور ایسے اقدامات اٹھائے ہیں کہ پیرس میں ہونے والی میٹنگ میں ضرور کامیابی ہوگا۔ ان بیانات پر بھروسہ کرتے ہوئے ساری قوم امید کر رہی تھی کہ اچھی خبر آئے گی۔
پیرس میں میٹنگ کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اقدامات کا بغور جائزہ لیا جا رہاتھا۔ پاکستان نے چند شعبوں میں کچھ کامیابی حاصل کی ہے جس کے لیے وہ شاباش کا مستحق ہے لیکن مجموعی طور پر پاکستان ناکام رہا ہے۔
پاکستان نے ایک ایکشن پلان کے تحت یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سنجیدگی سے کام کرتے ہوئے تمام کمزوریوں پر قابو پالے گا۔ پاکستان کی طرف سے بہت ہی اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ اس سلسلے میں اقدامات کرنے کے لیے پاکستان کو جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ ختم ہو چکی ہے اور اس کے خاتمے پر یہ نظر آ رہاہے کہ چندشعبوں کو چھوڑ کر زیادہ تر شعبوں میں کوئی پراگریس نہیں ہوئی۔ پاکستان کو ابھی اور زیادہ کام کرنا ہے اور یہ کام تیزی سے ہونا چاہیے۔ چونکہ ڈیڈ لائن ختم ہو گئی ہے اس لیے ایف اے ٹی ایف پاکستان کو وارننگ دیتا ہے کہ اگر فروری 2020ء تک خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی گئی تو خدشہ ہے کہ پاکستان کو پبلک اسٹیٹمنٹ میں ڈال دیا جائے یعنی بلیک لسٹ کر دیا جائے۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے حوالے سے اپنی دو سو تیس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس کی ایگزیکٹو سمری نو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھنے سے دل بیٹھ جاتا ہے کیونکہ اس میں صاف طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں مالیاتی فیصلہ کرنے والے اور مالیاتی اداروں کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں ہے کہ کس طرح کام کرنا ہے، کیا اقدامات اُٹھانے ہیں اور مالیاتی پالیسی کیا بنانی ہے۔ یہ تو ہماری تمام مالیاتی ٹیم اور مالیاتی اداروں بشمول ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے اوپر عدم اعتماد نظر آتا ہے۔ اس رپورٹ میں ہمارے اداروں کی کمزوریوں، نااہلیوں اور نا لائقیوں کا ذکر ہے۔
نظر یہ آتا ہے کہ ایف بی آر اپنا کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جب کہ اسٹیٹ بینک اس بات کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ انھوں نے آئی ایم ایف مصر ماڈل کو پاکستان میں ضرور لاگو کرنا ہے حالانکہ مصر میں یہ ماڈل بالکل ناکام ہو چکا ہے۔ 2016 ء میں IMF کا پروگرام مصر میں لاگو کیا گیا۔ اس پروگرام کے نتیجے میں مصر کی معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ مصر کے بیرونی قرضے پانچ گنا بڑھ گئے ہیں اور اندرونی قرضے ڈبل ہو گئے ہیں۔ مصر کی 60 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے چلی گئی ہے کاش کوئی ہمارے فیصلہ سازوں کو یہ سمجھا سکے کہ مصر کا ماڈل ایک انتہائی ناکام ماڈل ہے اس سے بہت نقصان ہو چکا ہے اور آگے چل کر مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔ پہلے ہی شرحِ سود نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی وارننگ کے بعد کہا جا رہا ہے کہ کارکردگی بہتر بنانے اور ایف ا ے ٹی ایف کو پراگرس دکھانے کے لیے کئی آرڈیننس جاری ہوں گے۔ تعجب ہے کہ رواں ماہ پیرس میٹنگ میں جانے سے پہلے آرڈیننس کیوں جاری نہیں کیے جا سکے، کیوں واننگ جاری ہونے کا انتظار کیا گیا۔ اس سے اس آبزرویشن کو تقویت ملتی ہے کہ ہماری مالیاتی ٹیم اور مالیاتی اداروں کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں کہ کیا خطرات ہیں اور ان سے نبٹنے کے لیے کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم ضروری اقدامات نہ کر سکے اور فروری 2020ء میں وارننگ کے مطابق بلیک لسٹ ہو گئے تو کیا ہو گا۔ بظاہر ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ جائیں گے لیکن ہماری بیرونی تجارت کرنے کی صلاحیت اورکاسٹ بہت بڑھ جائے گی۔ بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے بہت کڑی شرائط سے گزرنا ہوگا یوں بینک اکاؤنٹس کھولنے مشکل ہو جائیں گے۔ ان تمام مشکلات سے نکلنے کے لیے ہمارا قانونِ شہادت بھی ایک رکاوٹ ہے اور اس میں تبدیلی لانا ایک لمبا عمل ثابت ہو سکتا ہے۔
ایتھوپیا جیسا ملک ابھی اکتوبر میں گرے لسٹ سے باہر آیا ہے۔ سری لنکا اور تیونس نے بھی یہ معرکہ سر کر لیا ہے اگر یہ ممالک ایسا کر سکتے ہیں تو پاکستان بھی اس قابل ہو سکتا ہے۔ 2015ء میں ہم نے ایسا کر لیا تھا جس کا مطلب ہے کہ ہمارے اندر صلاحیت موجود ہے۔
ہماری حکومت اور مالیاتی اداروں کو بہت تشویش ہونی چاہیے لیکن کوئی ہلچل نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں تین غیر ملکی بینک کام کر رہے ہیں اگر ہم بلیک لسٹ ہو گئے تو ان بینکوں کے لیے بھی کام آسان نہیں رہے گا۔ ہم بیرونِ ملک سکوک اور یورو بانڈز جاری کرنے کی صلاحیت کھو دیں گے، خدا کرے ضروری اقدامات سُرعت سے اُٹھائے جائیں تاکہ ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔