Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zahra Javed
  4. Sarkon Par Khwab Liye Ustad

Sarkon Par Khwab Liye Ustad

سڑکوں پر خواب لیے استاد

زندگی آسان تو کسی کے لیے بھی نہیں ہوتی، اس بات میں کوئی شک نہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے امتحان دیکھ کر ہم بھی زندگی سے سوال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں۔

اکثر فارغ وقت میں یوٹیوب پر کچھ نہ کچھ دیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ دو دن پہلے ایک ایسی ویڈیو نظر سے گزری جو دل کو جھنجھوڑ گئی اور ہاتھوں سے گزاری نہ جا سکی۔ ویڈیو میں ایک ایسا نوجوان دکھایا گیا تھا جس نے ایم فل مکمل کر رکھا تھا، ایک قابل، پڑھے لکھے اور محنتی انسان کو دکھایا گیا جو اپنی اعلیٰ تعلیم کے باوجود گلی گلی پھر کر پرفیوم، بُوکے اور چھوٹی موٹی چیزیں بیچنے پر مجبور تھا۔

کیوں؟ کیونکہ ہمارے پاکستان میں ایم فل اور ماسٹرز جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ ایک وہی پیشہ جو نسبتاً آسانی سے دستیاب ہوتا ہے، وہ ہے ٹیچنگ۔

مگر افسوس، آج کا استاد نہ طالبعلم کو ڈانٹ سکتا ہے، نہ سمجھا سکتا ہے۔ ذرا سی سختی یا اصلاح کی کوشش ہو تو یا تو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یا استاد خود ہی دل برداشتہ ہو کر نوکری چھوڑ دیتا ہے اور پھر وہی سڑکیں، وہی سوال اور وہی تلاش، جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

اُس نوجوان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ مگر فرق یہ تھا کہ اُس نے خود ہی ٹیچنگ چھوڑ دی تھی۔ ماحول اتنا گھٹن زدہ ہو چکا تھا کہ اُس نے عزتِ نفس کو ترجیح دی اور فیصلہ کیا کہ وہ ایسے نظام کا حصہ نہیں بنے گا جہاں نہ استاد کو مقام دیا جاتا ہے، نہ طلبہ میں سیکھنے کی لگن باقی رہی ہے۔

حالانکہ استاد کا مقام اسلام میں بے حد بلند ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے: "جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، اُس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا"۔

مگر افسوس، ہمارے معاشرے میں استاد کو استاد نہیں، محض ایک ملازم سمجھا جاتا ہے، جسے حکم دیا جا سکتا ہے، دبایا جاسکتا ہے اور کسی بھی وقت ہٹایا جا سکتا ہے۔

یہی بے قدری اُس نوجوان کو دل برداشتہ کر گئی اور آج وہ علم بانٹنے کے بجائے، سامان بیچنے پر مجبور ہے۔

کہنے کو تو ہمارے پاس ہزاروں راستے اور آپشنز ہوتے ہیں، مگر جب عملاً کچھ کرنے کا وقت آتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ سب صرف باتیں تھیں۔ جو تعلیم ہم نے حاصل کی، اس کا عملی فائدہ کہیں نظر نہیں آتا۔

پھر دل میں خیال آتا ہے: "کاش ہم نے یہ ڈگری نہ لی ہوتی، کوئی ہنر سیکھا ہوتا، تو آج شاید کچھ اور ہوتا"۔

مگر شاید قدرت کو یہی آزمائش منظور تھی۔ لیکن یاد رکھیے، اللہ کا وعدہ ہے: "بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے"۔

آج اگر مشکل وقت ہے تو کل آسانی ضرور آئے گی۔

بس ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہی ہم کچھ اقدامات کریں، کچھ فیصلے لیں، تاکہ ننھے چراغ بجھنے سے پہلے اُنہیں ایک روشنی، ایک امید اور ایک منزل مل سکے۔ کیونکہ تبدیلی محض سوچنے سے نہیں آتی، عمل کرنا ہوگا اور شاید، وہ وقت آ چکا ہے۔ بلکہ گزر رہا ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali