Tehzeebon Ka Bojh
تہذیبوں کا بوجھ
آج کا انسان بہت کم دل سے مسکراتا ہے، کیونکہ دل کی خوشی جیسے کہیں کھو گئی ہے۔ وہ خوشی جو آنکھوں میں نمی لے آئے، دل کو چھو جائے اور ایک لمحے کے لیے وقت کو روک دے، وہ خوشی محض ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
ہماری خوشیاں اب صرف قہقہوں تک محدود ہیں اور دل جیسے کہیں ساکت، خاموش کھڑا ہے۔
ہماری زندگی میں جیسے احساسات کی اصل شدت باقی نہیں رہی۔
ہم نے اپنے چہروں پر تہذیب، شائستگی اور رویے کی وہ چادریں اوڑھ لی ہیں جو ہمیں "مہذب" تو بناتی ہیں، مگر اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
ہم تھک چکے ہیں۔۔ مگر اس تھکن کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔
کیونکہ ہم نے اپنے جذبات کے گرد ایسے دیواریں کھڑی کر دی ہیں، جو اب ہماری شناخت کا حصہ بن چکی ہیں۔
اسی کیفیت کا عکس، یہ نظم ہے:
تہذیبوں کا بوجھ ہے ہر لمحہ
جہاں مسکرانا ہے فرض جیسا
اب تھکا ہے انسان لمحہ بہ لمحہ
کون چاہتا ہے مہذب کہلانا
اب خوشی کا احساس بھی ہے گھُٹا سا
ہر لفظ پہ سوچ کا ہے پہرہ سا
خوشی کا مزہ بھی رہتا ہے پھیکا سا
غم کا رہتا ہے ہر پل اندیشہ سا
کبھی تو چلیں بغیر حجاب کے جذبات
بغیر ادب و آداب کے پہروں کے
کبھی نکلے مسکراہٹ خوشی سے
کبھی تو نکلیں آنسو آنکھ کھول کے
کبھی تو ہو فرصت کی فراغتیں
کبھی تو لگیں غم و خوشی کی مجلسیں
کبھی تو ہو روبرو سب جذبات
کبھی تو کہیں، "ہم کو ہے جینے کا احساس۔۔ "
ہماری زندگی اب مصنوعی خوشیوں اور زبردستی کے خالی قہقہوں کا مجموعہ بن گئی ہے۔
ہمارے دلوں پر میل جم چکی ہے۔
کہیں منافقت کی تہہ ہے۔
کہیں حسد کے داغ۔
کہیں مروّت کی چپ۔
تو کہیں مجبوری کی زنجیریں۔
انسان آہستہ آہستہ ایک روبوٹ کی طرح جینے لگا ہے، جذبات سے خالی، محسوسات سے خالی۔ لیکن پھر بھی، کہیں نہ کہیں دل کے اندر کوئی خواب، کوئی روشنی، کوئی چراغ جلتا رہتا ہے۔
یہی وہ اندرونی روشنی ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شاید زندگی ایسی نہیں ہونی چاہیے۔ شاید، ہمیں کبھی بے ساختہ رونا، دل کھول کر ہنسنا اور بنا ڈھالوں کے جینا سیکھنا ہوگا۔۔
کبھی وقت نکال کر، اپنے دل سے پوچھئے گا
کہ آخری بار وہ دل سے ہنسا کب تھا؟

